مشرق ِ و سطیٰ سے آنے والی ایک افسوس ناک حد تک اچھی خبر یہ ہے کہ اربیل( Erbil)، جو کہ کرد علاقے کا دارالحکومت ہے، کی طرف آئی ایس آئی ایس کی پیش قدمی روکنے کے لیے امریکی بمباری شروع ہوگئی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بمباری کواچھی خبر کہنا پڑ رہا ہے۔ اس سے بھی زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ سنجر کے پہاڑوں پر پناہ لینے والے چالیس ہزار سے زائد ایزدی (Ezidi) فرقے سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ہوائی جہازوں کے ذریعے خوراک ، پانی اور دیگر امدادی سامان گرایا جارہا ہے۔ بے سروسامانی کے عالم میں جان بچانے کے لیے اپنے گھروںسے فرار ہونے والے ایزدی فرقے کے یہ افراد سخت پریشانی سے دوچار ہیں۔ ان کی جان کو سخت خطرہ لاحق ہے لیکن مسلم دنیا ان کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی۔
یہ ایزدی افراد کون ہیں؟ دراصل ان کا تعلق 11ویں صدی کے ایک فرقے سے ہے جو زردشت کے پیروکاروں کی ایک شاخ ہے۔ زردشت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پیغمبر تھے اور اُن کا زمانہ اسلام سے پہلے کا ہے۔ ان کے عقائد اسلام اور عیسائیت کے اشتراک سے وجود میں آئے۔ زیادہ تر انہیں غلط فہمی کی بنا پر شیطان کے پجاری سمجھتے ہیں۔ اس غلط فہمی کی بنیادیہ ہے کہ اگرچہ یہ فرقہ ایک آسمانی طاقت پر یقین رکھتا ہے جسے یہ یزدان کہتے ہیں لیکن وہ دن میں پانچ مرتبہ اس کے سات فرشتوں میں سے ایک کی عبادت کرتے ہیں۔ اس فرقے کا نام ایزدی ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایک خدا پر یقین رکھتے ہیں؛ تاہم ہمارا موضوع ان کے مذہب کا پتہ لگانا نہیں بلکہ انسانی پہلو کو دنیا کے سامنے رکھنا ہے۔
ملک کے ہنگامہ خیز حالات سے دو ر اور بڑی حد تک لاتعلق یہ فرقہ عراق کے شمالی علاقوںمیںخاموشی سے رہتا چلاآیا تھا ۔ بیرونی دنیا میں بہت کم لوگ اس کے وجود سے آشنا تھے، لیکن 2003 ء میں امریکی حملے کے نتیجے میں سراٹھانے والی مذہبی انتہاپسندی نے ان کی تنہائی ختم کردی۔2007 ء میں ان کے شہر سنجر میں ہونے والے بم حملوں میں آٹھ سو ایزدی افراد ہلاک ہوگئے جبکہ بہت سوں نے یورپ میں پناہ لینے میں عافیت گردانی۔ گزشتہ چند ایک دنوں سے اس پرامن فرقے کی بقا کو سخت خطرات لاحق ہوچکے ہیں ۔ اس کی وجہ آئی ایس آئی ایس کی شمالی عراق کی طرف پیش قدمی ہے۔ مذہبی انتہاپسندوں کی یہ قوت سنجر کو فتح کرچکی ہے۔ ایزدی فرقے کے پاس دو ہی آپشن ہیں ۔۔۔ یا تو انتہا پسندوں کا مذہب قبول کرلیں یا مرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ چنانچہ اُنھوں نے جان بچانے کے لیے سنجر کے پہاڑوں میں پناہ لی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ وہی پہاڑ ہیں جہاں سیلاب کے بعد پیغمبر نوح علیہ السلام کی کشتی آکر ٹھہری تھی۔
اس وقت عملی طور پر ایزدی فرقے کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ آئی ایس آئی ایل (آئی ایس آئی ایس) کے جنگجو سینکڑوں ایزدی مردوں، عورتوں اور بچوں کو ہلاک کرچکے ہیں جبکہ چارسو کے قریب نوجوان لڑکیوںکوقیدی بناکر جنگجوئوں نے اپنی دلہنوں کے طور پر چن لیا ہے۔ ہو سکتاہے کہ انسانی ہمدری کی خاطر امریکہ کی طرف سے خوراک اور پانی گرانے سے پہاڑوں میں پناہ لینے والے افراد فوری طور پر موت کے منہ میں جانے سے بچ جائیں لیکن کتنے دن تک؟ یہاں دن کے وقت درجہ حرارت پینتالیس سے تجاوز کرجاتا ہے جبکہ پانی کی سخت قلت ہے۔ اس وقت عراقی فوج اور کرد دستوں پر آئی ایس آئی ایس کا شدید دبائو ہے اور وہ ان افراد کی جان بچانے کے لیے کچھ نہیں کرسکتے۔
ایزدی افراد کو انسانی بنیادوں پر خوراک پہنچانے کی بات مختلف دارالحکومتوں میں کی جارہی ہے لیکن کوئی بھی ان کی مدد کے لیے فوجیں اتارنے کے لیے تیار نہیں۔ اس وقت امریکی ٹرانسپورٹ طیاروں سے گرائی جانے والی خوراک ہی ان کے جسم وجاں کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اگرچہ امریکی ڈرونز اور F-18 طیاروں کی بمباری نے آئی ایس آئی ایس کی پیش قدمی کو وقتی طور پر روک دیا ہے لیکن صدر اوباما کا کہنا ہے کہ ''امریکی طیارے عراقی ائیرفورس نہیں بنیں گے۔‘‘
جس دوران آئی ایس آئی ایس کے جنگجو انسانوں کو کیڑے مکوڑوں کی طرح ہلاک کررہے ہیں، عراقی نئی حکومت کے قیام کی بحث میں الجھے ہوئے ہیںحالانکہ تین ماہ پہلے پارلیمانی انتخابات ہوئے تھے۔ نورالمالکی نے اقتدار سے چمٹے رہنے کے لیے بہت ڈھٹائی سے ہرحربہ استعمال کیا ۔ وہ طویل عرصے سے اقتدار پر موجود ہیں اور ان کی وجہ سے عراقی فوج بھی بہت کمزور ہوچکی ہے کیونکہ انھوں نے فوج کی اعلیٰ پوزیشنز عملی طور پر ''نیلام ‘‘ کردی تھیں۔ جس دوران بغداد میں یہ کھیل کھیلا جارہا ہے، ملک میں بسنے والے اقلیتی گروہوں کی جان خطرے میں ہے۔ آئی ایس آئی ایل نے شمال میں آباد عیسائی قصبے قراقوش(Qaraqosh) اور اس سے ملحق دیہات پر قبضہ کر لیا ہے۔ چونکہ یہ عیسائی ''اہلِ کتاب‘‘ ہیں، اس لیے شدت پسندوں نے انہیں موت یا اسلام قبول کرنے کے علاوہ ایک تیسری چوائس بھی دی ہے کہ وہ اسلامی احکامات کے مطابق اسلامی ریاست میں جزیہ دے کر رہ سکتے ہیں۔ اس کے لیے فی کس ساڑھے چارسو ڈالر ماہانہ کی رقم مقرر کی گئی ہے۔۔۔ علاقے میں رہنے والے زیادہ تر عیسائیوں کے لیے یہ بہت بڑی رقم ہے، اس لیے یہاںسے بھی عیسائی خاندان جان اور اپنی لڑکیوں کی آبرو بچانے کے لیے بھاگ رہے ہیں جبکہ خون میں ڈوبی ہوئی قوتیں ان کے تعاقب میں ہیں۔
2003 ء میں کیے جانے والے امریکی حملے کے بعد سے عراق کی پندرہ لاکھ عیسائی آبادی میں سے دوتہائی یہاںسے جان بچانے کے لیے دیگر ممالک میں پناہ لے چکی ہے۔ یہ عیسائی باشندے قبل ازاسلام کے دور سے یہاں کی آبادی کا حصہ تھے۔ انھوںنے عراقی سیاست، کاروبار، فنون اور پیشہ ور زندگی میں اہم کردار ادا کیا تھا لیکن اب یہاں موت ان کے تعاقب میں ہے۔ ملک میں بڑھتے ہوئے تشدد اور عدم برداشت کی فضا میں اکثریت کو زندہ رہنے کا حق نہیں ۔
اس وقت، جب میں یہ مضمون لکھ رہاہوں تو میرے سامنے لندن کے ہائیڈپارک سے لے کر امریکی سفارت خانہ تک ہزاروں افراد غزہ میں ہونے والی ہلاکتوںپر احتجاج کررہے ہیں۔ میں اس احتجاج کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں لیکن میں یہ بھی چاہتاہوں کی کسی اسلامی دارالحکومت میں آئی ایس آئی ایس کے جبر کے خلاف بھی مسلمان احتجاج کریں۔کیا ہماری انسان دوستی انسانوں میں تمیز کرتی ہے؟ کیا ایزدی فرقے کے وہ لوگ جوعملی طور پر بھوک اور بندوق کے سائے میں ہیں، ہماری ہمدردی کے حق دار نہیں؟ ایک خون آشام بھیڑیا کسی بچے کو بھنبھوڑ رہاہو تو کیا ہم اس کی جان بچانے سے پہلے اس کے والد کا مذہب دریافت کریں گے؟عام طور پر مسلمان مغرب میں اسلام فوبیا کی شکایت کرتے ہیں لیکن اس طرح کی سختیوں پر آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ کیا کبھی ہم انسانی بنیادوں پر سوچنا شروع کریںگے یا نہیں، یا پھر ہمارے انقلاب ہمیں ان باتوں کی مہلت ہی نہیں دیتے؟