تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     14-08-2014

ابوظہبی میں سفارتی مسئلہ

ابوظہبی میں ہمارے سفیر کے بارے میں خبر چھپی ہے‘ جسے پڑھ کر میری طبیعت خاصی مکدر ہوئی۔ خبر یہ ہے کہ عرب امارات میں پاکستانی سفیر آصف درانی کو اسلام آباد واپس بلایا جا رہا ہے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے سفیر درانی کی تعیناتی پچھلے سال مسلم لیگی حکومت کے آنے کے بعد ہوئی تھی۔ ایک انگریزی اخبار میں ایک سینئر صحافی کی سٹوری چھپی ہے کہ سفیر درانی کے رویہ کی وجہ سے عرب امارات کے وزیر خارجہ خوش نہ تھے۔ اسی خبر کے مطابق ابوظہبی کی وزارت خارجہ کے ایک جونیئر افسر نے سفیر کبیر کو دفتر طلب کیا‘ گھنٹہ بھر انتظار کرایا اور ''چارج شیٹ‘‘ ان کے سامنے رکھ دی۔ پھر سفیر صاحب سے کہا گیا کہ وہ تین صفحے پر مشتمل اماراتی دفتر خارجہ کی تیار کردہ دستاویز پر دستخط کردیں اور سفیر محترم نے دستخط کردیے۔ اسی خبر کے مطابق اب سفیر درانی کو واپس آنے پر اپنی حکومت بھی چارج شیٹ کرے گی کہ انہوں نے اس دستاویز پر دستخط کیوں کیے۔ اس کہانی کے لکھنے والے کے بقول‘ سفیر صاحب سے وعدہ لیا گیا کہ وہ آئندہ اپنے پریس بیانات اور ملاقاتوں کو محدود رکھیں گے اور وزراء کو ملنے سے پرہیز کریں گے۔مجھے اس سٹوری میں جھول لگتا ہے کیونکہ سفیر کا کام ہی دوطرفہ تعلقات کا فروغ ہے اور وزراء کو ملے بغیر دوطرفہ تعاون ممکن ہی نہیں۔ اگر یہ سچ ہے کہ درانی صاحب سے اسلام آباد میں بھی باز پُرس ہوگی تو یہ بالکل صحیح اقدام ہوگا۔ اس لیے کہ سفیر ایک مقتدر ریاست کا نمائندہ ہوتا ہے اور اُسے استثنیٰ حاصل ہے۔ میزبان حکومت کا کوئی نمائندہ اُسے دستخط کرنے کا حکم نہیں دے سکتا۔ سفارتی سرگرمیاں ویانا کنونشن کے تابع ہیں۔ دنیا کی کوئی حکومت ویانا کنونشن کو نظرانداز نہیں کر سکتی؛ البتہ مذکورہ اخبار کی رپورٹ کے بعض مندرجات سے مجھے اتفاق نہیں۔ ایک تو یہ کہ سفارت کار کو ہر جگہ جانے کی آزادی ہوتی ہے۔ اب اگر اسلام آباد میں کوئی سفیر یہ کہے کہ میں ایٹمی اثاثوں کے مقامات دیکھنا چاہتا ہوں تو کیا ہم اُسے اجازت دیں گے۔ صحافی نے اس واقعہ کو ''شرمناک‘‘ قرار دیا ہے۔ خبر پڑھ کر دکھ تو مجھے بھی بہت ہوا لیکن میرا خیال ہے کہ صحافی کا کام قارئین تک خبر پہنچانا ہے کسی قسم کا فیصلہ صادر کرنا صحافی کا کام نہیں۔ خاص طور پر جب دو دوست ممالک کے تعلقات کا معاملہ ہو تو بات بہت ہی حساس بن جاتی ہے۔ ہمیں ابھی درانی صاحب کا موقف معلوم نہیں‘ نہ ہی امارات کی حکومت کا سرکاری موقف ہمارے پاس ہے تو ان حالات میں یہ کہنا کہ یہ سارا عمل شرمناک ہے‘ سٹوری لکھنے والے کی جذباتیت اور جلد بازی پر دلالت کرتا ہے۔ 
میں یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ اگر یہ کہانی درست ہے تو اماراتی وزارت خارجہ کا طرز عمل صحیح تھا۔ دوست ممالک کے درمیان یہ کام خاموشی سے کیے جاتے ہیں۔ مکمل طور پر خیال خاطر احباب رکھا جاتا ہے اور بین الاقوامی قوانین کی پاس داری کی جاتی ہے۔ میں نے پاک امارات تعلقات کو وزارت خارجہ کے افسر کی حیثیت سے بھی دیکھا ہے اور عام پاکستانی شہری کی نظر سے بھی۔ اس تعلق میں مجھے بیلنس نظر نہیں آتا اور اس افسوسناک صورت حال کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ 2001ء میں سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد جب ہماری حکومت نے فیصلہ کیا کہ شمسی ایئرفیلڈ امریکنوں سے خالی کرانا ہے تو پتہ چلا کہ یہ تو یو اے ای کی ملکیت ہے اور امریکی حکام نے براہ راست اماراتی حکومت سے لیا تھا۔ کیا مشرف حکومت کو 2001ء میں خیال نہیں آیا کہ امریکی حکومت پاکستان کی اجازت کے بغیر یہ ایئرفیلڈ نہیں لے سکتی لیکن امریکہ کی خوشنودی کے لیے اشاروں کنایوں میں ہاں کی گئی۔ بہرحال یو اے ای حکومت کو بخوبی اندازہ ہو گیا کہ پاکستانی حکمران اپنی زمین پر اقتدار اعلیٰ کا کتنا خیال کرتے ہیں۔ 
غالباً 2001ء کی بات ہے ہماری وزارت خارجہ کی درخواست پر اماراتی حکومت نے فیصلہ کیا کہ وہ اسلام آباد میں ایک شاندار انٹرنیشنل سکول بنائے گی۔ سکول ہماری وزارت خارجہ نے چلانا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ پاکستانی سفارت خانوں سے سفارت کار اور سٹاف کے لوگ اسلام آباد پوسٹ ہوتے ہیں تو بچوں کے داخلے کا بڑا مسئلہ ہوتا ہے لہٰذا ایک سکول ایسا ہونا چاہیے جہاں فارن آفس کے بچوں کو آسانی سے داخلہ مل جائے۔ انٹرنیشنل طرز کا سلیبس ہو۔ اسلام آباد میں مقیم غیر ملکی سفارت کاروں کے بچے بھی وہاں پڑھیں۔ اسلام آباد کے ایچ 8 سیکٹر میں تقریباً آٹھ ایکڑ زمین وزارت خارجہ نے سی ڈی اے سے حاصل کی۔ یو اے ای کی حکومت نے شاندار سکول تعمیر کرایا اور جب وزارت خارجہ کو سکول ٹرانسفر کرنے کا وقت آیا تو پتہ چلا کہ عرب امارات والے خود سکول چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں بلکہ مصمم ارادہ رکھتے ہیں۔ وزارت خارجہ نے شور ضرور مچایا لیکن اسے سکول نہیں ملا۔ وجہ یہ تھی کہ عرب امارات کے اس وقت کے سفیر کی جنرل مشرف تک ڈائریکٹ رسائی تھی۔ جب وزارت خارجہ نے یہ کہا کہ زمین ہماری ہے تو جواب ملا کہ امارات میں کئی پاکستانی سکولوں کو بھی مفت زمین سرکاری طور پر دی گئی ہے۔ اصل وجہ یہ تھی کہ جنرل مشرف کا وزن دوسرے پلڑے میں تھا۔ یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان سے باہر جنرل مشرف لندن میں ہوتے تھے یا دبئی میں۔ میری مراد 2008ء کے بعد کے عرصہ کی ہے۔ 
غالباً 2001ء کی بات ہے۔ عرب امارات کا قومی دن تھا۔ سفیر کے گھر ڈپلومیٹک انکلیو میں تقریباً ایک ہزار لوگوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ دعوت نامہ مجھے بھی ملا۔ وہاں پہنچے تو شمس گیٹ پر گاڑیوں کی سخت سکیورٹی چیکنگ ہو رہی تھی۔ صاف معلوم ہو رہا تھا کہ کوئی بڑا وی آئی پی بطور مہمان خصوصی آ رہا ہے۔ سفارت خانہ کے وسیع و عریض لان میں سینکڑوں مہمان آ چکے تھے۔ تھوڑی دیر بعد‘ لمبی چوڑی سکیورٹی کے ساتھ صدر زرداری تشریف لائے۔ میں نے اپنی 35 سالہ فارن سروس کے عرصہ میں کبھی کسی ملک کے سربراہ کو کسی دوسرے ملک کی نیشنل ڈے دعوت پر آتے نہیں دیکھا۔ مجھے بطور پاکستانی خاصی سبکی محسوس ہوئی لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ زرداری صاحب کے اثاثے یو اے ای میں بھی ہیں۔ آپ کہیں گے کہ پھر کیا ہوا اماراتی حکمرانوں کے محل بھی تو پاکستان میں ہیں تو میرا جواب یہ ہوگا کہ وہ تو ایک دو ہفتے کے لیے شکار کی غرض سے رحیم یار خان آتے ہیں۔ ہر دوسرے روز پاکستان نہیں آتے اور 
آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ ہمارے حکمران انہیں ملنے رحیم یار خان جاتے ہیں وہ اسلام آباد نہیں آتے اس لیے کہ وہ پرائیویٹ دورے کو سرکاری رنگ نہیں دینا چاہتے۔ 
وزیراعظم نوازشریف نے جناب جاوید ملک کو اوورسیز پاکستانیز ٹریڈ اور انوسٹمنٹ کے لیے اپنا سپیشل نمائندہ مقرر کیا ہے۔ موصوف کا رینک سفیر کے برابر ہے۔ گو کہ ان کا مینڈیٹ تمام ملکوں تک ہے لیکن موصوف دبئی میں رہتے ہیں اور ان کی اکثر سرگرمیاں بھی یو اے ای میں ہوتی ہیں۔ ابھی پچھلے ہفتے جاوید ملک صاحب نے دبئی میں پاکستان کلچرل ویک منایا۔ یہ کام سفارت خانہ کو کرانا چاہیے۔ تاثر یہ ملتا ہے کہ ایک ہی ملک میں پاکستان کے دو سفیر ہیں۔ اس سے لگتا ہے کہ خاصا کنفیوژن پھیلا ہے۔ اب یو اے ای والوں کو پتہ ہے کہ جاوید ملک‘ نوازشریف کے معتمد ہیں لہٰذا سفیر آصف درانی کی پوزیشن یقینا خراب ہوئی ہوگی۔ 
آخر میں میرا ایک سوال ہے کہ جنرل مشرف ہوں یا صدر زرداری یا وزیراعظم نوازشریف ہر پاکستانی حکمران اپنے ذاتی معتمد کو ہی کیوں یو اے ای بھیجتا ہے۔ کیا ذاتی مفادات ملکی مفادات سے بالاتر ہیں؟ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جب تک ہمارے حکمرانوں کے اثاثے باہر رہیں گے اور جب تک وہ دبئی میں اپنا ''ریٹائرمنٹ ہوم‘‘ رکھیں گے‘ ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ مجھے یہ بھی علم ہے کہ یو اے ای کی حکومت‘ پاکستان میں کئی اچھے ترقیاتی منصوبوں پر کام کر رہی ہے لیکن یہ موضوع سے ہٹ کر بات ہوگی فی الحال صرف یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی ابوظہبی میں ہمارے سفیر کی بے توقیری ہوئی ہے اور اگر ہوئی ہے تو اس کے ذمہ دار کہیں ہم خود تو نہیں۔ میں کوئی بھی نتیجہ اخذ کرنے سے پہلے مزید حقائق کا کھوج لگائوں گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved