تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     13-08-2014

ذرا سی مہلت اب بھی موجود ہے

چھوٹے چھوٹے لوگ اور ادنیٰ خواہشات۔ حیرت اور رنج کے ساتھ آدمی یہ سوچتا ہے کہ اپنی تقدیر قوم نے کن لوگوں کے حوالے کردی؟ 
فیصلہ چودہ اگست کو نہیں ہوگا‘ معاملہ اب کچھ دراز ہو گیا۔ اس وقت جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں‘ امیر جماعت اسلامی سراج الحق‘ میاں شہباز شریف سے ملاقات کے لیے روانہ ہو چکے۔ ایک محتاط ثالث کی طرح‘ جو اپنے عزم میں پختہ ہو۔ زبان انہوں نے بند کر رکھی ہے اور کان کھلے رکھتے ہیں۔ 
اگرچہ اب بھی وہ پُرامید ہیں اور پُرامید ہی انہیں رہنا چاہیے۔ میرا تاثر مگر یہ ہے کہ عمران خان اور نوازشریف نے بات چیت کو محض ایک متبادل کے طور پر اختیار کیا ہے۔ حکومت بہرحال اپوزیشن کو کچل دیناچاہتی ہے اور کپتان ہر صورت میں ''بادشاہت‘‘ ختم کرنے کے در پے ہے۔ شیخ رشید‘ چودھری برادران اور علامہ طاہرالقادری ان سے بھی زیادہ۔ تحریک انصاف میں مذاکرات کے مخالفین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ پہلی کامیابی کے بعد حکومت کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ ایجی ٹیشن کے نقطۂ نظر سے طاہرالقادری نے ایک بڑی غلطی کا ارتکاب کیا۔ راستے بند کر دیئے گئے تو اپنے حامیوں سے انہوں نے یہ کہا کہ جہاں کہیں موجود ہیں‘ وہیں وہ یوم شہدا منا لیں۔ بعد میں رفو کی کوشش کی لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ محاذ آرائی میں پہلے جو آنکھ جھپکتا ہے‘ نقصان اسی کو پہنچتا ہے۔ سخت ہیجان کا وہ شکار ہیں۔ ایسی بات وہ کہہ دیتے ہیں‘ کہ بعدازاں بار بار وضاحت کرنا پڑتی ہے‘ مثلاً یہ کہ انقلاب برپا کیے بغیر جو واپس آنے کی کوشش کرے‘ اسے بھی شہید کردیا جائے۔ پھر یہ کہا‘ میں نے یہ بات خود اپنے اور عمران خان کے بارے میں کہی تھی۔ ان میں سے کس پر انہیں اعتماد نہ تھا‘ خود پر یا کپتان پر؟ 
سرکاری مؤقف میں اب بھی الجھائو بہت ہے مگر یہ سرکار نے طے کر لیا ہے کہ مظاہرین کے خلاف پوری انتظامی قوت برتی جائے گی۔ 
احسن اقبال اور راجہ ظفر الحق نے کہا کہ اپوزیشن کی ساری تگ و تاز جنرل پرویز مشرف کے لیے ہے۔ احسن اقبال نے کہا: اگر اس باب میں حکومت اپنا رویہ تبدیل کر لے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ راجہ ظفر الحق نے کہا کہ اس سلسلے میں میاں صاحب پر دبائو بہت ہے۔ نجم سیٹھی نے بھی‘ جو اب نوازشریف کے شاید سب سے بہتر ترجمان ہیں‘ یہ کہا کہ اگر فوج اور حکومت میں مفاہمت ہو جائے تو جھاگ کی طرح تحریک بیٹھ جائے گی۔ گویا عمران خان اور علامہ طاہرالقادری کی پُشت پر فوج کا ہاتھ ہے۔ خواجہ آصف نے ادھوری سی تردید کی کہ خوف زدہ ہو کر اب وہ محتاط ہیں۔ منگل کو میاں نوازشریف نے بھی فوج کی طرف اشارہ کیا‘ جب یہ کہا کہ فلاں کا ایجنڈا کس نے مرتب کیا ہے؟ پرویز رشید کا ارشاد یہ ہے کہ عمران خان چونکہ ضرب عضب کے خلاف ہیں؛ چنانچہ یہ ڈرامہ انہوں نے رچا رکھا ہے۔ سامنے کا سوال یہ ہے کہ آپریشن کے بارے میں سراج الحق کی رائے بھی مختلف ہے‘ پھر ان پر ایسا اعتماد کیوں؟ بار بار پھر ان سے ملاقات کیوں؟ خرم دستگیر اور کچھ دوسرے پیہم یہ کہتے ہیں کہ ترقی کا جو ''طوفان‘‘ میاں صاحب نے برپا کردیا ہے‘ یہ تحریک اسے روک دینے کے لیے شروع کی گئی۔ کون سی ترقی؟ 4.4 سالانہ شرح افزائش کے دعوے کو ماہرینِ معیشت کی اکثریت تسلیم نہیں کرتی۔ دعوے بہت ہیں مگر مہنگائی اور بے روزگاری ان دعووں 
کا مذاق اڑاتی ہے۔ فیصل آباد کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو تباہ کردیا گیا ہے۔ سب سے زیادہ زرمبادلہ کمانے والی صنعت کو۔ 
میاں صاحب جب یہ کہتے ہیں کہ چین کے سوا‘ کسی ہمسایے کے ساتھ پاکستان کے مراسم خوشگوار نہیں تو کسے وہ کیا پیغام دیتے ہیں؟ کیا پاک فوج افغانستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات بگاڑنے کی ذمہ دار ہے؟ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی‘ چیف آف آرمی سٹاف دلبیر سنگھ کے ساتھ لدّاخ پہنچے ہیں اور سیاچن جانے والے ہیں۔ کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں وہ زعفرانی انقلاب برپا کریں گے... ہندتوا۔ یہ بھی کہ پاکستان اب بھارت سے روایتی جنگ لڑنے کے قابل نہیں؛ لہٰذا وہ دہشت گردی کا ہتھیار استعمال کرتا ہے۔ منصب سنبھالتے ہی دلبیر سنگھ نے اعلان کیا تھا کہ لائن آف کنٹرول پر اب حریف کو من مانی کی اجازت نہ دی جائے گی۔ بھارتی فوج کا رویّہ اب مسلسل جارحانہ ہے۔ اس وزیراعظم کے عہد میں جو بھارتی صنعت کاروں کے اشتراک سے ذاتی کاروبار کو فروغ دینے کا آرزو مند ہے۔ کیا ایسا وزیراعظم بھی کبھی کسی ملک نے دیکھا ہوگا جس کی دولت سمندر پار پڑی ہو اور جو دشمن ممالک کے مشکوک لوگوں سے مل کر روپیہ کمانے کو بے تاب ہو۔ 
زہر آلود ہے فضا‘ زہر آلود۔ بدگمانی جب غالب آ جاتی ہے تو متحارب فریق‘ ایک دوسرے کے بارے میں ہر بُری بات پہ یقین کرنے لگتے ہیں۔ مثلاً عمران خان کا یہ خیال کہ شریف برادران اس کی جان لے سکتے ہیں؟ کیا یہ بات قابلِ فہم ہے؟ جس طرح نوازشریف کا یہ خیال کہ اگر عمران خان کے جائز مطالبات بھی انہوں نے مان لیے تو اس کے باوجود وہ رکیں گے نہیں۔ کیوں نہیں؟ آپ نے سنجیدگی سے کوشش کب کی؟ 
دونوں طرف ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو چکا۔ پوری طرح اگرچہ تصدیق نہ ہو سکی۔ معتبر لوگ مگر یہ کہتے ہیں کہ نون لیگ میں بائیس ارکان اسمبلی کا ایک گروپ تشکیل پا چکا اور اس کی قیادت ایک وفاقی وزیر کے ہاتھ میں ہے۔ ادھر اس سے بھی زیادہ معتبر ایک ذریعہ یہ کہتا ہے‘ پختون خوا کے بعض وزراء نے وزیراعظم کو پیغام بھیجا ہے کہ اگر عمران خان نہیں تو وہ ان سے بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ لوگ جو زندگی میں پہلی اور شاید آخری بار اسمبلی میں پہنچے۔ بعض کا دعویٰ یہ بھی ہے کہ وزیراعلیٰ پرویز خٹک آزادی مارچ کے سلسلے میں کچھ زیادہ پُرجوش نہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ دعویٰ درست ہے۔ 
تختہ الٹنے کی تحریکیں‘ سال بھر کے بعد ہی برپا نہیں کر دی جاتیں‘ عمران خان لیکن اب بہت آگے نکل آئے اور واپس نہیں جا سکتے۔ ایک ہفتہ پہلے میں کچھ اہم لوگوں سے ملا۔ مجھے یقین تھا کہ فوج ہرگز مداخلت نہ کرے گی لیکن اب صورت حال مختلف ہے۔ سیاستدانوں نے اسے گھسیٹ لیا ہے۔ اس انداز میں اور اس وقت سکیورٹی کونسل کا اجلاس بلانے پر بعض فوجی افسر خوش نہیں۔ اپوزیشن کے بارے میں بھی ان کی رائے کچھ زیادہ خوشگوار نہیں۔ تحریک انصاف کے بعض لیڈر فوجی مداخلت کے آرزو مند ہیں؛ حالانکہ اگر ایسا ہوا تو حکومت ان کے ہاتھ نہ لگے گی۔ حالات بہت بگڑ گئے تو ٹیکنوکریٹس آ سکتے ہیں اور وہ بھی عدالتی اجازت ہی سے۔ بہت تھوڑا سا وقت باقی ہے کہ سیاستدان مصالحت کر لیں۔ کاش کہ عمران خان اور نوازشریف سراج الحق پر اعتماد کریں‘ جو یہ چاہتے ہیں کہ عمران خان اور نوازشریف میں سے کسی ایک کو بھی خفت کا شکار کیے بغیر مسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں۔ رہے طاہرالقادری تو وہ حل چاہتے ہی نہیں۔ انتقام اور ایک مضحکہ خیز انقلاب۔ شریف خاندان اور طاہرالقادری کا رشتہ‘ نفرت کا رشتہ ہے۔ رہے شیخ رشید تو اعلانیہ وہ کہتے ہیں کہ فوج آئے گی اور شریف خاندان کو رسوا کرے گی۔ جی نہیں‘ وہ سیاسی شہید بنیں گے۔ فساد ہرسو پھیلتا نظر آتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ پاک فوج کی طرف دیکھیں گے‘ پھر آنے والے کل میں بزرجمہر یہ بتائیں گے کہ ملک کے محافظ اس کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ کیوں یہ معصوم سیاستدان مصالحت نہیں کر لیتے؟ کیوں ان کے کاسہ لیس دانشور یہ مشورہ نہیں دیتے؟ کیوں مظاہرین کو اسلام آباد جانے کی اجازت نہیں دی جاتی؟ کیوں وہ ایک میز کے گرد نہیں بیٹھ سکتے؟ پوچھو تو جواب ان میں سے کسی کے پاس نہیں‘ جواز بہتیرے ‘ خوئے بدرا بہانہ بسیار۔ 
چھوٹے چھوٹے لوگ اور ادنیٰ خواہشات۔ حیرت اور رنج کے ساتھ آدمی یہ سوچتا ہے کہ اپنی تقدیر قوم نے کن لوگوں کے حوالے کردی؟ 
پسِ تحریر: لاہور ہائی کورٹ نے کنٹینر ہٹانے‘ تحریک انصاف کے کارکنوں کو نظربند نہ کرنے اور پٹرول کی رسد بحال کرنے کا حکم دیا ہے۔ حکومتی بالادستی تو اب جاتی رہی۔ مزاحمت کریں تو رسوائی۔ مگر بحران اس حکم سے بہرحال ختم نہ ہوگا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved