تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     13-08-2014

ریکھا اور سچن کے بہانے

اداکارہ ریکھا اور کرکٹ کے کھلاڑی سچن ٹنڈولکر کا کیا گناہ ہے؟ان پر ہمارے لیڈر فضول ہی برس رہے ہیں۔وہ انہیں دھمکا رہے ہیں کہ آپ لوگ راجیہ سبھا کے ممبر ہیں لیکن اس کے سیشن میں آپ کی تھوڑی سی موجودگی بھی نہیں ہوتی۔ انہیں ڈرایا جا رہا ہے کہ وہ راجیہ سبھا میں پابندی کے ساتھ نہیں آئے تو ان کی رُکنیت ختم کر دی جائے گی ۔بیچارے سچن کو اپنے بھائی کی آڑ لینی پڑی ہے۔ ریکھا بھی کوئی نہ کوئی صفائی ضرور پیش کریں گی ۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے لیڈر ریکھا اور سچن پر ہی اتنے مہربان کیوں ہو رہے ہیں ؟ انہوں نے کبھی معلوم کیا کہ ان سے بھی زیادہ مشہور اور ہر دلعزیز راجیہ سبھا ممبروں کا ریکارڈ کیسا رہا ہے ؟وہ اپنے چھ سال کے عرصے میں کل کتنے دن ایوان میں موجود رہے ؟کیا ہم نے کبھی سوچا کہ فنکاروں کے نام پر نامزد ہونے والے ممبر راجیہ سبھا میں کیوں نہیں آتے؟ ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ان فنکاروں کو سیاست سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی۔ اگر تھوڑی بہت دلچسپی ہوتی بھی ہے تو انہیں یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ لیڈروں کی روزمرہ کی نوک جھونک میں وہ کیا بولیں ؟راجیہ سبھا میں فن‘سائنس اور معاشرتی خدمت کے بارے میں کتنی گفتگو ہوتی ہے؟اگر ان موضوعات پر گفتگو ہو بھی تو یہ فنکاراور اداکار اس میں بھی کتنا ہاتھ بٹا سکتے ہیں؟ ایک اچھا اداکار ہونا بھی بڑی بات ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ اداکار بھارت کے فلم انڈسٹری کے ہنر کے یاکام کے بارے میں کوئی بنیادی غور و فکر کرتا ہو۔یہ بات کسی کرکٹ کھلاڑی یا پہلوان پر بھی لاگو ہوتی ہے۔اسی لئے ہماری آئینی راجیہ سبھا میں نامزدگی کا جودستور بنایا گیا ہے‘ اس پر نظرثانی کرنے کا وقت آگیا ہے۔غیر سیاسی لوگوں کو نامز د کرنا فائدہ مند ہے لیکن انہیں منتخب کرنے کی واضح سزا بھی مقرر کی جانی چاہیے۔ جب تک کوئی فنکار یا سائنسدان یا سوشل ورکر اپنے خیالات کیلئے نہ جانا جاتا ہو‘اسے ہر گز نامزد نہیں کیا جانا چاہیے۔ایسے لوگوں کو تو بالکل نامزد نہیں کیا جانا چاہیے‘ جو اپنے شعبہ کے تمام پہلوئوں کو ماہرانہ طور پر نہ جانتے ہوں۔ نامزد ہونے والے ہی نہیں ‘راجیہ سبھا میں بیٹھنے والے زیادہ تر رکن اپنے لیڈر کے رحم و کرم اور مہربانی پرمنحصر ہوتے ہیں۔اس سے 'اچ سدن‘ نام کے شان کی حفاظت نہیں ہو پاتی۔اگر ہم راجیہ سبھا کو پارلیمنٹ کا 'اچ سدن‘ واقعی بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اس کے ممبروں کے انتخابی عمل کو بدلنا ہوگا۔کیا صوبوں کے عوام انہیں براہِ راست منتخب کریں تو بہتر نہیں ہوگا؟ راجیہ سبھا کے امیدواروں کی قابلیت کے بارے میں بھی ہمیں گہرائی سے سوچنا پڑے گا۔یہ معاملہ ان غیر جانبدار فنکاروں کی غیر حاضری کا ہی نہیں ہے ‘ بلکہ راجیہ سبھا کے مکمل کردار‘ڈھانچے‘ طاقت اور کام کرنے کی قابلیت کا ہے ۔ریکھا اور سچن کے بہانے اگر ہماری راجیہ سبھا کی تبدیلی ہو جائے تو کیا کہنا؟
............
عوام سمجھتے ہیں کہ ان کے چنے ہوئے لیڈرسرکار چلاتے ہیں لیکن اصلیت کیا ہے ؟اصلیت یہ ہے کہ نوکر شاہ (بیوروکریسی) سرکار چلاتے ہیں ۔لیڈر تو تھوڑے وقت کے مہمان ہوتے ہیں۔ نوکر شاہ سرکار کے مستقل مالک ہوتے ہیں !لیڈرلوگ ہمارے نوکر شاہوں کے نوکر ہوتے ہیں ۔اگر نوکر شاہی ٹھیک ہو جائے تو کوئی بھی سرکار عوام کی حقیقی خدمت گار بن سکتی ہے ۔یہ خوشی کی بات ہے کہ بی جے پی سرکار نے بھارت کے نوکر شاہوں کیلئے ایک نیااور ترمیم شدہ دستورالعمل (کوڈ آف کنڈکٹ) جاری کیا ہے۔ نوکر شاہوں کاجو کردار اور دستور العمل برسوں سے چلا آرہا تھا‘ وہ بہت عام تھا۔ اس میں فرض‘مہذب‘ایمانداری وغیرہ کی کئی چالو اور غیر واضح باتیں کہی گئی تھیں۔لیکن اس دستور العمل میں پوری 19 ہدایات دی گئی ہیں ۔انہیں آپ نصیحتیں بھی کہہ سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ نہیں بتایا گیا کہ ان ہدایات اور نصیحتوں کی حد سے تجاوز کرنایا پہلو تہی کرنے کی سزا کیا ہوگی ‘لیکن پھر بھی یہ ہدایات غور کرنے کے لائق ہیں۔اگر عوام کے ذہن میں یہ ہدایات رہیں گی تو وہ نوکر شاہوں کے ساتھ خود سختی سے پیش آئیں گے اور ضرورت پڑنے پر ان کی فرماں برداری کیلئے سرکار پر دبائو بھی ڈال سکتے ہیں۔ 
سب سے اہم ہدایت تو یہ ہے کہ نوکر شاہ سیاسی طور پر غیر جانبدار رہیں گے ۔یعنی ان کا کام صرف پالیسیوں کو نا فذ کر نا ہے‘نہ کہ اپنے وزراء کی ذاتی یا پارٹی کی سیاست کے دلدل میں پھنسنا۔ اکثر ہوتا یہ ہے کہ کئی افسر اپنے وزرا کے اتنے زیادہ قریب ہو جاتے ہیں کہ ان کے لئے اقتداری اور سیاسی کام کاج میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔وہ لیڈروں کے سیاسی مشیر اور کارکن بھی بن جاتے ہیں ۔ہمارے تقریباً سبھی افسر ہمارے اوسط لیڈروں سے زیادہ پڑھے لکھے زیادہ تجربہ کار اور زیادہ محنت کش ہوتے ہی ہیں ۔ان سے یہ نیا دستور العمل امید کرتا ہے کہ وہ جو بھی فیصلہ کریں ‘ وہ خالص عوام کے مفاد میں ہو اور قابلیت کی بنیاد پر ہو۔ اس میں ذاتی مفاد یا جانبداری یا دوستی دشمنی کا حساب نہ ہو ۔ایسا 
وعدہ تو وزرالوگ بھی حلف برداری کے وقت کرتے ہیں۔ لیکن ہوتا کیا ہے؟ مصیبت یہ ہے کہ حلف بھی ہے‘ کردار و دستور العمل یعنی ضابطہ اخلاق بھی ہے اور اس کے ساتھ بد عنوانی بھی زوروں پر ہے۔ اگر وزیر اورنوکرشاہ اپنے مندرجہ بالا عزم پر قائم رہیں تو پھر بدعنوانی کیسے ہو سکتی ہے؟
وزراء کا یہ حلف اور نوکر شاہوں کا دستورالعمل تبھی کارگر ہو سکتا ہے‘ کہ جب ان کی نگہبانی سختی سے کروائی جائے اور ان کی حکم عدولی کی سزا نہایت ہی سخت ہو یعنی عام آدمی کو جو سزا ملتی ہو‘اس سے دوگنی ہو۔اس طرح کا کوئی بھی قانون ہمارے لیڈروں اور نوکر شاہوں کیلئے کہیں نہیں ہے ۔
سب سے پہلے سبھی عہدوں پر فائز لیڈروں اور نوکر شاہوں کی ظاہری یا غائبانہ ملکیتوں کی تفصیل کو ہر سال سرعام لانا چاہیے۔ ان کی بیویوں یا خاوندوں اور بچوں پر بھی یہ قانون لاگو ہونا چاہیے۔اگر وہ بد عنوانی کرتے پکڑے جائیں تو ان کی اور ان کے رشتے داروں کی ساری ملکیت ضبط کی جانی چاہیے۔ اس کے علاوہ نوکر شاہوں کو ریٹائر ہونے کے بعد کوئی بھی سرکاری یا سیاسی عہدہ اگلے پانچ سال تک نہیں دیا جانا چاہیے۔اسی طرح انہیں نجی کمپنی میں بھی نوکری کرنے کا حق نہیں ہونا چاہیے۔اگر اس طرح کے سخت قانون نافذ کیے جائیں تو بد عنوان لوگ سیاست اور نوکر شاہوں کو دور سے ہی سلام کرنے لگیں گے‘ بدعنوانوں کی روح کانپنے لگے گی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved