تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     13-08-2014

فیصلہ

طاہر القادری صاحب نے فیصلہ کر لیا۔اب عمران خان کو بھی فیصلہ کر نا ہے۔قادری صاحب کا فیصلہ ہے کہ انہوں نے کر بلا سجانا ہے۔انہوں نے چراغ گل کر دیے ہیں۔انہیں تو انسانی لہو سے اپنی سیاست میں رنگ بھرنا ہے۔عمران اب کیا کریں گے؟
ایک گروہ نے جاوید احمد غامدی صاحب کے فہمِ دین سے اختلاف کیا۔یہ ہماری روایت میں کوئی اجنبی بات نہیں۔اجنبی یہ تھا کہ ان میں سے کچھ لوگ ان کی جان کے درپے ہوگئے۔ لاہور کے ایک رہائشی علاقے میں ان کا علمی مرکز تھا۔ان کے جریدے کے مدیر پر حملہ ہوا۔گولی جبڑے کو چیرتی ہوئی گزر گئی۔ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں نہ ہوتی تو عالمِ امکانات میں بچنے کاکوئی امکان نہیں تھا۔خالق ِ موت و حیات نے مگر بچا لیا۔غامدی صاحب خود دھمکیوں کی گرفت میں تھے۔ اہلِ محلہ مضطرب ہوئے کہ یہ ادارہ یہاں موجود رہا تو ایسے واقعات کو دہرایا جا سکتا ہے۔ کوئی غیر متعلق بھی زد میں آ سکتا ہے۔جاوید صاحب نے فیصلہ کیاکہ انسانی جانوں کو خطرے میں نہیںڈالا جا سکتا۔ادارہ بند کر دیا گیا۔وہ جہاں رہتے تھے، لوگ ان کو مارنے وہاں پہنچ گئے۔انہوں نے گھر دھماکے سے اڑانے کا ارادہ کیا۔ایجنسیوں کو بھنک پڑی کہ دوگروہ اس مقصد کے لیے روانہ ہو چکے۔ایک گروہ پکڑا گیا۔کچھ دیرکے نوٹس پر گھر چھوڑنے کی ہدایت کی گئی۔اڑوس پڑوس کو خبر ہوئی۔ لوگوں نے ہمدردی کی لیکن ساتھ ہی انہیں اپنی جان کی بھی تشویش ہوئی۔ جادید صاحب نے ایک اور فیصلہ کیا۔''میں اپنی ذات کے لیے اتنے لوگوں کی جان خطرے میں نہیں ڈال سکتا‘‘۔ ملک چھوڑ دیا۔زندگی میں فیصلہ توکر نا پڑتاہے،خاص طور پر ، اس وقت جب آپ کے فیصلے سے بہت سے لوگوںکے جان و مال وابستہ ہوں۔
حکومت نے عمران خان کی سب باتیں مان لیں۔یہ بچگانہ اسلوب ہے کہ ''پہلے کیوں نہیں دیا۔اب میں نہیں لیتا‘‘۔ سیاست بازیچۂ اطفال نہیں ہے۔یہ کروڑوں انسانوں کے جان و مال کا معاملہ ہے۔اسے بچوں کا کھیل نہیں بنا یا جا سکتا۔ حکومت پر یہ تنقید کی جاسکتی ہے کہ اس نے غیر سیاسی رویے کا مظاہرہ کیا۔مجھے بھی اس سے اتفاق ہے اور میں اس پر لکھ چکا۔ عقلِ کُل کے زعم میں مبتلا لوگوں کی مشاورت حکومت کو یہاں لے آئی کہ وہ اپنے وقار کو ایک طرف رکھ کران معاملات پربھی مصالحت پر آ مادہ ہے جنہیں باوقار انداز میں بھی سلجھایاجا سکتا تھا۔مخالفین کے دائرے کو کمال مہارت کے ساتھ وسعت دی گئی۔کوشش یہ کی گئی کہ کوئی جماعت یا فرد اس سے باہر نہ رہ پائے۔خود کو یوں بے دست و پا محسوس کیا کہ سراج الحق صاحب نے زیتون کی شاخ ہلائی تو اسے غنیمت جانا۔پرویز رشید صاحب جماعت اسلامی کی ریلی میں جا پہنچے۔مجھ سمیت بہت سے لوگوں نے واویلا کیا کہ وزیراعظم قوم سے خطاب کریں۔ بتائیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور ان کی حکمتِ عملی کیا ہے؟وزیر اعظم نے ارادہ کیا لیکن بعد از خرابیٔ بسیار۔ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔وہ دوٹوک فیصلہ دیتی ہے۔ جو غلطی کر تا ہے، سزا سے بچ نہیں سکتا۔
اس مقدمے کے باوصف، اب حکومت سب کچھ مان رہی ہے۔مستقبل کے انتخابات کے لیے وہ اصلاحات پر آ مادہ ہے اور اس کے لیے پہلاقدم اٹھا یا جا چکا۔ماضی کے انتخابات پر بھی اس نے مطالبہ مان لیا اور دس حلقوں کی دوبارہ گنتی پر تیار ہے۔اس کے بعد عمران خان کی حد تک احتجاج کا جواز ختم ہو گیا۔اب اگر وہ مزید کوئی مطالبہ کریں گے تو وہ غیر اخلاقی ہو گا۔میں اس سے بڑھ کر یہ کہتا ہوں کہ اگر حکومت یہ مطالبہ نہ مانتی تو بھی وزیر اعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ غیر جمہوری تھا۔ملک میں مو جود عدالتی نظام نے تحریکِ انصاف کے اعتراضات پر بڑی حد تک اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔عمران خان اپنے موقف کی صداقت کے اس طرح اسیر ہیں کہ انہیں ہر وہ آ دمی بددیانت دکھائی دیتا ہے جو ان سے مختلف رائے رکھتا ہے۔جن کی دیانت کے وہ گیت گاتے تھے،اب صفحہِ زمین پر بد ترین آ دمی ہیں۔اگر ہر آ دمی کو یہ حق دے دیا جائے کہ وہ اپنے اپنے انصاف کو بزور طاقت نافذکرے تو انسانی بستیاں جنگل بن جائیں۔انسان کے تہذیبی ارتقا کا حاصل یہی ہے کہ اسے کسی نظام کے تابع زندگی گزارنی ہے۔نظام نام ہے کسی ضابطہ اخلاق اور اس کی بنیاد پر بننے والے اداروں کو قبول کرنے کا۔'' اگر مجھے کچھ ہو گیا تو کارکن شریف خاندان سے بدلہ لیں‘‘۔اگر ہم نے اپنے اپنے 'دشمنوں‘ سے خودہی بدلہ لینا ہے تو کسی حکومت کی کیا ضرورت؟ کسی آئین کی کیا حیثیت؟
عمران خان یہی نہیں کر رہے کہ وہ بات مان نہیں رہے۔وہ ایک ایسے سیاسی کلچر کو فروغ دے رہے ہیں جس میں سیاسی مخالفت کا مطلب دشمنی ہے۔یوں وہ ملک میں خانہ جنگی کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔ یہ بات اب بلا خوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ ان کے ہاں یہ تقسیم حق و باطل یا غلط اور صحیح کی اساس پر نہیں۔اگر ایسا ہو تا توو ہ آج طاہرالقادری صاحب اور چودھری صاحبان کے حلیف نہ ہوتے۔جمشید دستی سمیت بہت سے لوگوںکے لیے ان کی جماعت کے دروازے نہ کھلتے۔وہ اقتدار کی سیاست کے ایک فریق ہیں جیسے دوسرے ہیں۔ بدقسمتی سے انہوں نے اپنی اخلاقی برتری کو اپنے ہی ہاتھوں سے گنوا دیا۔ان کے سامنے ایک مثبت راستہ بھی مو جود تھا۔طیب اردوان کا راستہ۔ انہیں ایک شہر کی قیادت ملی تو انہوں نے اپنے حسنِ انتظام سے ہم وطنوں کو قائل کر لیا کہ انہیں پورے ملک کی قیادت سونپ دی جائے تووہ ہر طرف پھول کھلا دیں گے۔اہلِ وطن نے اعتبار کیا اور انہوں نے ترکی کو گلستان بنا دیا۔آج گیارہ سال وزیراعظم رہنے کے بعد ، عوام نے انہیں اپنا صدر منتخب کرلیا کہ آئینی طور پروہ مزید وزیر اعظم نہیں رہ سکتے تھے۔عمران خان کے پاس یہ 
راستہ مو جود تھا۔وہ خیبر پختون خوا کو بنیاد بنا سکتے تھے۔ افسوس انہوں نے سیاست دان بننے کی بجائے احتجاج پسند بننا قبول کیا۔شیخ رشید کو اتالیق مان لینے کے بعد یہی ہو سکتا تھا۔
عمران کے پاس اب بھی وقت ہے۔اگر وہ اپنے مطالبات کو آئین کے دائرے میں رکھیں توحکومت کو چاہیے کہ وہ انہیں اجتماع کی اجازت دے دے۔حکومت کو خوف سے اب نکل آنا چاہیے۔اسے اخلاقی بنیادوں پر اپنا مقدمہ لڑنا چاہیے۔بعد از خرابیٔ بسیار،اب وہ صحیح جگہ پہ کھڑی ہے۔اس کے بعد اگر کوئی فساد برپا کر تا ہے تو وہ جانے اور عوام۔ طاقت کا استعمال کوئی مثبت نتیجہ نہیں دے سکتا۔پھر حکومت اس کا سلیقہ رکھتی ہے نہ ہمت۔بہتر ہے کہ لوگوں کو احتجاج کرنے دیا جائے۔ لوگ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ جب کوئی جمہوری اور آئینی حق غیر مشروط سمجھ کر استعمال کیا جا تا ہے تو اس کا نتیجہ کیا ہو تا ہے۔
عمران خان نے اب بھی کسی غیر آئینی مطالبے کی بنیاد پر اپنی تحریک جاری رکھنے کا فیصلہ کیا تو یہ ملک کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔ امن اور استحکام آج پاکستان کے لیے ایسے ہی ضروری ہیں جیسے ایک فرد کے لیے آکسیجن۔ آکسیجن کے بغیر زندگی کی ڈور کٹ جا تی ہے۔عمران خان نے سیاست کو جس طرح دشمنی میں بدلا ہے،اس سے امکان ہے کہ گلی گلی تصادم ہو۔آخر دوسری طرف بھی تو انسان بستے ہیں۔وہ بھی مشتعل ہو ں گے۔اگر ن لیگ کے کارکنوں نے بھی اپنی قیادت کی بے حرمتی کا بدلہ عمران خان سے لینے کا ارادہ کیا تو پھر کیا ہوگا؟طاہر القادری صاحب نے تو فیصلہ کر لیا۔اب عمران خان کو فیصلہ کرنا ہے۔ ان کے فیصلے سے کروڑوں انسانوں کے جان ومال کا مستقبل وابستہ ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved