تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     13-08-2014

زیادہ وقت بھی نہیں رہ گیا

15 جون تک حالات معمول کے مطابق تھے۔ حکومت کا ستارہ عروج پر تھا۔ وزیراعظم نوازشریف بڑے سکون اور مزے کے دن گزار رہے تھے۔ اپنے معمول کے مطابق کام کرکے‘ پارلیمنٹ کو خاطر میں نہ لانے کا جو ریکارڈ‘ انہوں نے قائم کیا‘ اس میں اضافہ کرتے جا رہے تھے۔ پورے ایک پارلیمانی سال کے اندر‘ ہمارے وزیراعظم نے صرف 7 مرتبہ پارلیمنٹ کو وزٹ کیا اور 3 یا 4 مرتبہ کارروائی میں حصہ لیا۔ باقی وزٹ آمدورفت تک محدود رہے۔ یہ اس امر کا ثبوت تھا کہ حکومت ہر طرف سے محفوظ و مطمئن تھی۔ کسی طرف سے خطرہ تو دور کی بات ہے‘ گرم ہوا آنے کا بھی ڈر نہیں تھا۔ عمران خان اس وقت تک‘ چند نشستوں پر دوبارہ گنتی کا مطالبہ کر رہے تھے اور وزیراعظم سیاسی استحکام پر یقین اور اپنی حکومت کی مضبوطی پر بھرپور اعتماد میں تھے۔ پھر چند روز میں یہ کیا صورتحال ہو گئی؟ کہ اب وزیراعظم باربار‘ عمران خان کے گھر جانے کی پیش کشیں کر رہے ہیں اور وہ 14اگست سے پہلے بات کرنے کو تیار نہیں۔ عمران خان کی طرف سے عندیہ ضرور دے دیا گیا تھا کہ وہ 14 اگست کے بعد‘ وزیراعظم کو اپنے گھر مدعو کریں گے یا خود ان سے ملنے جا سکتے ہیں۔ تادم تحریر یہ امید برقرار ہے کہ شاید یہ ملاقات ہو جائے اور امیرجماعت اسلامی نے جو رابطہ کاری کی ہے‘ اس کا مثبت نتیجہ نکل آئے‘ لیکن واقعات کی تیزرفتاری کا یہ عالم ہے کہ ایم کیو ایم کی طرف سے یہ اندیشہ حقیقت میں بدلتا نظر آ رہا ہے کہ وہ بھی احتجاجی تحریک میں شامل ہو جائے گی۔ 
اگر ایسا ہو گیا‘ تو حکومت کے بچنے کی جو تھوڑی بہت امید باقی ہے‘ وہ بھی ختم ہو جائے گی۔ میاں صاحب کے اپنے حلقہ انتخاب میں‘ان کی پسندیدگی کا گراف‘ حیرت انگیز حد تک نیچے آ چکا ہے۔ خداجانے کس دانشمند نے‘ مسلم لیگ کے اس مضبوط مرکز میں ایسا اودھم مچایا کہ میاں صاحب کے پرجوش سپورٹر بھی‘ نہ صرف مایوسی کا اظہار کرنے لگے ہیں بلکہ پولیس نے جابجا ناکہ بندیاں اور پوچھ گچھ کر کے‘ لوگوں کو بے حد پریشان کر دیا ہے۔ ان کا ایک سے دوسرے ضلع میں آنا جانا‘ دشوار بلکہ بیشتر حالات میں ناممکن ہو گیا۔ ایسے ایسے دیہی راستے جن کا لاہور سے دور کا بھی واسطہ نہیں‘ وہاں بھی رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں۔گوجرانوالہ اور شیخوپورہ کے لوگ‘ جن کا روز آنا جانا رہتا ہے‘ وہ جہاں تھے‘ وہیں پھنس گئے۔ کسی کا گھر لاہور میں ہے‘ تو اسے رات گوجرانوالہ میں گزارنا پڑی اور جو گوجرانوالہ کا رہنے والا ہے‘ وہ لاہور میں شب بسری کے لئے پریشان ہوتا رہا۔ یہ صورتحال کم و بیش پورے پنجاب میں ہے۔ جمشید دستی‘ مظفر گڑھ سے اپنا قافلہ لے کر لاہور کے لئے روانہ ہوئے ۔ 20گھنٹے سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور ابھی تک وہ راستے میں ہیں۔ یہ احوال ایک ایم این اے کا ہے۔ عام شہریوں پر کیا گزری؟ اس کا اندازہ محال ہے۔ کنٹینروں نے صوبے کے ہر شہر اور قصبے میں ناکہ بندیاں کر رکھی ہیں۔ ستّر ستّر اسّی اسّی برس کے بوڑھے‘ زمین پر الٹے لیٹ کر‘ کہنیوں کے بل چلنے پر مجبور کئے گئے۔ خواتین اپنے بچوں کے ساتھ‘ اسی طرح رینگتی ہوئی کنٹینر کی رکاوٹ سی بچ رہی تھیں۔ عوام کے ساتھ یہ سلوک‘ برصغیر کی تاریخ میں صرف ایک بار ہوا ہے اور وہ بھی بیرونی آقائوں نے کیا تھا۔ یہ واقعہ جلیانوالہ باغ کا ہے۔ وہاں پولیس نے‘ مجاہدین آزادی پر اسی طرح‘ براہ راست نشانے لگا کر فائرنگ کی تھی‘ جیسے ہمارے ماڈل ٹائون میں 17جون کو کی گئی۔ انگریز افسروں نے یہ حکم دیا تھا کہ عوام گلیوں سے گزرتے وقت‘ اسی طرح لیٹ کر کہنیوں کے بل چلیں‘ جیسے ہمارے ملک میں پچھلے کئی دنوں سے ہمارے لوگوں کو کنٹینروں کے نیچے سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ معلوم نہیں میاں صاحب کے مشیروں میں کسی کو‘ عوام کے اس تکلیف دہ تجربے کا کچھ احساس بھی ہو گا یا نہیں؟ لیکن میں یاد کرا دیتا ہوں کہ امرتسر کے لوگوں کو‘ کہنیوں کے بل الٹا لیٹ کے گلیوں میں چلنے کا جو تجربہ 1919 ء میں ہوا تھا‘ برصغیر کے عوام اسے آج تک نہیں بھولے۔ ہمارے موجودہ حکمرانوں نے خود اپنے حلقہ انتخاب میں‘ لوگوں کو اسی طرح چلا کر‘ جس اذیت ناک تجربے سے دوچار کیا ہے‘ وہ ان کے لاشعور کی گہرائیوں تک محفوظ ہو جائے گا اور لوگ اسے نسلوں تک نہیں بھلا پائیں گے۔ یہ افسر‘ یہ فیصلے کرنے والے‘ یہ احکامات جاری کرنے والے‘ میاں صاحب کے ساتھ جو کچھ کر گزرے ہیں‘ اس کا احساس‘ انہیں بہت دیر کے بعد ہوگا‘ لیکن وکی پیڈیا میں تاریخ کا یہ باب‘ میاں صاحب سے منسوب ہو کر محفوظ ہو جائے گا۔ یہاں کتابوں سے اس کا ذکر نکال بھی دیا جائے‘ تو لوگ 50 سال کے بعد وکی پیڈیا سے نکال کر چھاپ لیں گے۔
میں ‘ میاں صاحب کی سیاست کو1982ء سے دیکھ رہا ہوں۔ لاہور شہر میں انہیں پیار سے دیکھا جاتا تھا اور جب وہ قومی سطح کی سیاست میں آئے‘ تو وہ پیپلزپارٹی سے نفرت کرتے تھے اور پیپلزپارٹی والے ان سے۔ مگر چند روزپہلے تک‘ یہ دیرینہ دشمنی رفاقت میں بدل چکی ہے۔ پیپلزپارٹی والے میاں صاحب کی حمایت کر رہے ہیں اور میاں صاحبان ان کی۔ جون سے پہلے تک ملک میں شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو‘ جو میاں صاحب کو ناپسند کرتا ہو‘ نفرت تو دور کی بات ہے اور آج‘ شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو‘ جو میاں صاحب کی تعریف کرتا نظر آئے‘ ماسوا چند ایسے لوگوں کے‘ جن کے نان تِکّے میاں صاحب کے لنگر سے آتے ہیں۔ ایسی دلہنیں‘ ایسے بزرگ‘ ایسی خواتین کا شمار نہیں‘ جنہیں اس اذیت ناک تجربے سے گزرنا پڑا۔ ماڈل ٹائون میںبیٹھے ہوئے مردوں‘ خواتین‘ بچوں اور بوڑھوں پر کھانا پینا بندکر کے‘ ایک اور معرکے کی یاد تازہ کی جا رہی ہے۔ پانی بند کرنے کی دردناک ترین مثال کربلا کے واقعات میں ملتی ہے۔ اسے یاد کر کے لوگ آج تک ماتم کرتے ہیں۔ ماڈل ٹائون کے محصوروں کو‘ کربلا والوں سے مثال تو نہیں دی جا سکتی‘ لیکن جس اذیت سے وہ گزر رہے ہیں‘ اس کی نوعیت مختلف نہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی تقریروں میں‘ اگر قانون کی خلاف ورزیاں بھی ہو رہی ہیں‘ تو ان بے گناہوں کا کیا قصور ہے؟ جو اپنے آئینی حقوق استعمال کرتے ہوئے وہاں جمع ہوئے تھے اور اب محصو ر ہوئے بیٹھے ہیں۔ ان کا کھانا بند کیا جا رہا ہے۔ پانی پہنچنے کی اجازت نہیں مل رہی۔ گزشتہ روز الطاف حسین بھائی نے‘ ان محصوروں کے لئے کھانا بھجوایا‘ مگر اسے روک دیا گیا۔ آج صبح ناشتہ بھجوایا‘ اسے بھی روک دیا گیا۔ الطاف بھائی‘ عمران خان اور قادری صاحب کی احتجاجی تحریک سے دور تھے۔ انہوں نے صرف انسانی بنیادوں پر‘ بھوکے پیاسے لوگوں کو اشیائے خورونوش پہنچانے کی کوشش کی‘ جسے ظالمانہ انداز میں روک دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب الطاف بھائی ‘ تحریک میں شامل ہونے کی دھمکی دینے پر مجبور ہو گئے ہیں اور اگر ایسا ہو گیا‘ تو پھر یہی عوام جنہوں نے دوتہائی اکثریت سے‘ میاں صاحب کو منتخب کیا ہے‘ ان سے نجات کی دعائیں مانگیں گے۔ کراچی بند ہو گیا‘ تو پاکستان کی اقتصادی شہ رگ پر انگوٹھا آ جائے گا۔ سٹاک مارکیٹ پہلے ہی بیٹھ رہی ہے۔ کراچی بند ہوگیا‘ تو پاکستانی معیشت کی رگوں میں‘ رواں دواں خون منجمد ہو جائے گا۔ اسلام آباد میں دھرنے لگ گئے اور اگر دھرنا دینے والوں اور روکنے والوں میں مقابلے شروع ہو گئے تو بھی‘ پاکستان کی اعلیٰ ترین انتظامی مشینری منجمد ہو جائے گی۔ ایک طرف حکومت کی انتظامی صلاحیتیں ناکارہ ہو جائیں گی‘ دوسری طرف معیشت بیٹھنے لگے گی۔ ان حالات میں کون ہو گاجو وزیراعظم کے اقتدار کو مزید چند روز کے لئے برداشت کرے گا؟ جینا ‘ دنیا کے ہر انسان کی پہلی ترجیح ہوتی ہے اور جو کچھ میں نے بیان کیا ہے‘ اگر پاکستان کے شہریوں کی وہی کیفیت ہو گئی‘ تو کیا یہاں یہ اصول بدل جائے گا؟ کیا لوگ بیروزگاری‘ بدانتظامی اور فاقہ کشی کے ہاتھوں زندگی کا دامن چھوڑنا قبول کر لیں گے؟ میاں صاحب کے مشیر ہمیں ‘کس حالت میں پہنچانے جا رہے ہیں؟ کہاں صرف 4حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ تھا؟ اور کہاں اب یہ حالت ہے کہ بحران کے سیاہ سائے‘ چاروں طرف پھیلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں؟ ابھی آخری حالت نہیں آئی۔ مگر اس میں زیادہ وقت بھی نہیں رہ گیا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved