تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     14-08-2014

بغاوت کی روایت اور اس کا انجام

جاوید ہاشمی کا کیا معاملہ ہے؟ ایک دوست نے اسلام آباد سے فون کرکے سوال کیا۔ میں نے کہا جاوید ہاشمی باغی آدمی ہے۔ طلبہ سیاست سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا ہے۔ سیاست کے سارے اتار چڑھائو اور دائو پیچ سے واقف ہے اور ان محدودے چند سیاستدانوں میں سے ہے جو اس گئے گزرے دورمیں بھی کچھ نہ کچھ سیاسی اور جمہوری اقدار پر یقینی رکھتے ہیں۔ اسے تم پرفیکٹ انسان یا سیاستدان تو ہرگز نہیں کہہ سکتے مگر بقول فیض:۔
ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
اب شہر ترے میں کوئی ہم سا بھی کہاں ہے
وہ اس دور سیاست میں جی رہا ہے۔ جہاں اب وعدے، قسمیں، دعوے، معاہدے اور حلف تک کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ اس چالو دور میں بھی وہ تھوڑی بہت قدروں کا امین ہے۔ وہ قرون اولیٰ کا مسلمان یا سو فیصد پکا اصولی سیاستدان نہ سہی مگر غنیمت ہے اور اس سیاسی وراثت کا گزارے لائق امین ہے جس کا ذکر آنے والی نسلیں شاید کتابوں میں پڑھیں گی اور قصوں میں سنیں گی۔ آپ اسے آئیڈیل نہیں‘ بس غنیمت سمجھیں۔ مگر یہ بات طے ہے کہ وہ سیاستدانوں کی موجودہ فوج ظفر موج میں ایک مختلف آدمی ہے ۔ ختم ہوتی اقدار کی کچھ نشانیوں کے ساتھ۔
جب وہ مسلم لیگ میں تھا اور مسلم لیگ کے رویے پر شاکی تھا تو میں سمجھتا ہوں وہ حق پر تھا۔ اس نے میاں صاحبان کے پاکستان سے بوریا بستر سمیٹ کر بغیر اطلاع بھاگ جانے پر مسلم لیگ ن کو اس طرح سنبھالا کہ کل اٹھارہ رکنی اپوزیشن کا سربراہ تھا۔ (ممکن ہے دوچار ارکان اسمبلی کا فرق ہو اب پوری طرح یاد نہیں مگر میرا خیال ہے کہ اٹھارہ ارکان اسمبلی تھے) بعد میں اس سے بھی دوچار مزیدکم ہوگئے۔ احسن اقبال فرمائش کرکے اور فوٹو سیشن کروا کر اندر چلے گئے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ چودھری نثار علی کا تب بھی اندرخانے فوج سے ہنی مون چل رہا تھا۔ وہ کچھ عرصہ گھر میں اس طرح نظر بند رہے کہ گھر سے باہر بھی لوگوں نے انہیں دیکھا۔ ممکن ہے ان کے پاس سلیمانی ٹوپی ہو۔ باقی عرصہ انہوں نے طبی وجوہ کی بنا پر ایئرکنڈیشنڈ ہسپتال کے کمرے میں گزار دیا۔ اسمبلی میں نیم مردہ اپوزیشن کے گھوڑے میں جاوید ہاشمی جان ڈالتا رہا اور بقول شخصے اس نیم مردہ گھوڑے میں وہ اپنی جان نکال کر ڈالتا رہا۔ اس جدوجہد سے جو عرصہ باقی بچا وہ جیل میں گزر گیا اور جیل میں بھی ایسے کہ تشدد بھی جھیلا اور سختیاں بھی برداشت کیں۔
پھرمیاں صاحبان واپس آ گئے۔ پیپلزپارٹی سے مشترکہ حکومت کا معاملہ طے پا گیا۔ سینئر وزیر کی لاٹری پھر چودھری نثار علی کے نام نکلی۔ کچھ عرصے بعد یہ بیل منڈھے نہ چڑھی تو مسلم لیگ حکومت سے نکل آئی۔ اب معاملہ اپوزیشن لیڈر کا آن پڑا۔ قرعہ فال پھر چودھری نثار علی خان کے نام نکلا اور تگڑی اپوزیشن کی لیڈری کیلئے میاں صاحب نے ان کا انتخاب کرلیا۔ پھر پی اے سی کی چیئرمینی کا معاملہ تھا۔ سو وہ بھی بحیثیت اپوزیشن لیڈر ان کی جھولی میں آن پڑا۔ یعنی دکھ تو بی فاختہ نے جھیلے اور انڈے کھانے کیلئے کوے آ گئے۔ رہی سہی کسر میاں صاحبان کے اردگرد موجود دو چار لوگوں نے نکال دی۔ جاوید ہاشمی کو دوچار مرتبہ پارٹی میں بے عزت کرنے کی کوشش کی گئی اور یہ کام ان لوگوں سے لیا گیا جن کی کوئی ذاتی حیثیت نہیں تھی۔ میاں صاحب اس سارے تماشے کودیکھتے رہے۔ جاوید ہاشمی کی توہین کرنے والوں کی ذاتی حیثیت ہی اتنی نہ تھی کہ وہ یہ قدم خود سے اٹھا سکتے ۔ انہیں اوپر سے 
آشیرباد حاصل تھی۔ میاں صاحبان جاوید ہاشمی کو ان کی ''اوقات‘‘ میں رکھنا چاہتے تھے۔ مقدر کے سکندر میاں نواز شریف کو یہ بات ہرگز قابل قبول نہ تھی کہ کوئی سیلف میڈ سیاستدان پارٹی کے اندر کوئی ذاتی حیثیت بناسکے۔ یہ بھی میاں صاحب کے اندر کا خوف تھا۔ وگرنہ ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ مسلم لیگ نہ صرف یہ کہ میاں صاحب کی گھر کی اور ذاتی پارٹی ہے بلکہ حقیقی طور پر اور کوئی شخص پارٹی کے اندرمیاں نواز شریف کیلئے خطرہ بن ہی نہیں سکتا کہ اس پارٹی کا سارا ووٹ بینک میاں صاحب کا ووٹ بینک ہے اور پارٹی میں اور کسی کیلئے کوئی خطرہ ہو تو ہو میاں نواز شریف کیلئے کوئی بھی شخص خطرہ نہیں بن سکتا۔ حتیٰ کہ اگر میاں شہباز شریف بھی چاہیں(جس کا امکان صفر ہے) تو وہ بھی میاں صاحب کی زندگی میں ان کا متبادل نہیں بن سکتے۔ مگر کاغذی سیاستدانوں کے اپنے اندر کے خوف انہیں ڈرائے رکھتے ہیں اور یہی میاں نواز شریف کے ساتھ ہوا۔ اونٹ پر آخری تنکا خواجہ آصف ثابت ہوا۔ جاوید ہاشمی کو خواجہ آصف نے برا بھلا کہا اور میاں صاحب نے ''گونگلوئوں‘‘ سے مٹی جھاڑنے کے علاوہ اور کچھ نہ کیا۔ یہ مرد قلندر بالآخر پارٹی چھوڑ گیا۔ 
مسلم لیگ ن چھوڑنے سے کچھ عرصہ قبل میں نے اسے کہا کہ وہ ازخود پارٹی نہ چھوڑے بلکہ پارٹی کے اندر ''باغی‘‘ کا کردار 
سرانجام دیتا رہے۔ حتیٰ کہ اسے نکال دیا جائے۔ تب اسے ذہنی دبائو اور مسلسل تنائو کے باعث ( یہ میرا خیال نہیں یقین ہے) فالج ہوگیا۔ جزوی صحت مندی کے بعد اس کے اعصاب اب شاید مزید دبائو برداشت کے قابل نہ تھے سو وہ مسلم لیگ چھوڑ کر تحریک انصاف میں آ گیا۔ مسلم لیگ ن کے ملتان میں موجودہ ''بچونگڑوں‘‘ نے اس کے پتلے بنا کرجوتوں کے ہار پہنائے۔ کالم لکھے، گالیاں دیں اور جی بھر کے بے عزت کیا۔ یہ کام ان لوگوں نے کیا جن کی اپنی رتی برابر عزت نہیں تھی۔ پھر وہ تحریک انصاف میں آیا تو ملتان سے ہی تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے ایک لیڈر نے جو جاوید ہاشمی کے دروازے پر تابعداروں میں کھڑا ہوتا تھا (جب دونوں مسلم لیگ ن میں تھے) فون پر ایس ایم ایس کے ذریعے غلیظ قسم کی مہم چلائی مگر بات آئی گئی ہوگئی۔
میاں نواز شریف لیڈر تو بہت بڑے کہلاتے ہیں مگر دل کی وسعت؟ بلال یاسین (ایم این اے) کے‘ جو میاں نواز شریف کی اہلیہ کے قریبی عزیز ہیں‘ والد یاسین پہلوان کا انتقال ہوا تو جاوید ہاشمی تعزیت کیلئے لاہور گئے۔ وہاں میاں نواز شریف بھی موجود تھے۔ جاوید ہاشمی نے میاں صاحب سے ہاتھ ملانے کیلئے آگے بڑھایا تو میاں صاحب نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ میاں شہباز شریف تو سرے سے کلام کرنے کے ہی روادار نہ تھے۔ جولائی میں اسمبلی کا بجٹ سیشن ہوا تو اچانک میاں صاحب کے دل میں جاویدہاشمی کی محبت جاگ اٹھی اور جاوید ہاشمی سے مسکرا کر ملے۔ حتیٰ کہ میاں شہباز بھی کئی بار مسکرا کر ملے۔ جب میاں شہباز شریف ملتان آئے (یہ تقریباً تین ساڑھے تین ماہ پرانی بات ہے) تو جاوید ہاشمی کے گھر میپکو والوں نے ایک بڑا جنریٹر لگانے کی اجازت مانگی۔ گمان غالب تھا کہ میاں شہباز شریف جاوید ہاشمی کے گھر آنا چاہتے تھے۔ مگر جاوید ہاشمی کے گھر والوں نے انکار کردیا اور جاوید ہاشمی اسلام آباد سے ملتان ہی نہ آیا۔
اب کیا ہوا ہے؟شاہ محمود اور جہانگیر ترین اینڈ کمپنی کو بڑی جلدی ہے۔ وہ جمہوری یا غیر جمہوری‘ آئینی یا غیر آئینی‘ کسی بھی طرح سے اقتدار میںآنا چاہتے ہیں۔ آئین میں ٹیکنوکریٹ حکومت کا کوئی تصور اور نہ ہی ذکر۔ سو لوگ ملتان سے اسلام آباد لانگ مارچ پر جا رہے ہیں اور جاوید ہاشمی اسلام آباد سے ملتان آ گئے۔ ایک مسلم لیگی مجھ سے پوچھنے لگا کیا ہمیںجاوید ہاشمی کو مسلم لیگ (ن) میں لینا چاہیے؟ میں نے کہا پہلی بات تو یہ ہے کہ میاں صاحب نے آپ سے پوچھ کر تو اسے لینا نہیں۔ اگر وہ لینا چاہتے ہیں تو آپ مقامی لوگ بے شک''ٹل‘‘ لگائیں میاں صاحب اپنی کریں گے۔ وہ مجھ سے پوچھنے لگا کیا ہمیں جاوید ہاشمی کو واپس لے لینا چاہیے؟ میں نے کہا مجھے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ آپ کو اسے اپنی پارٹی میں واپس لینا چاہیے لیکن میرا خیال ہے کہ اسے واپس نہیں جانا چاہیے۔ میاں نواز شریف کا دل تنگ بھی ہے، منتقم بھی۔ وہ نہ دل سے بات نکال سکتے ہیں اور نہ معاف کرسکتے ہیں۔ جاوید ہاشمی سے میرا رابطہ نہیں ہوا۔ یہ کالم اور اس کی پریس کانفرنس اکٹھے شائع ہونگے۔ چودہ اگست کو کیا ہوگا؟ کسی کو پتہ نہیں۔ جاوید ہاشمی کا مستقبل کیا ہوگا؟ اس کا بھی کچھ پتہ نہیں مگر یہ بات طے ہے کہ ہماری سیاست میں، معاشرے میں اور دھرتی میں۔ باغیوں کو برداشت کرنے کی نہ تو کوئی روایت ہے اور نہ ہی گنجائش۔ یہاں بغاوت کی اول تو کوئی روایت ہی نہیں۔ تاہم باغیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ روایت خاصی مستحکم ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved