دنیا میں جبکہ اس وقت ما حولیاتی تبدیلی اور قدرتی وسائل کی حفاظت جیسے امور بین الاقوامی سفارتی گفت وشنید کا لازمی جز بن چکے ہیں، انتہائی پڑوسی ملک ہونے اور مشترک قدرتی وسائل کے باوجود بھارت اور پاکستان ابھی تک اس اہم مسئلہ کو باہمی تعلقات کا حصہ نہیں بنا پائے ۔یہ صورت حال اور بھی سنگین ہوجاتی ہے، جب بھارت میں دریائے گنگا اور اس کے گلیشئرزکو بچانے کے لیے بھارت کی مرکزی اور ریاستی حکومتیں خاصی پرعزم دکھائی دیتی ہیں، دوسری طرف سندھ طاس گلیشئرز کی حفاظت کو نظر انداز کردیا گیا ہے ،بلکہ مذہبی یاترائوںکے نام پرایک طرح سے ان کی پامالی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے ۔حال ہی میں وزیر اعظم نریندر مودی حکومت نے نہ صرف گنگا کو بچانے اور اس کی دیکھ ریکھ کے لیے ایک علیحدہ وزارت قائم کی، بلکہ اس کام کے لیے اس سال ایک کھرب بیس ارب روپے بھی مختص کئے۔ 2008ء میں اتراکھنڈ صوبے کی اس وقت کی بی جے پی حکومت نے دریائے گنگا کے منبع ہندوئوں کے پوتراستھان گومکھ گلیشئرجانے پر سخت پابندیاں عائد کردی۔ جس کی رو سے اب ہر روز صرف 250یاتری گومکھ کے درشن کرپاتے ہیں۔
اس کے برعکس اس سال تقریبا چار لاکھ یاتریوں نے سند ھ ندیوں کے منبع کولاہی اور تھجواسن گلیشئرز درمیان واقع امرناتھ گپھاکے درشن کئے۔ اور تو اور حکومت نے ایک اور روایت قائم کرکے پیر پنچال کے پہاڑوں میں واقع کوثر ناگ کی یاترا کی بھی منظوری دی لیکن وادی کشمیر میں سخت عوامی احتجاج کے باعث اسے روکنا پڑا۔ پہاڑوں میں واقع صاف شفا ف اور آلودگی سے پاک پانی کایہ چشمہ ،جنوبی کشمیر میں اہربل کی مشہور آبشار، دریائے ویشو اور ٹونگری کوپانی فراہم کرتاہے۔ بعض ناعاقبت اندیش کشمیر ی پنڈتوں کوآلۂ کاربنا کر ہندو فرقہ پرست قوتوں نیز حکومت نے حال ہی میں امرناتھ یاترا کی طرح کوثر ناگ یاترا چلانے کا اعلان کیا ۔ فرقہ پرستوں نے کہا کوثر ناگ ایک ''پوتر جھیل‘‘ ہے، پرانے وقتوں سے ہندو یہاںپوجا کرتے آئے ہیں اور بھگوان ویشنو کے ساتھ اس کاتعلق ہے‘‘۔
2005ء میں مشہور ماہر ماحولیات پروفیسر ایم این کول کی قیادت میں بھارت کے چوٹی کے ماہرین ماحولیات نے ایک رپورٹ میںکہا تھا کہ اگر امر ناتھ کے مقدس گپھا تک ہزاروں یاتریوں کی آمدورفت کا سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو ماحولیات او ر گلیشئرکو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔لیکن اس مشورے پر کان دھرنے کے بجائے حکومت آج زیادہ سے زیادہ یاتریوں کو بال تل کے راستے ہی امرناتھ بھیج رہی ہے۔نتیش سین گپتا کمیٹی نے 1996ء میں اپنی سفارشات میں یہ بھی کہا تھا کہ امرناتھ کی ایک مہینے کی یاترا کے دوران صرف ایک لاکھ یاتریوں کو جانے کی اجازت دی جائے لیکن حکومت نے پہلے تو یاترا کی مدت ایک ماہ سے بڑھا کر دو ماہ کردی اس کے بعد یاتریوں کی تعداد کو محدود کرنے سے انکار کردیا۔ آئندہ برسوں میں اندازہ ہے کہ یہ تعداد دس لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ یہ یاترا اب ،ایک مذہبی سبھا کے بجائے
ہندو توا غلبے کا پرچم اٹھائے کشمیر میں وارد ہوتی ہے ۔ امر ناتھ کے بال تل کیمپ میں چند ہفتے قبل اسی سوچ اور رویہ کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملا جب ایک مقامی کشمیری کو یاتریوں نے چھرا گھونپ دیا اور پانچ سو مقامی تاجروں کے خیموں کوآن کی آن میں جلا کر بھسم کر دیا۔ کشمیر کی زندگی اور زندگی کا حسن نیز آبی وسائل کی بقا ان گلیشئروں کی زندگی پرمنحصر ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق یہ گلیشئر پہلے کی نسبت تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ کولہائی گلیشئر گیارہ مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے ۔تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ گزشتہ تین عشروں میں یہ ڈھائی مربع کلو میٹر سکڑ گیا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چند عشروں کے بعد پوری طرح پگھل چکا ہوگا۔ امرناتھ گپھا اسی گلیشئر کی کوکھ میں واقع ہے۔ ماحولیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ان گلیشئرز کی ایکولوجی ایسی نازک ہے کہ ہیلی کاپٹر کا شور بھی ان کی صحت کے لئے مضر ہے اورگلیشئر پر اس کے کولہائی گلیشئرز کے پگھلنے کے تباہ کن نتائج ہوں گے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ دریائے جہلم اس کی معاون ندیاں اور جھیل وولر وغیرہ سب خشک ہوجائیں گے۔اس کے علاوہ کوثرناگ کو امرناتھ یاترا کی طرز پر ڈھالنے کے بعد کشمیر میں '' پوجاپاٹ اور پوتراستھانوں‘‘کا سلسلہ کسی ایک جگہ رکنے کے بجائے بڑھتا چلا جائے گا۔
کشمیر کے سابق گورنر جنرل ایس کے سنہا تو ہر تقریب میں برملا اعتراف کرتے ہیں کہ وہ امر ناتھ کے نواح میں ہندوئوں کے لیے مخصوص 'شاردھایونیورسٹی‘ قائم کرنے کا ارادہ رکھتے تھے اور اسی لیے انہوں نے جنگلات پر مشتمل اراضی کا وسیع رقبہ امرناتھ شرائن بورڈ کے سپرد کیا تھا۔ ان کے اس فیصلہ نے 2008ء میں کشمیر کے طول وعرض میں آگ لگادی۔ امرناتھ مندر بورڈ کے خلاف وادی کے عوام کا جو غصہ پھوٹا اس کا تعلق ہندومسلم مسئلے سے قطعی نہیں تھا ۔ 1860ء میں امرناتھ کی یاترا کا آغاز ہوا ‘تب سے مسلمان اس کے نظم و نسق اور اسے حسن و خوبی کے ساتھ تکمیل تک پہنچانے میں اہم رول ادا کرتے رہے ہیں ۔لیکن گورنر سنہا صاحب نے امرناتھ مندر بورڈ کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالتے ہی سب سے پہلاکام بٹ گنڈ گائوں کے مسلما ن چرواہوں کے پیٹ پر لات مارنے کا کیا۔ حالانکہ پچھلے تقریباً ڈیڑھ سو سال سے یہی چرواہے ہندووں کے اس انتہائی مقدس مقام کی نگرانی کرتے آرہے تھے۔جنرل سنہا کے پرنسپل سیکرٹری اور شری امرناتھ شرائن بورڈ کے چیف ایگزیکٹو ارون کمار نے خچر والوںاور چھوٹے دکانداروں سے روزی کمانے کا یہ ذریعہ اور حق بھی چھین لیا ۔ جس زمین کے وہ مالک تھے انہیں سے ''جزیہ‘‘ وصول کرنا شروع کردیا۔انتہا ہوگئی کہ باہر کے '' لنگروالوں‘‘ کو بلایا گیا ۔ اس علاقے کی مقامی آبادی کا امرناتھ مندر سے کتنا گہرا تعلق ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 1995 ء میں جب حرکت الانصارنامی تنظیم نے امرناتھ یاترا کے نظم و نسق میں مسلمانوں کی شمولیت پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تو مسلمانوں نے ہی بڑے پیمانے پر اس کی مخالفت کی اور اسے 12دن کے اندر ہی اپنا حکم واپس لینا پڑا۔
ماہرین ماحولیات کہتے ہیں کہ ایسے وقت میں جب کہ دنیا آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے ایک نئی آفت سے دوچار ہونے والی ہے اور اس مصیبت کو ٹالنے کے لئے دنیا کے بیشتر ممالک پہاڑی علاقوں میں سیاحوں کی آمد کو بھی باضابطہ بنا رہے ہیں،بھارت کو بھی چاہئے کہ کشمیر کے قدرتی ماحول کو برقرار رکھنے کے لئے امرناتھ میں یاتریوں کی تعدادکو باضابطہ کرنے کی تجویز پر مذہبی نقطہ نگاہ کے بجائے سائنسی نقطہ نگاہ سے غور کرے ۔ نیز اس کے دورانیہ کا بھی تجزیہ کرکے اس پر نظرثانی کی جائے۔خاص کر اسے سیاست ومعیشت کے ساتھ جوڑ کر حکومت اورسماج میں موجود حریص قوتوں کو استحصال کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔اور دیگر یاترائوں کی نئی روایات قائم کرنے سے پرہیز کرے۔ دوسری طرف حکومت پاکستان سے بھی گزارش ہے کہ سند ھ طاس معاہدے سے آگے بڑھ کر ماحولیاتی تبدیلی اور قدرتی وسائل کی حفاظت کیلئے سفارتی سطح پر یہ معاملات اٹھائے اور بھارت کے ساتھ مل کر کوئی مشترکہ لائحہ عمل وضع کرے۔کیونکہ کشمیر کے بعداس ماحولیاتی تبدیلی کا سب سے زیادہ اثر پاکستانی زراعت اور پن بجلی کے منصوبوں پر پڑنے والا ہے۔