تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     14-08-2014

وقت کسی کا انتظار نہیں کیا کرتا

امید کچھ زیادہ نہیں مگر شاید کوئی غور کرے۔ شاید کسی کو سوجھ جائے کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کیا کرتا۔ جو اپنے فیصلے خود صادر نہیں کرتے‘ ان کے لیے زمانہ اپنا فرمان خود لکھتا ہے‘ آہنی ہاتھ سے! 
جب نوازشریف کے وزیر داخلہ یہ کہتے ہیں کہ ہر حلقۂ انتخاب میں ساٹھ سے ستر ہزار ووٹ ایسے ہیں‘ جن کی تصدیق نہیں کی جا سکتی‘ تو وہ کس منہ سے الیکشن 2013ء کے منصفانہ ہونے پر اس قدر شدید اصرار کرتے ہیں؟ مبصرین کی اکثریت یقین رکھتی ہے کہ 9 مئی کو 92 لاکھ اضافی بیلٹ پیپر چھاپے گئے۔ اس الزام کی تو خود وفاقی حکومت نے بھی تردید نہیں کی کہ آخری دن 93 نشستوں پر پولنگ سکیم بدل گئی‘ یعنی بہت سے پولنگ سٹیشن تبدیل کر دیئے گئے۔ اپوزیشن پارٹیوں کو اس تبدیلی کا قطعاً کوئی علم نہ تھا۔ 
وزیراعظم نے سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل عدالتی کمیشن کے قیام کا اعلان کیا ہے مگر وہ بروئے کار آتا دکھائی نہیں دیتا۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کامران مرتضیٰ‘ جسٹس طارق محمود اور اے کے ڈوگر سمیت ممتاز ترین قانون دانوں نے کمیشن کے تصور کو مسترد کردیا ہے۔ کسی ایک بھی قابل ذکر وکیل نے اس کی تائید نہیں کی۔ ان سب کا استدلال ایک ہے۔ کمیشن اگر قائم بھی کردیا گیا تو اس کے ارکان متنازع ہو جائیں گے۔ وہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے مقرر کردہ ہوں گے یا جسٹس رمدے کے رفیق۔ ہرگز وہ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوگا۔ 
پوری طرح واضح ہے کہ شریف حکومت اب ہموار طریقے سے کام نہیں کر سکتی۔ انتخابی دھاندلی سے زیادہ اس کا تعلق ان حربوں سے ہے‘ جو احتجاج روکنے کے لیے اختیار کیے گئے۔ میڈیا اور سول سوسائٹی سمیت‘ تمام فعال طبقات میں علامہ طاہرالقادری کے لیے ہرگز کوئی تائید نہیں پائی جاتی۔ اگر ان کے خلاف 17 جون 
کو اقدام نہ کیا جاتا تو وہ دو تین بڑے جلسے کرنے یا جلوس نکالنے کے سوا کوئی کارنامہ انجام نہ دے سکتے۔ آج تک اس امر کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی کہ ان کے گھر اور یونیورسٹی کے سامنے قائم کی گئی حفاظتی رکاوٹیں دور کرنے کا خبط حکومت پنجاب پر کیوں سوار ہوا تھا۔ پولیس کو اگر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو وہ پلٹ کیوں نہ آئی اور متبادل حکمت عملی کیوں اختیار نہ کی گئی۔ 85 آدمیوں پر براہ راست گولی کیوں چلائی گئی‘ جن میں سے 14 موت کی آغوش میں جا سوئے۔ اس قدر بہیمانہ واقعات کے بعد‘ جب کہ وزیراعلیٰ شہباز شریف ایک مرحلے پر مستعفی ہونے کے بارے میں سوچتے رہے‘ اسی پالیسی کا تسلسل کیوں برقرار ہے؟ علامہ صاحب کے مریدوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ چھ سات لاکھ ہوگی۔ آصف زرداری کے عہدِ اقتدار میں بھی انہوں نے مہم جوئی کی کوشش کی تھی۔ نتیجہ کیا نکلا تھا۔ الیکشن کے بائیکاٹ کی اپیل عالی جناب نے فرمائی تو یہ ہوا کہ 1970ء کے بعد ملک کی تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے۔ اگر آج طاہرالقادری ایک بڑا مسئلہ بن گئے ہیں تو خود حکومت کے سوا کون اس کا ذمہ دار ہے؟ پلڈاٹ کے تازہ ترین سروے کو اگر درست مان لیا جائے تو عمران خان اور نواز شریف کی مقبولیت میں صرف ایک فیصد کا فرق ہے۔ 52 اور 53فیصد۔ ظاہر ہے کہ یہ سروے کئی ہفتے قبل ہوا۔ اب تک یہ فرق یقینا مٹ چکا ہوگا کہ عمران خان یلغار کر رہے ہیں اور نوازشریف دفاعی پوزیشن میں۔ یہی صورت حال برقرار رہی تو عمران خان کی حمایت بڑھتی چلی جائے گی۔ بجلی‘ گرانی اور بے 
روزگاری کے علاوہ کنٹینروں کے مارے شہریوں میں انتقام کا جذبہ بڑھتا چلا جائے گا۔ ہجوم جب اپنی محرومیوں کے مداوے کی کوئی صورت نہیں پاتا تو خوش حال اور طاقتور طبقات سے بدلہ چکانے کی آرزو پالتا ہے۔ فرانس سے لے کر‘ روس‘ چین اور ایران کے انقلابات کی بنیاد یہی ایک تھی۔ پاکستان میں جب کبھی احتجاجی تحریکوں کے نتیجے میں کوئی حکومت رخصت ہوئی تو اس کے پیچھے یہی نفسیات کارفرما تھی۔ 
افسوس کہ وزیراعظم اور ان کے رفقا نے اس پہلو پر غور کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ہر ہوش مند آدمی کی آرزو یہی تھی کہ ادھورا سا جو نظام بروئے کار آیا ہے‘ وہ برقرار رہے۔ دنیا بھر میں جمہوری سیاست کی بلوغت کا یہی انداز ہوتا ہے۔ آخرکار کبھی کشتی کنارے جا لگے گی۔ وزیراعظم نے مگر یکسر بھلا دیا کہ ایک نام نہاد جمہوری نظام میں بھی اپوزیشن کو ایک حد تک ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے۔ عوام کی بہبود کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑتا ہے۔ 
منگل کی شام ان کی تقریر‘ غور و فکر کرنے والے ہر پاکستانی کے لیے شرمندگی لے کر آئی۔ ترقی کے کیسے کیسے بلند بانگ دعوے انہوں نے کیے ہیں۔ آدمی کی روح چیخ اٹھتی ہے‘ کون سی ترقی؟ سعودی عرب کی خیرات سے ڈالر کی قیمت میں کمی؟ لاہور‘ ملتان اور راولپنڈی کی میٹرو بس‘ جن سے فقط 5 لاکھ شہریوں کو فائدہ پہنچے گا اور ریاست کو کم از کم دو ارب روپے سالانہ ان پہ خرچ کرنا ہوں گے؟ بجلی کے وہ منصوبے‘ جو ابھی صرف کاغذوں پہ لکھے ہیں اور جیسا کہ شہباز شریف نے کہا: ہنگامہ آرائی میں ڈوب سکتے ہیں۔ عام شرح سے دو گنا تین گنا قیمت پر لیے گئے قرض سے جمع کیے جانے والے زرمبادلہ کے ذخائر؟ 
خطرناک صرف یہ نہیں کہ حکومت عدم استحکام کا شکار ہے اور منہدم ہو سکتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ المناک بات یہ ہے کہ موجودہ صورتحال میں اپوزیشن بھی کوئی مضبوط حکومت قائم نہیں کر سکتی۔ عمران خان فقط دھاندلی کی وجہ سے نہیں ہارے۔ پنکچر اگر نہ بھی لگائے جاتے تو نون لیگ کی نشستیں ان سے زیادہ ہوتیں۔ وہ اس لیے تباہ کن ناکامی سے دوچار ہوئے کہ ایک پورا برس انہوں نے پارٹی کا الیکشن کرانے میں ضائع کردیا۔ ایسے الیکشن جن میں بدترین لوگ منتخب ہوئے۔ پارٹی ٹکٹ تاخیر سے انہوں نے جاری کیے اور اکثر نامعقول ترین لوگوں کو۔ این اے 171 میں راجہ محبوب اختر‘ آزاد امیدوار ہونے کے باوجود پچھلی بار فقط تین سو ووٹوں سے ہارے تھے۔ شاہ محمود کی سفارش پر اب کی بار بوسکی کے ایک کرتے کو ٹکٹ دیا جو ایک چوتھائی ووٹ بھی نہ لے سکا۔ عہدیدار وہی ہیں‘ نظام کار بھی وہی۔ ظاہر ہے کہ اب کی بار بھی شاہ محمود قسم کے لوگ ہی ٹکٹ بانٹیں گے۔ سپریم کورٹ سے حکم صادر ہونے کے باوجود سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ یقینی نہ بنائے جا سکے۔ اگر وہ عدالت میں چلے جاتے اور فقط ڈاک سے رائے دہی کا حق منوا لیتے؟ اس پر طرہ یہ کہ خود کپتان کے بقول 80 فیصد سٹیشنوں پر ان کے پولنگ ایجنٹ ہی موجود نہ تھے۔ کراچی میں اگر وہ ایسا کر سکتے اور یہ مزاحمت کرنے والے ہوتے تو کم از کم چار نشستیں وہ جیت لیتے۔ اس شہر میں ان کا ایک ایسا امیدوار بھی تھا جو ساٹھ ہزار روپے لے کر مخالف کے حق میں بیٹھ گیا۔ کیا ان حماقتوں کے ذمہ دار بھی نوازشریف تھے؟ کیا اب تک ان کا مداوا کرنے کی کوئی تدبیر کی گئی۔ 
ایک عام شہری کو رزق چاہیے اور تحفظ۔ سیاسی استحکام ہی اس کا ضامن ہوتا ہے‘ وگرنہ پولیس اور افسر شاہی کے کل پرزے بیکار ہو جاتے ہیں۔ بالآخر مکمل طور پر غیر موثر۔ ایسی ہی طوفانی صورتِ حال عراق‘ لیبیا اور شام ایسے حالات کو جنم دیتی ہے۔ دوسرا متبادل وہ ہے‘ جس کا ان دنوں بہت چرچا ہے اور جس کے ذکر سے کوفت کے سوا کچھ حاصل نہیں۔ 
اپوزیشن اور حکومت میں اعتماد کا یکسر خاتمہ ہو چکا وگرنہ سراج الحق کی تجاویز قابلِ عمل تھیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ وزیراعظم اب خود پہل کریں اور نئے الیکشن کے امکان کو تسلیم کر لیں؟ ٹیکنوکریٹس کی حکومت اگر قائم ہوئی تو عمران خان کے دو تین برس ہی ضائع ہوں گے۔ شریف خاندان ممکن ہے کہ سب کچھ کھو بیٹھے۔ ایک تجویز یہ ہو سکتی ہے۔ ثالثوں کے ذریعے اگر عمران خان سے تعاون کی ضمانت لی جا سکے تو وزیراعظم کو ایک سے ڈیڑھ سال کے اندر الیکشن کا اعلان کر دینا چاہیے۔ کم از کم فساد کا خاتمہ ہو جائے گا اور مستقبل کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔
امید کچھ زیادہ نہیں مگر شاید کوئی غور کرے۔ شاید کسی کو سوجھ جائے کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کیا کرتا۔ جو اپنے فیصلے خود صادر نہیں کرتے‘ ان کے لیے زمانہ اپنا فرمان خود لکھتا ہے‘ آہنی ہاتھ سے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved