کیا واقعتاً کوئی نہیں جانتا کہ 14 اگست کوکیا ہوگا؟ یہ 'بے خبری‘ تو ہمارے ہاںکبھی ایسی نہ تھی ! اگر مصرکے حالات سے سبق حاصل کریں (جو ہمارے لیے کوئی نیا نہیں) تو انقلاب کا نتیجہ فوجی جنرلوں کے حق میں نکلا۔ جب طاہرالقادری دھمکی دے رہے ہیں کہ وہ موجود نظام کو پلٹ کر رکھ دیںگے تو ان کا مطلب بھی یہی ہے کہ کچھ ادارے حکومت کو چلتا کردیں۔ مزید یہ کہ انقلاب راتوں رات نہیں آیا کرتے۔ ہماری سست روی کی طرف مائل، کم کوش فضا میں انقلابی واہ توکیا ''آہ کو بھی چاہیے اک عمر اثر ہونے تک ‘‘۔ تو پھر یہ افراتفری، ہَلا گُلا اور ''ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟‘‘
مصر میں حسنی مبارک کی تیس سالہ آمریت کے خلاف 2011 ء میں احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے۔ اُس کو عرب بہار کے نام سے موسوم کیا گیا۔ حسنی مبارک کو ہٹنا پڑا اور ملک میں پہلی بار پارلیمانی انتخابات ہوئے جن میںاخوان المسلمون کے رہنما محمد مرسی صدر منتخب ہوئے۔ پھر صدر مرسی کے آمرانہ رویے کے خلاف ہونے والے احتجاج کے نتیجے میں فوج نے شب خون مارا اورجنرل سیسی نے اقتدار سنبھال لیا۔ سیاسی پنڈت مراقبوں میں ڈوبے ہوئے ہیںکہ کیا اس 14اگست کو پاکستان میں یہی ڈرامہ تو نہیں دہرایا جائے گا؟ مراقبے سے بیدا ر ہوکر وہ خان اور قادری کی طرف سے واشگاف نعرے سنتے ہیں جبکہ ملک کی فضا آنسو گیس سے بوجھل ہورہی ہے۔ پتھرائو، جلائو اور گھرائو کا سلسلہ جاری ہے۔اس صورت حال میں وہ چشم ِتصور سے کچھ انہونی ہوتے ہوئے دیکھنے لگتے ہیں۔ اس دوران الیکٹرانک میڈیا پر ''بہارِ عرب‘‘ کا ساسماں لگتا ہے اور بیانات کی ریٹنگ راکٹ کی طرح بلند، بلکہ اور بلند ہو جاتی ہے۔
ماضی میں ایسے مواقع پر بہت کم شک کی گنجائش ہوتی تھی کہ پاکستان کی طاقتور فوج مداخلت نہیں کرے گی۔ پیر پگاڑا مرحوم کو بھاری بوٹوں کی دھمک دور سے سنائی دینے لگتی تھی ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج فرقہ واریت، دہشت گردی، قوم پرستی اور مالی بدحالی جیسے بیشتر پاکستانی مسائل کی ذمہ داری ڈکٹیٹروں پر عائد ہوتی ہے، لیکن اس کے باوجود سیاست دان انقلاب کے لیے اسی ادارے کی طرف دیکھتے ہیں۔ عمران خان کا بھی کہنا ہے کہ ''اگر فوج آئی تو حکمرانوں کی وجہ سے آئے گی‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے ایک آس تو ہے کہ حکمرانوں کا دھڑن تختہ دفاعی اداروں کے ہاتھوں ہی ہوگا۔ مصر میں مرسی حکومت اور مظاہرین کے درمیان ڈیڈ لاک پیدا ہوا توفوج نے اڑتالیس گھٹنے کا الٹی میٹیم دیا : ''عوام کے مطالبات تسلیم کرتے ہوئے حکومت اور اس کے مخالفین کسی معاہدے پرپہنچ جائیں ورنہ۔۔۔۔۔‘‘ وارننگ میں کہا گیا کہ یہ آخری موقع ہے۔ اوراپنی بات سے پھرنا جوانوں کو زیب کب دیتا ہے !
صدر مرسی کی رخصتی کو عوام کا شاندارکارنامہ قرار دیتے ہوئے مصری فوج نے تبصرہ کیا کہ مظاہرین نے ''بہت پرامن اور مہذب طور پر احتجاج کیاتھا، اس لیے ضروری تھا کہ ان کی خواہش کا احترام کیا جائے‘‘۔ چنانچہ فوج نے عوام کی خواہشات کا احترام کیا اور ایک منتخب صدرکو چلتا کیا۔ مصری فوج کے چیف نے کہا:''ملکی سلامتی کو شدید خطرات لاحق تھے ا س لیے فوج کو اپنی ذمہ داری ادا کرنا پڑی ‘‘۔ آئندہ آنے والے واقعات کے لیے روڈ میپ یہی ہے کہ جب بھی ملکی سلامتی کو خطرہ لاحق ہوگا، فوج کو غافل نہیں پایا جائے گا (اب کیا کیا جائے، ایسے ممالک میں قومی سلامتی نامی عفیفہ بات بات پر خطرے سے دوچار ہوجاتی ہے۔ پتا نہیں وہ کسی گوشۂ عافیت میں کیوں نہیں بیٹھ جاتی)۔
ہمارے رہنمااپنی مرصع کرسیوں پر بیٹھے خود کو محفوظ سمجھنے کی غلطی کرجاتے ہیں۔ اسلام آبادسے راولپنڈی دوہاتھ کی دوری پر ہے، اس کے باوجود وہ ایک دوسرے سے دودوہاتھ کرنے سے باز نہیں آتے۔ جب وہ اقتدار میں ہوتے ہیں تو ملکی وسائل کو بے دردری سے لوٹتے ہیں اور جب کوئی مصیبت سر پر آن پڑے تو جمہوریت کے پیچھے پناہ لے لیتے ہیں۔ ڈاکٹر قادری کا پچھلا مارچ پی پی پی حکومت نے بہت عمدگی سے ٹال دیا تھا۔ زرداری حکومت تحلیل کرنے کی پے درپے ڈیڈلائنز دینے کے بعد بالآخر وہ کائرہ، نائک اور ملک سے بغل گیر ہوتے دکھائی دیے جبکہ فضا مبارک سلامت کی آوازوںسے گونج رہی تھی۔ اس کے بعد میڈیا میں کنٹینر کے حوالے سے بھی بہت سی پھبتیاں کسی گئیں۔ گزشتہ انتخابات سے پہلے بھی قادری صاحب نے ''بھل صفائی ‘‘ مہم شروع کرنے کی ٹھانی لیکن سپریم کورٹ سے سرزنش کرانے کے بعد انہیںکینیڈا سدھارتے ہی بنی۔
تاہم موجودہ حالات کی سنگینی گزشتہ دونوں مواقع سے زیادہ ہے کیونکہ اس مرتبہ یک نہ شد دو شد والا معاملہ ہے۔ فی الحال عمران خان اور ڈاکٹر صاحب نے مل کر احتجاج کرنے کا عندیہ نہیں دیا لیکن اگر ایسا ہوتاہے اور کوئی اور جماعت، جیسے ایم کیوایم بھی ان کی پشت پرآجا تی ہے تو معاملہ مختلف ہوگا ۔ تاہم اس وقت ایم کیو ایم اور عمران خان، طاہرالقادری کے ساتھ نہیں ہیں۔ ایم کیو ایم جمہوریت کا تسلسل چاہتی ہے جبکہ عمران خان تنہاہی میدان مارنا چاہتے ہیں ؛ حالانکہ بطورکھلاڑی وہ جانتے ہیں کہ ایک تیز ترین بالرکو بھی وکٹ کیپر اور فیلڈنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر قادری سے لاہور اور پنجاب کے دیگر شہروں میں سختی کرنے کے بعد اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران کے آزادی مارچ کو حکومت کیونکر روک پاتی ہے۔ کیا اسلام آباد کا دفاع پولیس کرے گی یا فوج ؟ اگر لاکھوں کارکن دارالحکومت کی جانب بڑھتے چلے آئے تو انہیں کیسے روکا جائے گا؟ پاکستان کوئی افریقی ملک تو ہے نہیں کہ عسکری ادارے عوام پر فائرکھول دیںگے۔
اب جبکہ ملک میںدرجہ حرارت کھولائو کی طرف بڑھ رہا ہے، یہ بات دیکھی جاسکتی ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر قادری، دونوں اپنے سابق موقف میں واضح تبدیلی لاچکے ہیں۔ پہلے علامہ قادری انتخابی عمل میں اصلاحات لاکر صادق اور امین افراد کا انتخاب چاہتے تھے لیکن اب وہ اس پورے نظام کی بساط ہی لپیٹ دینے کے درپے ہیں۔ عمران خان چار حلقوں کی دوبارہ گنتی چاہتے تھے، اب حکومت اس بات پر تیار دکھائی دیتی ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ڈی چوک میں بات ہوگی (حالانکہ میڈیا رپورٹس کے مطابق تو وہ کھود دیا گیا ہے۔) وہ مارچ کرتے ہوئے اسلام آباد میں بیٹھ جائیںگے اور پھر حکومت کے سامنے مطالبات رکھیںگے۔ ایک ٹی وی چینل پر نسیم زہرہ کو دیے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں خاں صاحب نے ان کے مسلسل سوالات کے باوجود یہ نہیں بتایا کہ اب ان کے مطالبا ت کیا ہیں۔ یہ بھی اندازہ لگایا جارہاہے کہ فی الحال ان کے ذہن میںکوئی مطالبات نہیں ہیں، وہ حالات دیکھتے ہوئے موقعے کی مناسبت سے مطالبات ترتیب دیں گے۔ بہرحال جماعت ِ اسلامی کے امیر نے اشارادیا ہے کہ اگر دس حلقوںکی دوبارہ گنتی ہوجائے تو مارچ رک جائے گا ؛ تاہم اندازہ ہے کہ مارچ تو ہوگا لیکن اس دن فریقین(حکومت اور پی ٹی آئی) کی بدن بولی سے پتا چل جائے گاکہ آیا کوئی افہام وتفہیم ہو چکی ہے ؟ اور یہ مارچ اور بظاہر مزاحمت اپنی اپنی عزت رکھنے کے لیے ہیں یا پھر ''سپاٹ فکسنگ ‘‘ نہیں کی گئی اور درحقیقت اسلام آباد میں میچ ہونے جارہا ہے۔ بہرحال پاکستان کے لیے یہ یومِ آزادی غیر معمولی ثابت ہونے جارہا ہے۔ اس وقت تمام سیاسی دبائو پنجاب کی سرزمین پر محسوس کیا جارہا ہے۔ یہاں عوام حالات کی تمازت محسوس کررہے ہیں۔ پٹرول اور دوسری ضروریات ِ زندگی کا حصول مشکل ہوچکا ہے اور سڑکیں بند ہوچکی ہیں۔ آگے کیا ہوگا‘ خدا جانتا ہے۔