ایک زمانے سے وقت کا تقاضا ہے کہ محنت و مشقّت کے ذریعے پسینہ بہایا جائے تاکہ مسائل حل ہوں۔ ایسا تو کچھ ہوا نہیں، اِس لیے اب شرم سے پانی پانی ہونے کا مقام آگیا ہے۔ مگر ایسا بھی کیونکر ہو کہ اب کوئی ایسا مردِ قلندر ڈھونڈے سے نہیں ملتا جو کوئی ایسی ویسی بات کہے اور ہم شرم سے پانی پانی ہوجائیں!
67 سال سے حالت یہ ہے کہ ہم جہاں داری و جہاں گیری کے دعوے کئے جارہے ہیں اور دنیا ہے کہ ہنسے جارہی ہے۔ تنزّل کے ہر مرحلے سے گزرنے پر بھی ہم ترقّی کے راگ الاپ رہے ہیں اور یہ سوچ کر خوش ہیں کہ دنیا کے پاس ہماری ہر بات پر یقین کرنے کے سِوا چارہ نہیں! دنیا کو مُسخّر کرنے کے دعوے اِس حالت میں کئے جارہے ہیں کہ اب تک ہم اپنی معمولی کمزوریوں کو بھی دور نہیں کرسکے۔ اسلام کا قلعہ ہونے کا دعویدار ملک اب تک پینے کے صاف پانی کے حصول کی راہ میں حائل فصیل گرانے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکا! ع
شرم ہم کو مگر نہیں آتی!
پانی کا معاملہ وہی ہے جو پورے وطن کا ہے۔ دِل تو ہیں، اُن میں جذبے نہیں۔ دماغ تو ہیں مگر اُن میں عقل کا پایا جانا لازم نہیں۔ سانس آ اور جارہی ہے مگر زندگی کا دور تک نام و نشان نہیں۔ بالکل اِسی طرح نل تو ہے مگر پانی غائب ہے۔ پانی تو ہم سے یوں بے اعتنائی برت رہا ہے جیسے اُس کی آنکھوں کا پانی ہی مر گیا ہو! پانی ایسا روپوش ہوا ہے جیسے اُسے ٹارگٹ کلنگ کا خوف ہو!
غلام ربانی تاباںؔ مرحوم نے خوب کہا ہے ؎
کچھ بتاؤ تو آخر، کیا جواب دوں اُس کو
اِک سوال کرتا ہے روز مُجھ سے گھر میرا
ہمارا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ گھر میں روز پانی کی ضرورت پڑتی ہے یعنی پانی کی ڈھونڈ مچتی ہے۔ پانی چیز ہی ایسی ہے کہ نہ چھوڑی جائے یعنی روزانہ ہی اِس کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ع
ہائے کیا کیجیے اِس دِل کے مچل جانے کو
کراچی میں اب پانی کا حصول ایسا معاملہ ہے کہ روز طلب کیجیے تو ''انوکھا لاڈلا، کھیلن کو مانگے چاند‘‘ جیسے جملوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔ بعض منچلے تو روز روز پانی مانگنے کو عیاشی سے تعبیر کرنے لگے ہیں!
برسوں پہلے ایک گیت مقبول ہوا تھا جس کا مُکھڑا تھا ع
پانی رے پانی! تیرا رنگ کیسا؟
وہ زمانے اور تھے۔ تب پانی اِتنا مغرور نہیں ہوا تھا یعنی درشن بھی دیتا تھا اور مِل بھی لیتا تھا۔ اب ہم پانی سے اُس کے رنگ وغیرہ کے بارے میں کوئی بات تب کریں جب وہ ہاتھ آئے! پکڑائی تو کیا دے گا، پانی اب دکھائی بھی کم دیتا ہے!
پینے کے صاف پانی اور اہلِ پاکستان کا تعلق بھی بہت عجیب ہے۔ معمول کی ایک چیز نے راتوں رات اپنا اسٹیٹس غیر معمولی رفتار اور شِدّت سے اپ گریڈ کیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بنیادی ضرورت کی ایک چیز معاشرے کی بنیادیں ہلانے پر تُل گئی ہے۔ اب کریں تو کیا کریں؟ پانی کی ضرورت روز ہی پڑتی ہے۔ حلق سے اُنڈیلے بغیر گزارا نہیں، چارہ نہیں۔ مگر جناب! ہم کہاں پی رہے ہیں، اب تو پانی ہمیں پی رہا ہے۔ اور جب یہ نہیں ملتا تو خون کے گھونٹ پینے پڑتے ہیں! جس شہر میں ملک بھر کے لوگ جمع ہوکر سخت محنت کے ذریعے اپنے مسائل حل کرتے ہیں وہاں پانی سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ تیل کی تلاش میں اب مُلک کے دور اُفتادہ مقامات پر تکنیکی مہم جُوئی کی ضرورت کیا ہے؟ پانی اپنے درشن سے محروم رکھ کر سب کا تیل نکال تو رہا ہے!
لوگ اِس آس پر جی رہے ہیں کہ بادل کُھل کر برسیں تو ڈیم بھریں، ڈیم بھریں تو جی بھر کے پانی ملے۔ گہرے گہرے، پانی سے بوجھل بادل آتے ہیں تو دیکھنے والوں کے مُنہ میں پانی بھر آتا ہے۔ بہت سے لوگ بادلوں کو دیکھنے سے مُنہ میں بھر آنے والے پانی ہی سے وقتی طور پر پیاس بجھالیتے ہیں!
حالیہ رمضان اہلِ کراچی کے لیے دُہری آزمائش کا تھا۔ روزے کی حالت میں کچھ پینے سے اجتناب برتا جاتا ہے اِس لیے واٹر بورڈ والوں نے سوچا جب روزہ داروں کو دن بھر پیاسا ہی رہنا ہے تو پھر پانی دینے کی ضرورت کیا ہے؟ کراچی واٹر بورڈ کی ایسی pre-emptive strikes نے شہر کو پانی کے شدید بحران سے دوچار اور ٹینکر مافیا کو زبردست آمدنی سے ہمکنار کردیا۔ جن ساعتوں میں اللہ کے حضور سَر بسجود ہوکر فضائل و برکات کا حصول یقینی بنانا تھا وہ پانی کے حصول کی فکر میں ضائع ہوگئیں۔
بُوند بُوند پانی کو ترسنے والے شہریوں نے پانی اِس طور استعمال کیا کہ خود بھی حیران رہ گئے۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ پانی کو احتیاط سے استعمال کرنے کے نئے طریقے سوچے گئے۔ جب پانی کی کمی بہت بڑھ گئی تو ہم نے بھی عظیم موجد تھامس ایڈیسن کی طرح سوچنے کی ابتدا کی! اڑوس پڑوس والوں کی طرح ہم نے بھی پانی کو پُھونک پُھونک کر استعمال کرنا شروع کیا۔ جو لوگ نہاتے وقت شاہ خرچی پر تُل جاتے تھے یعنی کئی بالٹی پانی بہاتے تھے وہ پہلے ایک بالٹی پر آئے اور پھر آدھی بالٹی پر اکتفا کرنے لگے! ہم نے بھی یہی روش اختیار کی۔ یعنی اختیار کرنی پڑی! یہ تو ہوا غسل کا معاملہ۔ ایک پیچیدہ مسئلہ یہ بھی تھا کہ دن میں پانچ وقت وضو کے لیے پانی کہاں سے لایا جائے؟ دین میانہ روی سِکھاتا ہے مگر وضو کے معاملے میں تو لوگ اِس قدر پیچھے ہٹ گئے کہ بے چاری میانہ روی بھی اُن کے مُنہ تکتی رہ گئی! بہت سوں نے پہلے تو دو مگ پانی سے وضو کرنے کی عادت ڈالی۔ اور پھر ایک مگ پر آگئے۔ ہم نے بھی پورے اعتقاد و انہماک سے یہ ''ہنر‘‘ سیکھا!
ہم نے جب ایک مگ پانی سے وضو کرنے کے ''ہنر‘‘ کا مظاہرہ گھر میں کیا تو اہلیہ بہت متاثر ہوئیں۔ ہماری خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ ماہِ صیام کی برکت سے اتنا تو ہوا کہ اہلیہ کسی معاملے میں ہم سے متاثر اور ہماری اہلیت کی قائل ہوئیں! پھر اُنہوں نے ایک ایسا مشورہ دیا کہ ہم روزے کی حالت میں اَدھ مُوئے سے ہونے کے باوجود پھڑک اُٹھے۔ کہنے لگیں کہ ایک مگ پانی سے وضو کرنے کی وڈیو بناکر فیس بک پر ڈال دیجیے۔ ہم نے ایسا کرنے کی غایت جاننی چاہی تو بولیں۔ ''پانی اللہ کی ایک بنیادی نعمت ہے۔ اِس کا کفایت شعاری پر مبنی استعمال سِکھانا صدقۂ جاریہ کا درجہ رکھتا ہے۔ کالم لِکھتے رہنے سے آپ کے اعمال نامے میں جو سیاہی داخل ہوئی ہے شاید وہ اِس عمل سے دُھل جائے!‘‘
اہلیہ کی تجویز اور اُس کی توضیح پر ہم حیران رہ گئے۔ اور کر بھی کیا سکتے تھے؟ سچ تو یہ ہے کہ ایک شریف آدمی ایسی صورت حال میں حیران ہوکر چُپ رہنے کے سِوا کر بھی کیا سکتا ہے؟ آپ کو یاد ہی ہوگا کہ ''مغلِ اعظم‘‘ میں شہزادہ سلیم (دلیپ کمار) نے جلال الدین محمد اکبر (پرتھوی راج کپور) کے سامنے طنزیہ لہجے میں کہا تھا۔ ''ایک 'عظیم الشان‘ شہنشاہ کے سامنے کوئی کر بھی کیا سکتا ہے؟‘‘
ہم چونکہ لِکھاری ہیں اِس لیے (تقریباً تمام ہی لِکھاریوں کی طرح) اِس وہم میں مبتلا ہیں کہ ہم بہت سوچتے ہیں اور بہت دور کی بھی سوچ لیتے ہیں! مگر یقین کیجیے کہ ہمیں کبھی خواب میں نہ سُوجھا تھا کہ پانی جیسی چیز ہمیں ناکوں چنے چبوا سکتی ہے! کچھ ہم ہی جانتے ہیں کہ ایک دو بالٹی پانی کے لیے کیسے کیسے لوگوں کے ناز اُٹھانے پڑے ہیں ؎
اُس نقشِ پا کے سجدے نے کیا کیا کِیا ذلیل
میں کوچۂ رقیب میں بھی سَر کے بَل گیا!
اب تو عالم یہ ہے کہ جس دن پانی آتا ہے، احباب ''ہیپی 'باتھ ڈے‘ ٹُو یُو‘‘ کا ایس ایم ایس بھیجتے ہیں! اور اِس میں ایسا غلط بھی کیا ہے؟ ہفتہ دس دن میں پانی ملتا ہے تو کراچی کے شہری پانی کی دھار دیکھتے ہی گنگنانے لگتے ہیں ع
کب کے بچھڑے ہوئے ہم آج کہاں آ کے ملے!