پاکستان کے قیام کا مقصد ایک اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تھا جس میں مسلمانانِ برصغیر اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق زندگی بسر کر سکیں اور اس کے ساتھ ساتھ اس ملک میں بسنے والے لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہوسکے۔انگریزوں نے چونکہ برصغیرمیں مسلمانوں سے اقتدار چھینا تھا‘ اس لیے وہ ہندوؤں کے لیے نرم جذبات رکھتے تھے۔ مسلمانوں کو بیک وقت انگریزوں کے جبر اور ہندوؤں کی مکاری کا سامنا تھا ۔ہندو تقسیمِ وطن کا مطالبہ قبول کرنے پر تیار نہیں تھے۔ ان کا یہ گمان تھاکہ مغربی جمہوری نظام میں عددی اکثریت کی وجہ سے وہ ہمیشہ مسلمانوں پر غالب رہیں گے ۔ مسلمان رہنماؤں نے انتہائی بالغ نظری اور استقامت سے بیک وقت ہندوؤں اور انگریزوں کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کیا ۔قائد اعظم محمد علی جناح ،علامہ محمد اقبال ،مولانا محمد علی جوہر اور مولاناظفر علی خاں جیسے زیرک رہنماؤں نے علیحدہ مملکت کے حصول کے لیے زبردست جدوجہد کی اور بالآخر مسلمان دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کے حصول میں کامیاب ہو گئے ۔مسلمانوںکا یہ خیال تھا کہ پاکستان میں ان کے عقائد اور حقوق محفوظ رہیں گے ۔بدقسمتی سے پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست نہ بن سکا ۔
پاکستان میں بڑے بڑے جاگیر دار اور سرمایہ دار اہم سیاسی جماعتوںکے نمایاں عہدے داران بن گئے‘ جنہوں نے ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی بجائے روایتی قومی ریاست میں تبدیل کر دیا ۔پاکستان ایک کثیر القومی ریاست تھا جس کی بقااور ترقی کے لیے اسے ایک نظریاتی ریاست کی حیثیت سے برقراررکھنا ازحد ضروری تھا۔ پاکستان کے حکمرانوں اور سیاسی رہنماؤں نے اس کو قومی ریاست کے طورپر چلانا چاہا تو بنگلہ‘ اردو تنازعہ پیدا ہو گیا جس کی وجہ سے مشرقی اور مغربی پاکستان میں اختلاف پیدا ہوا۔ یہ اختلاف بڑھتے بڑھتے یہاںتک جا پہنچا کہ پاکستان دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا ۔
سقوطِ ڈھاکہ کے بعدبھی پاکستان میں ریاست کی سمت کے حوالے سے اختلاف جاری و ساری رہا ۔ذوالفقارعلی بھٹو نے سوشل ازم اورروٹی ،کپڑا، مکان کا نعرہ لگایا۔ اس نعرے کی ترویج کے لیے انہوں نے ریاستی امور سے مذہب کو بھی علیحدہ کرنے کی جدوجہد شروع کردی ۔ اس جدوجہد کے خلاف ملک میں ایک ردعمل پیدا ہوا اورقومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے تحریک نظام مصطفی شروع کی گئی ۔پیپلز پارٹی کے جوشیلے کارکنان کا قومی اتحاد کے جذباتی کارکنان سے ٹکراؤ ہوا اور ملک بھر میں افراتفری کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ نتیجتاً ذوالفقار علی بھٹومرحوم کو اقتداراور پھر جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔
جنرل ضیاء الحق مرحوم نے ملک میں مارشل لاء لگا کر اسلامائزیشن کانعرہ لگایا۔ بہت سی مذہبی جماعتوں نے اس نعرے کی وجہ سے جنرل صاحب کی حمایت کا اعلان بھی کیا۔ بدقسمتی سے عملی طور پر ملک میں اسلام نافذنہ ہو سکا جس کی وجہ سے کئی نمایاں مذہبی رہنما جنرل ضیاء الحق سے بدگمان ہو گئے جن میں مولانا فضل الرحمن ، شاہ احمد نورانی اور والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیر سرفہرست تھے ۔ جنرل ضیاء الحق کے آمرانہ اقدامات کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو بھی دوبارہ پھلنے پھولنے کا موقع ملا ۔1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میںبننے والی اسمبلی میں مسلم لیگ کی بنیاد ڈالی گئی جس کی قیادت پہلے میاں محمدخان جونیجو اور بعد ازاں میاں محمد نواز شریف کے ہاتھ میں آئی ۔ملک کی نمایاں مذہبی سیاسی جماعتوں نے ان انتخابات کابائیکاٹ کیا تھا ۔ان جماعتوںنے ایم آرڈی کے پلیٹ فارم سے جنرل ضیاء الحق کے خلاف تحریک شروع کی ۔محترمہ بے نظیر بھٹو اپریل 1986ء میںحزب اختلاف کی نمایاں ترین لیڈر کی حیثیت سے وطن میں داخل ہوئیں اور ملک بھر میں بڑے اجتماعات کا انعقاد کیا۔ ان اجتماعات کے ساتھ ساتھ جنرل ضیا ء الحق مرحوم کے عملی طورپر نفاذ اسلام کے سلسلے میں اقدامات نہ کرنے پر علامہ احسان الہٰی ظہیر ؒنے بھی ملک بھر میں رابطہ عوام مہم چلائی ۔ان بھر پور اجتماعات کے باوجود جنرل ضیاء الحق مرحوم ملک پر جبراً مسلط رہے۔ بعد ازاں جنرل ضیاء الحق مرحوم طیارے کے حادثے کا نشانہ بنے ۔ ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ملک میںدوبارہ انتخابی معرکہ بپا ہوا۔ایک دفعہ پھر مسلم لیگ نے مذہبی جماعتوں کو اسلامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ اسلامی جمہوری اتحاد اور پیپلزپارٹی کے درمیان انتخابی معرکہ آرائی ہوئی جس کے نتیجے میں ملک میں پیپلزپارٹی اور پنجاب میں اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت بن گئی ۔
پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کی حکومتیں ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار رہیںجس کے نتیجے میں کوئی بھی حکومت اپنے اقتدارکی مدت مکمل نہ کر سکی۔1997ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو غیر معمولی اور واضح کامیابی حاصل ہوئی جس کے بعد میاں محمد نوازشریف اور مقتدر طاقتوںکے درمیان اختیارات کی رسہ کشی شروع ہوگئی ۔معاملہ بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچا کہ اس وقت کے آرمی چیف بھی رسہ کشی کی زد میںآگئے ۔میاں محمد نواز اور جنرل پرویز مشرف کے درمیان کشمکش کے نتیجے میں میاں محمد نواز شریف اقتدار سے محروم ہوئے اور بعد ازاں طویل عرصے تک جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبو ر ہوگئے ۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا اور پاکستان کے ائیر پورٹ بھی جنرل صاحب کے حکم پر امریکہ کے حوالے کر دیئے گئے۔مذہبی جماعتیں جنرل صاحب کے رویے سے نالاں تھیں۔ چنانچہ امریکی جارحیت اورجنرل صاحب کی پالیسیوں کے خلاف مذہبی جماعتوں کا اتحاد متحدہ مجلس عمل معرض ِ وجود میں آیا جس نے 2002ء کے انتخابات میں جنرل صاحب کی حمایت یافتہ جماعت مسلم لیگ(ق) کا مقابلہ کیا ۔ق لیگ انتخابات میں کامیاب ہوئی اور متحدہ مجلس عمل دوسری بڑی جماعت بن کر سامنے آئی۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں بے نظیر بھٹوکا سانحۂ ارتحال ہوا۔ ایک مرتبہ پھر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) یکجا ہو کر جنرل مشرف کے خلاف صف آرا ہوئیں۔ 2008ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کامیاب ہوئی جبکہ مسلم لیگ(ن) دوسری بڑی جماعت کی حیثیت سے دوبارہ منظر عام پر آگئی ۔آصف علی زرداری کے صدر بننے کے ساتھ جنرل پرویز مشرف اقتدار سے محروم ہوئے۔ 2002ء کے انتخابات کے بعد یہ دوسری حکومت تھی جو اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہوئی ۔
2013ء کے انتخابات سے قبل عوامی تحریک کے سربراہ نے وطن واپسی کا اعلان کیا اور انتخابی اصلاحات کی عدم موجودگی میںانتخابات کو غیر ضروری قرار دیا ۔انہوں نے اپنے مطالبات کے حق میں پارلیمنٹ کے سامنے دھرنابھی دیا۔تاہم وہ اپنے مطالبے نہ منوا سکے اور 2013ء کے انتخابات کا انعقاد ہو گیا جس میں مسلم لیگ (ن) کو فتح حاصل ہوئی اور پیپلز پارٹی کے علاوہ تحریک انصاف بھی ایک بڑی جماعت کی حیثیت سے سامنے آگئی۔ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نے بھر پو ر انتخابی اور تشہیری مہم چلائی ۔عمران خان انتخابات میں فتح کے حوالے سے پُرامید تھے لیکن ان کو مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے۔ انہوں نے اس موقع پر انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیا اور چار حلقوں میں انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کے ساتھ ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا ۔خان صاحب کا مطالبہ نظر انداز ہو گیا نتیجتاً ان کے مطالبے میں شدت پیدا ہو گئی اورگزشتہ چند مہینوں کے دوران ان کا لب و لہجہ بدلتا چلا گیا۔ مطالبات نظر انداز ہونے پر انہوں مڈٹرم انتخابات کا مطالبہ کر ڈالااور وہ 14اگست کو اس حوالے سے لانگ مارچ بھی کرنے جارہے ہیں ۔حکومت ان سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے لیکن احتجاج کی اجازت نہیں دینا چاہتی ۔عمران خان مڈٹرم انتخابات کے مطالبے پر بضد ہیں اور مسلم لیگ کی حکومت کو بادشاہت سے تعبیر کر رہے ہیں ۔
دوسری طرف عوامی تحریک بھی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کرکے میدان عمل میں موجود ہے اور 14اگست ہی کو انقلاب مارچ کر رہی ہے ۔عوامی تحریک کے سربراہ نے مجھے بھی اس جدوجہدمیں شمولیت کی دعوت دی جس میںمیں نے متعدد وجوہ کی بنیاد پر شرکت نہ کی ۔ عوامی تحریک اور تحریک انصاف کے لانگ مارچ کا مقابلہ مسلم لیگ (ن) سیاسی انداز میں کرتی ہوئی نظرنہیں آرہی اور عوامی اورسیاسی راستے اختیار کرنے کی بجائے ریاستی طاقت کو استعمال کرنے کی ابتدا کر چکی ہے جس کے نتیجے میں ملک بھر میں تصادم کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے اور تصادم کے خدشے کے نتیجے میں ایک دفعہ پھر ملک سیاسی اعتبار سے بے یقینی کا شکار ہو چکا ہے ۔
جب تک قیام پاکستان کا اصل مقصد پورا نہیں کیا جائے گا یعنی اس ملک کو ایک اسلامی فلاحی ریاست نہیں بنایا جائے گا سیاسی جماعتوں کے درمیان ٹکراؤ کی کیفیت جاری و ساری رہے گی ۔ پاکستان کو پُرامن ریاست بنانے کے لیے آئین کی رو ح کے مطابق قرآن و سنت کی حاکمیت کو یقینی بنانا ہو گا اور ہرشہری کو اس کے بنیادی حقوق دلوانے ہوں گے‘ وگرنہ تصادم اورٹکراؤ کا باب بند نہیں ہو سکتا ۔