یہ ایک نہایت مختلف اور غیر معمولی رسالہ ہے جو دار ارقم کالج راولا کوٹ آزاد کشمیر نے شائع کیا ہے اور زیر نظر شمارہ اس کی چوتھی جلد پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر ظفر حسین ظفر کی ادارت میں چھپنے والے اس جریدے کا حجم کم و بیش ساڑھے چار سو صفحات کو محیط ہے جس کی قیمت 500روپے رکھی گئی ہے۔یہ پرچہ دوسروں سے مختلف اس لیے ہے کہ اس میں دیگر رسالوں کی طرح نظموں ،غزلوں کی بھر مار شامل نہیں کی گئی بلکہ ٹھوس اور معلومات افزا مضامین پر زوردیا گیا ہے۔ جو اسے وقیع تر بنائے ہوئے ہیں۔
تحقیق و تنقید کے عنوان سے بیش قیمت مضامین کے بعد ''گوشہ چراغ حسن حسرت‘‘ بطور خاص شامل کیا گیا ہے۔واضح رہے کہ حسرت بھی آزاد کشمیر ہی سے تعلق رکھتے تھے۔اس میں اس نامور صحافی اور صاحبِ اسلوب ادیب کے فن اور شخصیت پر پانچ مضامین ہیں جبکہ ان کا ایک مضمون بعنوان ''ہماری زبان کے سفر نامے‘‘ شاملِ اشاعت ہے۔اس کے بعد صوفی ادیب اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی شعبہ اردو کے چیئرمین ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر کا گوشہ ہے جس میں کم و بیش 13مضامین ہیں ان کے فن اور خدمات کا جائزہ لیے جانے کے علاوہ ان کی منظومات بھی شامل کی گئی ہیں۔''مشاہیر‘‘ کے عنوان سے محمود ہاشمی کا یادگاری گوشہ قائم کیا گیا ہے۔
تحقیق و تنقید میں صاحبِ طرز ادیب سید انیس شاہ جیلانی کے خطوط شامل کئے گئے ہیں جو عبدالعزیز ساحر نے مرتب کیے ہیں اور جن کا ایک الگ اور اپنا ہی ذائقہ ہے۔ان جیسی بے تکلف اردو بہت کم دیکھنے میں آتی ہے۔ایک خط سے یہ اقتباس ملا حظہ ہو۔
منکہ سید انیس شاہ جیلانی بن سید مبارک شاہ جیلانی بن سید محمد شاہ جیلانی (سنجر پوری) بن ابن شاہ جیلانی پیر دا گوٹھ(محمد آباد) موضع بیگ مہڑ تحصیل صادق آباد ،ضلع رحیم یار خاں میں پیدا ہوا۔مقامی پرائمری مؤدب اسکول سے مولوی قادر بخش(کوٹ سبزل) مرحوم کی شاگردی میں پرائمری پاس کیا۔سال بھر لڑکیوں کی طرح حویلی میں گزرا۔اچانک رئیس احمد جعفری کے حوالے ہوا۔پیر دا گوٹھ سے کراچی کا فاصلہ ان دنوں صدیوں کا تھا۔وہاں بیس برس سڑکیں ناپیں۔1952ء سے 1961ء تک عشق میں مبتلارہا۔ جنون سا تھا۔ خودکشی کی کوشش کی۔اسی دوران شادی بھی ہوئی۔میں اپنے بڑے بیٹے ابوالکلام کو کندھوں پر لادے لادے محبوبہ کے ساتھ ٹہلا کرتا تھا۔کیا باتیں ہوا کرتی تھیں ؟ اب یاد نہیں رہیں۔ختم ہونے میں کبھی نہ آتیں۔وہ بی اے‘بی ٹی تک پہنچیں۔ہم وہیں کے وہیں رہے۔وہ سمجھدار بلکہ سمجھناک نکلیں۔ورثاء اس کے سبھی رضا مند‘ وہ خود نہیں مانی۔سچ ہی کہتی تھیں کہ ایک تو تمہاری خاندانی بیوی ہے۔دوسرے تم سرائیکی ہو۔تمہاری تہذیب الگ‘ ہم مکڑ ہیں۔ مجھے اس مالدار سندھی ‘بڈھے وڈیرے سے شادی کرا لینے دو ۔ہم میں ‘ تم میں رسمِ الفت برقرار رہے گی۔ایک بار تو میں مان بھی گیا‘ مکر جانا پڑا۔عقل پر دل کی گرفت مضبوط تھی۔آگے چل کر ایک اور امیدوار کو بھی میں نے تسلیم کیا‘ بلکہ اس سے تو گپ شپ بھی رہی۔آج ہوتی ہے شادی‘کل ہونے کو ہے مگر وہ بات چلی خدا جانے کیوں نہیں؟1961ء میں دق میں مبتلا ہوا۔پانچ مہینے رہینِ بستر رہا۔اس دوران میں مجھے غیر حاضر جان کر موصوفہ نے شادی رچا لی‘ ایک دکاندار سے ۔وہ بزرگ میرے ‘اس کے روحانی‘جسمانی ہر طرح کے تعلق سے باخبر تھے۔میں صحت یاب ہو کر جب کراچی پہنچا تو پہلے تو ملنے سے گریز کیا لیکن جب یہ جان گئیں کہ انیس اب اپنے حواسوں میں ہے‘ اور دق نے اسے خود پرستی کی راہ سُجھادی ہے تو بے تکلف ملاقاتیں رہیں‘ مگر گفتگو کی حد تک۔پہلے میں رویا کرتا تھا‘اب وہ روتی رہیں۔گزشتہ دس برس سے کوئی ملاقات نہیں۔ چھپن برس کا میں ہو چکا۔ وہ مجھ سے بڑی تھیں‘ بوڑھی کھپاٹ ۔اب تو وہ دادی اماں لگتی ہوں گی۔تاہم میرا جی اب بھی چاہتا ہے‘ وہ میرا مقدر بن جائے۔بیوی میری مر چکی‘شوہر‘ اس کا کھپ چکا ہو تو یہ بھی ممکن ہے‘ مگر یہ خیالی دنیا ہے عملی طور پر میں بھی کب اس گھپلے میں پڑوں گا؟ یہ باتیں تفنن طبع کے طور پر لکھ رہا ہوں...
اسی طرح ''فرمان فتح پوری ‘ کچھ باتیں‘کچھ خط‘‘بھی اہم مضمون ہے جس سے اس معروف ادیب اور نقاد کے بارے میں بہت سی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔''کرشن چند ر ‘کشمیر کے حوالے سے ‘‘ بھی ایک دلچسپ اور معلومات افزا مضمون ہے ،جبکہ ''شبلی‘اقبال اور عطیہ فیضی‘‘ پر مضمون ہے جو ان کے آپسی خطوط پر مبنی ہے۔ لیکن اس سے بھی ان کے باہمی تعلق کے بارے میں نہایت محتاط رویہ اختیار کیا گیا ہے۔اقبال کے بارے میں یہاں تک تو تحریر ہے کہ مسعود الحسن کے گمان کے مطابق دونوں میں شادی کا معاہدہ تو ہو چکا تھا جو بعد میں بوجوہ عملی جامہ نہ پہن سکا جبکہ شبلی کے حوالے سے بھی ایک دبے دبے عشق کا اظہار تو ان خطوط میں ہوتا ہے لیکن ا س سے آگے بات بڑھتی نظر نہیں آتی حالانکہ ڈاکٹر وحید قریشی نے ''شبلی کی حیاتِ معاشقہ ‘‘کے نام سے جو کتاب لکھی تھی اور جو ایک دینی سیاسی جماعت نے ساری کی ساری خرید کر تلف کروا دی تھی‘ اس میں اس موضوع پر کھل کر اظہار خیال کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ ''کشمیریات‘‘کے موضوع پر مفید معلومات پر مبنی 3مضامین ہیں جبکہ ''خطہ پونچھ میں اردو غزل ‘‘پر مضمون ہے جس سے معلوم ہوا کہ ہمارے پسندیدہ اور خوبصورت شاعر ذوالفقار عادل کا تعلق بھی پونچھ سے ہے۔ ''تعارف و تبصرہ‘‘کے عنوان سے 4اہم مضامین ہیں جن میں ''شہر میں کھولی فراقی نے دکاں سب سے الگ‘‘کے عنوان سے ہمارے دوست اور ممتاز نقاد اور محقق ڈاکٹر تحسین فراقی کے رسالے ''مباحث‘‘ پر دلچسپ تبصرہ ہے جس میں شمس الرحمن فاروقی‘ گوپی چند نارنگ اور محمد سلیم الرحمن کے مضامین سے بحث کی گئی ہے۔''حاشیہ اور تعلیقہ ‘‘ بھی اپنی جگہ پر ایک اہم مضمون ہے۔
واضح رہے کہ شاعری وغیرہ سمیت اس پرچے میں افسانہ یا فکشن نام کی کوئی چیز شامل نہیں کی گئی بلکہ ٹھوس اور وقیع مضامین اور مواد کو اہمیت دی گئی ہے جبکہ دوسرے رسائل کے لیے یہ ایک چشم کشا کی بھی حیثیت رکھتا ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ وقیع‘مفید اور معلومات افزا بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ اس کی مجلس مشاورت میں ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ‘ ڈاکٹر ممتاز احمد'ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر‘ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر‘ڈاکٹر محمد یوسف خٹک‘خوش دیومینی‘محمد کبیر خان‘ سید شبیر حسین جعفری‘ ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد‘راجا نذر بونیاری ‘ڈاکٹر خالد ندیم 'ڈاکٹر سلمان علی ،ڈاکٹر قاسم بن حسن ‘ پروفیسر محمد صغیر قمر اور سید سلیم گردیزی جیسی شخصیات شامل ہیں۔ جو سب اس خوبصورت پیش کش پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔
آج کا مطلع
بس ایک بار کسی نے گلے لگایا تھا
پھر اس کے بعد نہ میں تھا نہ میرا سایا تھا