تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     12-08-2014

اُنہیں بغاوت کا راستہ کس نے دکھایا؟

17جون کو ماڈل ٹائون میں ن لیگ واقعی خون لیگ بن گئی تھی لیکن اب تو ساری حدیں ہی پار ہو گئی ہیں۔ 
سنا تھا کہ مائیں ‘ بہنیں اور بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں لیکن یہ نون لیگیوں کو ہو کیا گیا ہے؟ ایک ٹاک شو میں پاکستان عوامی تحریک کے ایک ترجمان نے مریم نواز کو سو کروڑ روپے کی قرضہ سکیم کا سربراہ بنانے پر تنقید کی تو حنیف عباسی کا جوابی الزام سن کر سوچا کہ سیاستدان اس حد تک بھی گر سکتے ہیں۔ 
مریم نواز شریف جس سکیم کی سربراہ بنیں‘ وہ عوام کے ٹیکسوں سے چلتی ہے تو کیا اب حکمرانوں سے یہ پوچھنا بھی جرم ٹھہرا کہ ان کا پیسہ کون استعمال کر رہا ہے؟ حنیف عباسی کے مطابق یہ سوال کر کے نواز شریف فیملی پر پرسنل اٹیک کیا گیا لہٰذا انہوں نے فیصلہ کیا کہ مخالف کی عزت اچھالنا ان کا جمہوری حق بنتا ہے۔ شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری میں انہوں نے مقدس رشتوں کی بھی پروا نہ کی۔ اخلاقیات کی دھجیاں اڑاتے ہوئے الزام لگا دیا کہ تمہاری بہن چار پانچ روز قبل فلاں ہوٹل سے پکڑی گئی ۔
یہ وہی حنیف عباسی ہیں جن پر ایفی ڈرین کیس چل رہا ہے اور انعام کے طور پر ان کی لیڈرشپ نے انہیں پنڈی اسلام آباد میٹرو بس منصوبے کا سربراہ بنا دیا ہے۔ ٹی وی پر کروڑوں لوگوں کے سامنے انہوں نے جو گفتگو کی ‘اس پر عدالت‘ پیمرا اور ان کی پارٹی لیڈر شپ کی خاموشی چہ معنی دارد؟ تو پھر لوگ بدلہ لینے کے لئے ڈنڈوں میں کیل نہ لگائیں تو کیا کریں؟ لوگوں کی بہنوں ‘ بیٹیوں اور مائوں کو منہ پر گولیاں ماری جائیں ‘ ان کی عزت نفس پر حملے کئے جائیں تو کیا جواب میں پھول برسائے جائیں؟ سابق دور میں جناب شہباز شریف نے مخالفین کو سڑکوں پر گھسیٹنے کے نعرے لگائے مگر اب کنٹینروں کے نیچے کس کو گھسیٹا جا رہا ہے؟ سابق صدر کو یا نوے نوے سال کی بوڑھی عورتوں کو؟
اس سے قطع نظرکہ یہ انقلاب ہے یا فسادمگر سوال وہی ہے‘کیا طاہر القادری نے کہا تھا کہ آدھی رات کو آئو ‘ رکاوٹیں ہٹائو‘ گلو بٹوں کو لائو ‘ بوڑھے لوگوں کے سر پھاڑو اور لوگوں کے سینے میں گولیاں اتارو؟ کیا پہل انہوں نے کی؟ اگر انہیں انصاف ملا ہوتا تو وہ شور مچاتے؟ کیا یہ درست نہیں کہ مرنے والوں کے لواحقین کا پولیس سٹیشن میں داخلہ بھی بند ہے جبکہ تم نے ٹریفک حادثے میں مرنے والے کانسٹیبل کو شہید بنا کر مقدمہ بھی درج کر لیا۔ 
چلو یہ تو باغی ہیں‘ یہ تو غیر آئینی طریقے سے انقلاب لانا چاہتے ہیں تو پھر اس کا کیا قصور ہے جس نے چودہ مہینے قانون کا ہر دروازہ کھٹکھٹایا اور جواب میں اس کا مذاق ٹھٹھا اڑایا جاتا رہا۔ 
اُن سے بھول یہ ہوئی کہ یہ عمران خان کو آصف زرداری سمجھ بیٹھے کہ فرینڈلی میچ کھیلے گا۔ وزیراعظم نے فرمایا ایسے لانگ مارچ تو تین چار سال بعد کئے جاتے ہیں۔ حضور ! ایسے لانگ مارچ وہ کرتے ہیں جنہوں نے آپس میں باریاں لگائی ہوں‘ عمران خان سے یہ امید نہ رکھیں۔
حضور والا! چودھری برادران اور شیخ رشیداگر طاہر القادری کو اُکسا کر سسٹم لپیٹنے کے درپے ہیں تو آپ کا اپنے درباری وزیر وںاور مشیروں کی ردِانقلاب مینجمنٹ کے بارے میں کیا خیال ہے جنہوںنے عوام کو چوہے کی طرح کنٹینر کے نیچے گھسٹنے پر مجبور کر دیا ہے؟اگر علامہ صاحب اپنے کارکنوں کو تشدد پر اکسا رہے ہیں تو آپ نے اپنی جی سی ایس یعنی ''جاتی عمرا سول سروس‘‘ کی بیوروکریسی کے ذریعے لاہور کوجلیانوالہ باغ میں کیوں تبدیل کر دیا ہے ؟کیوں نون لیگی کارکنوں کو تحریک انصاف کے سامنے لا کھڑا کیا؟ تاکہ مزید انتشار پھیلے؟
غزہ میں اسرائیلی درندے بھی ایمبولینس کو راستہ دے دیتے ہیں لیکن یہاں کیا مریض‘ کیا معذور اور کیا مجبور۔ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جا رہا ۔ کیا یہ درست نہیں کہ ''ردِانقلاب مینجمنٹ ‘‘کا ٹھیکہ بھی شاہی خاندان کے افراد کے ہاتھوں میں ہے اور اسی وجہ سے نون لیگی ارکان کا بڑا جتھہ بغاوت پر تیار ہو چکا ۔
بدحواسی کا یہ عالم ہے کہ پولیس ایک شخص کو آدھی رات کو انقلابی کارکن سمجھ کر اٹھا لائی جو بعد میں نون لیگ کا پرانا کارکن نکلا۔ اسے قمیض اور جوتے بھی نہ پہننے دئیے گئے اور ٹانگوں پر رولر پھیرے گئے۔ کیا اس کی عزت نفس باقی رہ گئی؟ کیا وہ بھی اب انقلابی یا تحریکی مارچ میں شریک نہ ہو جائے گا ؟
جناب والا! یہ 99ء نہیں2014ء ہے۔ اب لوگ حقوق مانگتے ہیں‘ ٹیکس دیتے ہیں تو حساب بھی مانگیں گے کہ یہ ان کا جمہوری حق ہے ۔ ایک مفت مشورہ لیجئے۔ اگر آپ کی رِ ٹ رمضان بازار میں ہی چلنی ہے تو پھر پولیس کا محکمہ ختم کردیں‘ پولیس بازار لگا لیں‘ عدالتیں ختم کر دیں ‘ عدالت بازار لگا لیں‘ سرکاری سکول تعلیم نہیں دے رہے تو تعلیمی بازار لگا لیں۔حضور !دنیا کے کون سے جمہوری ملک میں ایسے ماڈل بازار لگتے ہیں۔ حکمرانوں کی رِٹ اگر دو سو میٹر پر محیط ان بازاروں تک ہی محدود ہے تو پھر پورے ملک کے ٹھیکیدار کیوں بنے ہوئے ہیں؟ 
طاہر القادری کی ذات متنازعہ ہوسکتی ہے لیکن ان کی پچانوے فیصد باتیں تو درست ہیں۔ عمران خان غلطیاں دہرا سکتے ہیں لیکن ان کے مطالبات کو کون جھٹلا سکتا ہے؟ گزشتہ روز عمران خان نے دھاندلی سے متعلق جو انکشافات کئے کیا وہ آپ پر ڈرون بن کر نہیں برسے؟ باقیوں کو تو چھوڑیں لیکن سابق چیف جسٹس افتخار چودھری صاحب! آپ نے کیا کیا؟ آپ نے تو لوگوں کا مان ہی توڑ دیا۔ کیا اب کوئی کسی چیف جسٹس کے لئے سڑکوں پر نکلے گا؟ کیا کوئی عدلیہ کی آزادی کی جنگ لڑے گا؟
اس سارے قضیے میں عوام کہاں ہیں؟ ووٹوں کے بدلے میں عوام کو کیا ملا؟ملک میں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں تو پھر ان سوالوں کے جواب کیوں لا پتہ ہیں؟ کیا یہ درست نہیں کہ عوام دو وقت کی روٹی بھی کمانے کے قابل نہیں رہے؟ کیا لوگوں کو پینے کا صاف پانی ملا ؟ کیا عوام کو ڈاکوئوں سے زیادہ پولیس سے ڈر نہیں لگتا؟ کیا سرکاری سکولوں کا معیار بہتر ہوا؟ کیا سرکاری ہسپتالوں سے لوگ مطمئن ہو گئے؟کیا عدالتوں میں مقدمات کا فیصلہ فوری ہونے لگا ہے؟ کیا لوڈشیڈنگ پرسنجیدہ اقدامات کئے گئے؟کیا واپڈا کے کرپٹ افسران کی دہری شہریت اور ان کی نجی کمپنیاں بند کرائی گئیں؟ کیا بیوروکریسی حکمرانوں کی غلامی سے آزاد ہو گئی؟ کیا آٹھ کلب روڈ کو یونیورسٹی بنایا گیا؟62قومی اداروں کو بیچنے کا فیصلہ کس کے بینک اکائونٹ بھرنے کیلئے کیا گیا؟ کیا چار حلقوں میں دوبارہ گنتی کرا دی گئی؟
اگر یہ سوال ابھی تک یتیم نہ ہوتے تو کسی کو آزادی یا ''انقلاب ‘‘ مارچ کی ضرورت نہ پڑتی۔پھر چودھری برادران اور شیخ رشید کی لاٹری نکلتی نہ آپ کو کنٹینروں کی دیوار کھڑی کرنا پڑتی۔ عمران خان بغاوت پر تیار ہوتے نہ طاہر القادری انقلاب کے منہ زور گھوڑے پر سوار ہوتے۔کاش آپ پہلے سمجھ جاتے‘ کاش حالات اس نہج تک نہ پہنچتے۔ مگر کیا کریں کہ ان لوگوں کو بغاوت کا راستہ دکھایا ہی آپ نے ‘ چنانچہ تیار ہو جائیے! یہ بیج بونے کا نہیں‘ فصل کاٹنے کا وقت ہے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved