عمران خان نے اپنے 14اگست کے مارچ کا مقصد ''آزادی‘‘ کا حصول قرار دیا ہے۔ گویا دائیں بازو کے اس ''محب وطن‘‘ سیاست دان نے بالواسطہ طور پر اعتراف کیا ہے کہ اس ملک کو ابھی تک آزادی نصیب ہی نہیں ہوئی۔
تاریخ کے بہت سے طالبِ علموں کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ بٹوارے کے المیے میں سے گزرے بغیر اس اذیت کو محسوس نہیں کیا جا سکتا۔ حکمران اپنی رعایا کو چند سالوں کے وقفوں کے بعد بار بار اس انسانی المیے کو محسوس کرنے کا موقع فراہم کرتے رہتے ہیں۔ وزیرستان سے ہجرت کرکے کسمپرسی کی حالت میں بنوں یا ڈیرہ اسماعیل خان پہنچنے والے ہزاروں گھرانوں کی حالتِ زار کو دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم گزشتہ 67 سال سے ایک ہی چوراہے پر کھڑے ہیں۔ سیلاب، زلزلوں اور آپریشنوں میں بے گھری اور جلا وطنی کاٹنے والے لاکھوں نفوس کے لیے بھلا آزادی کا کیا مفہوم ہو سکتا ہے؟ دس لاکھ سے زائد لوگ اس وقت بھی خیرات کے منتظر ہیں۔ہاں 'مخیر‘ خواتین و حضرات کو سرِ عام اپنی سخاوت اور دریا دلی کا تماشا کرکے آقائیت اور برتری کا تفاخر بٹورنے کی بھر پور آزادی حاصل ہے اور کردار کی اس عظمت کے طفیل وہ مزید 'مخیر‘ ہونے کے لیے اس 'وطن ِ عزیز‘ کے تمام تر ذرائع بغیر کسی قانونی اور اخلاقی قدغن کے استعمال کرنے کے لیے مکمل طور پر آزاد ہیں!
لیکن اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ ان مخیر صاحبان کے لیے صرف سیلابوں ،زلزلوں یا آپریشنوں میں ہی دادطلبی کے محدود مواقع دستیاب ہیں۔ یہاں تو بے یارو مددگار لوگوں کا انبوہِ بے پناہ ہر شاہراہ اور ہر کونے کھدرے میں بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔اسی لیے پاکستان این جی اوز کے لیے بہترین تجربہ گاہ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔یہاں بیچنے کے لیے بھوک ، بیروزگاری، جنسی استحصال، جہالت، بیماری اور لاعلاجی سمیت ہر طرح کی اجناس کی فراوانی ہے۔سوشل اور فزیکل انفراسٹرکچر کی حالتِ زار سے یہ اندازہ لگانا بھی مشکل ہو چلا ہے کہ اس دشت میںواقعی کبھی کوئی شہر بھی ہوا کرتا تھا۔مملکتِ خداداد میں ابھی حال ہی میں تھر کے علاقے میں 700 (سرکاری اعدادوشمار)سے زائد انسان بھوک کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار گئے۔3 کروڑ 90 لاکھ سے زائد انسانوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔نام نہاد آزادی کے وقت 5000 کیوبک فی کس پانی میسر تھا۔آج 2014ء میں یہ کم ہو کر صرف 1500 کیوبک فی کس رہ گیا ہے۔8 کروڑ سے زیادہ لوگوں کو 24 گھنٹوں میں بمشکل ایک دفعہ کھانا نصیب ہوتا ہے۔4 کروڑ سے زائد لوگوں کو بیت الخلا کی بنیادی ضرورت کے لیے پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ان کو کھلے آسمان اور اس مقدس دھرتی سے فیضیاب ہونے کی مکمل آزادی حاصل ہے!
62فیصد سے زائد دیہی آبادی کو بنیادی ضروریات کے لیے ایڑیاں رگڑنی پڑتی ہیں۔صرف سینی ٹیشن کی خستہ حالت کی وجہ سے ملک کو سالانہ 5.7 ارب امریکی ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔5 سال سے کم عمر کے ہر 1000 بچوں میں سے 99 زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔سالانہ 5 لاکھ کے لگ بھگ خواتین زچگی کے دوران مر جاتی ہیں۔80 فیصد سے زائد آبادی غیر سائنسی علاج کراتی ہے۔ایک کروڑ تیس لاکھ لوگ ہیپاٹائٹس جیسی مہلک بیماری میںمبتلا ہیں۔تعلیمی سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے پاکستان 221 ممالک میں سے 180 ویں نمبر پر ہے۔ 40 فیصد سے زائد بچے سکول ہی نہیں جا سکتے۔یونیسکو کی رپورٹ کے مطابق صرف 3 فیصد ہی کالج تک پہنچ پاتے ہیں اور ان میں سے صرف ایک فیصد گریجوایشن کرنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔لیکن اس کے باوجود حکمران انتہائی ڈھٹائی سے یہ واویلا کرنے پر مصر ہیں کہ 'ہم زندہ قوم ہیں‘ اور ترقی کی طرف سفر تیزتر ہوتا جا رہا ہے۔
پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد Neo-colonialism نظام کو متعارف کروانا سرمایہ دارانہ نظام کے اپنے معاشی اور سیاسی ارتقا کا ناگزیر مرحلہ تھا ۔یہ لولی لنگڑی آزادیاں محنت کش طبقے کی تحریک کے خوف کے ساتھ ساتھ اسی سامراجی پالیسی کا نتیجہ تھیں تاکہ براہِ راست فوجی قبضے کے ذریعے مہنگی لوٹ مار کے برعکس مقامی گماشتہ حکمرانوں کی ''سستی خدمات‘‘ حاصل کی جائیں۔سامراجیوں نے 200 سال کے براہِ راست قبضے سے اتنا مال نہیں بٹورا تھا جتنا گزشتہ 67 سالوں کی اس خیراتی آزادی کے ذریعے حاصل کیا گیا ہے۔اس کی سب سے بہترین اور حالیہ مثال آئی پی پیز سے لی جا سکتی ہے جو 20 سال کے اندر محض 5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے بدلے 35 ارب ڈالر سے زائد کا سرمایہ بیرونی بینکوں میں منتقل کر چکی ہیں جبکہ لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ جوں کا توں ہے بلکہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔اسی طرح معدنیات اور کارپوریٹ فارمنگ کے شعبے میں علاقائی اور عالمی قوتوں کی لوٹ مار کی شرح دنیا میں شاید سب سے زیادہ ہے۔اور یہی نہیں کہ اس لوٹ مار کے ذریعے ملکی وسائل کا ضیاع معمول بن چکا ہے بلکہ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ اس لوٹ مار میں ملوث مختلف سامراجی قوتوں کی آپسی لڑائیوں اور تضادات کی وجہ سے خانہ جنگیاں اور انتشار ملکی سیاست کا معمول بنتا جا رہا ہے جس میں بے گناہ اور معصوم ہزاروں لوگوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے۔یہ تو سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی خاصیت ہے کہ ہر چیز کی کوئی قیمت ضرور ادا کرنی ہوتی ہے۔ یہ انتشار، بھوک، بیماری، قتل و غارت اور اذیتیں سب اس آزادی کے دام ہی تو ہیں جو اب تیسری کے بعد چوتھی نسل کو بھی چکانے پڑ رہے ہیں۔
پاکستانی حکمران طبقہ بھی تاریخی نااہلی اور تاخیرزدگی کی وجہ سے قومی ریاست کی تشکیل کا کوئی بھی فریضہ پورا کرنے سے قاصر تھا۔قومی سوال اور لسانی تضادات حل ہونے کی بجائے بھڑکتے ہی جارہے ہیں۔جاگیر دار جو تاریخی طور پر ابھرتی ہوئی بورژوازی کے رقیب ہوا کرتے تھے انہیں بہترین حبیب اور رفیق کا درجہ دے دیا گیا ۔پارلیمان کو جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے مشترکہ باورچی خانے کے طور پر پروان چڑھایا گیا۔یوں ریاست کے مکمل طور پر عدم توازن اور ہیجان کی وجہ سے ابھرنے والے ثالث کے خلا کو پر کرنے کے لیے ریاستی مشینری اس حد تک متحرک ہوئی کہ وہ سیاست اور معیشت کی نکیل کو کافی حد تک سنبھالنے میں کامیاب ہو گئی۔اس بہتی گنگا میں عدلیہ ، سول بیوروکریسی اور عسکری اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام ریاستی ادارے آج تک اشنان کر رہے ہیں۔
سرکاری نصابوں ،اخلاقیات، قوانین اور میڈیا پر جس ''قومی سلامتی‘‘ سلامتی کا پرچار کیا جاتا ہے وہ دراصل حکمران طبقے اور اس کے ریاستی اور سیاسی نمائندگان کی سلامتی ہوتی ہے۔مبلغین و ناصحین ہمہ وقت عوام کوجس 'ملکی ترقی‘ کے لیے دن رات محنت کرنے کا درس دے رہے ہوتے ہیں وہ بھی در حقیقت انہی بدکاروں کی ترقی ہی تو ہے۔ اور جب ملک 'خطرناک دور‘ سے گزر رہا ہوتا ہے تو اسی بدکردار ملغوبے کے لیے قربانیاں دینے کی تلقین کی جا رہی ہوتی ہے۔اس ثقافتی طور پر پسماندہ حکمران طبقے نے جذبہ حب الوطنی کو بھی باقی تمام جذبوں اور انسانی آدرشوں کی طرح منڈی کے نیلام گھر میں رکھ چھوڑا ہے۔
حکمران طبقے کے اس ملغوبے کے یک جنس نہ ہونے کی وجہ سے اور نظام میں مزید رتی بھر ترقی دے سکنے کی نا اہلیت کے باعث ان کے درمیان بھی شدید تضادات موجود ہیں ۔یہ تضادات مختلف ریاستی اداروں کے درمیان اور پھر ریاستی اداروں کے اندر شخصی اور گروہی چپقلشوں کی شکل میں منعکس ہوتے رہتے ہیں۔ آج کل یہ کھینچا تانی عروج پر ہے۔جوں جوں معیشت کے زوال کے باعث عوامی لاوے کی حدت کا احساس بڑھتا چلا جاتا ہے تو طاقت کے ایوانوں میں یہ رسہ کشی بھی شدت اختیار کرتی چلی جاتی ہے۔بڑے بڑے اور تازہ دم سیاسی کارٹونوں اور مداریوں کو سٹیج پر اتارا جاتا ہے ۔ضرورت پڑنے پر یا اس ٹوپی ڈرامے کے قدرے بے قابو ہو جانے کے باعث سرمائے کی دیوی کو خوش کرنے کے لیے حکمران طبقے کے کسی فرد کی بھی بلی چڑھانی پڑ جاتی ہے۔بعض اوقات اس کھیل میں حکومتی اور ریاستی ذمہ داریوں پر براجمان چہروں کی تبدیلیاں بھی ناگزیر ہو جاتی ہیں۔لیکن سرمایہ دارانہ نظام کے دوام پر ریاست اور حکمران سیاست کے تمام دھڑوں میں مکمل ''اتفاق اور اتحاد‘‘ موجود ہے۔
سامراج کے ''نصب کردہ‘‘ مقامی حکمران اپنی لوٹ مار، استحصال، عیاشیوں اور مکاریوں میں کل بھی ''آزاد‘‘ تھے، آج بھی ہیں۔ عوام کل بھی برباد تھے، آج بھی ہیں۔لیکن آنے والے کل میں اس بربادی اور ''آزادی‘‘ کے درمیان ایک انقلابی جنگ ناگزیر ہوچکی ہے۔ فیض نے اگر اس آزادی کو شب گزیدہ سحر (اندھرے کی ڈسی ہوئی صبح) قرار دیا تھا تو استاد دامن کے بقول:
برباد ایہناں آزادیاں توں
ہوئے تسی وی او، ہوئے اسی وی آں
اکھیاں دی لالی پئی دسدی اے
روئے تسی وی او، روئے اسی وی آں