عمران خان کی‘ نواز حکومت کو گرانے کی اعلانیہ مہم ،جسے ہوشیار میڈیا کی غیر معمولی فعالیت قوت بہم پہنچا رہی ہے ،فیصلہ کن موڑ پہ آ پہنچی ہے،جہاں یہ ملکی سیاست پہ ناقابل یقین اثرات ڈال کے قومی مقدر کے دھارے کو نامانوس تغیرات سے دوچار کر سکتی ہے۔ اگرچہ عوامی سوچ کا دھارا حکومتی کارکردگی سے نالاں نہیں ہوا پھر بھی ٹی وی کے ٹاک شوز اور اخبارات کے صفحات پر ابھرنے والے مصنوعی دانش اور محلاتی سازشوں کی نقیب سیاسی اشرافیہ ایک ایسے اضطراب کی طلبگار ہے جو آئینی حکومت کے خاتمہ کا پیغام لا سکے۔ جمہوری حکومتوں میں بار بار تصادم کے جو شعلے اٹھتے ہیں یہ چونکا دینے والے وہ حملے ہیں جو شہریوں کی قومی مسائل سے عمومی لاتعلقی کا شاخسانہ ہوتے ہیں اور اسی نیم خوابی سے فائدہ اٹھا کے کچھ اہل سیاست قومی سلامتی کے تقاضوںکی پروا کئے بغیر ایک جائز جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کے عکسی تاثر کو حقیقت باور کرا لیتے ہیں۔علامہ طاہرالقادری کھلی مبارزت کے ذریعے ریاست کو للکار رہے ہیں مگر سیاسی مصلحتوں نے ریاستی اتھارٹی کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں۔ کچھ قوتیں ہمدردی کے لبادے میںحکمراں گروہ کے یقین کو مضمحل کرنے میں مشغول ہیں۔ لوگوں کی اکثریت ٹیلی ویژن چینلز پہ ابھرنے والی اعصاب شکن کشمکش سے غمزدہ تو ہیں لیکن ان منفی وظائف کے فوری تدارک کی سکت نہیں رکھتے البتہ عوام کے تیور بتاتے ہیں کہ وقت نے کروٹ بدلی تو وہ یہ سوال ضرور پوچھیں گے کہ ہموار جمہوری عمل کے وسیلے استحکام پاتے سیاسی نظام میں رخنہ اندوز ہو کے سسٹم کو ڈی ریل کرنے کوشش کیوں کی گئی؟ یہ حقیقت واضح ہے کہ حکومت اس مصنوعی بحران سے فاتحانہ نکلے یا ڈوب جائے دونوں صورتوں میں بحران پیدا کرنے والی قوتیں خسارے میں رہیں گی۔ ہماری تاریخ میں پہلی بار کسی سیاسی حکومت کو غیر فطری طریقوں سے تحلیل کرنے کی منصوبہ بندی عام شہری کو متاثر نہیں کر سکی اورپارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتیں جمہوریت کے تحفظ پہ متفق ہیں۔ سیاسی فضا لنکا ڈھانے والوں کے مخالف کھڑی ہے۔ اس سے قبل 65 سالوں میں سازشیں کر کے حکومتوں کو گرانے کی مشق کسی نہ کسی طرح رائے عامہ کی حمایت پا لیا کرتی تھی۔ عمران خان اس بار جس مشکوک قضیہ کو لے کے اٹھے ہیں اسے مناسب جواز ملا نہ سیاسی فضا طاہر القادری کی تعلی کے موافق آئی۔ عمران خان کی پریس کانفرنس میں الیکشن دھاندلی کے مبینہ الزامات کا تعلق شریف برادران سے جوڑنے کوشش بارآور ہو سکی نہ عمران کے پیش کردہ دلائل میں کوئی وزن محسوس ہوا۔ عمران کی لامتناہی گفتگو جسے وہ سمیٹنے سے قاصر تھے ان کی ذہنی بے چینی کی عکاسی کر رہی تھی،وہ جلدی میں تھے ،ایک ایسی سرعت جس میں کسی راز کے کھل جانے کا خوف پنہاں تھا،انہوں نے کئی شخصیات پر جارحانہ الزامات تو لگائے مگر وہ ناکافی ثبوتوں کے باعث غیر معتبرنکلے۔ واقعاتی شواہد اور غیر جانبدار ذرائع ان کے موقف کی تصدیق نہیں کرتے۔ اس کے برعکس احسن اقبال اور پرویز رشید کا اعتماد سے لبریز لب و لہجہ اور صحافیوں کے سامنے پیش کردہ مواد زیادہ صائب اور وقیع نظر آیا۔ دونوں وزراء نے صحافیوں کی توجہ ضابطہ اخلاق کی طرف دلاتے ہوئے انہیں نفرت و تشدد پہ اکسانے والا مواد ازخود شائع نہ کرنے کا مشورہ بھی دیا۔ انہوں نے الیکشن کی مانیٹرنگ کرنے والی فافن اور یورپی مبصر ٹیموں کی تجزیاتی رپوٹوں کے حوالے دینے کے علاوہ الیکشن میں دھاندلی کے ایشو کو عمران کی سوچی سمجھی چال قرار دیا۔ پرویز رشید نے تحریک انصاف کی انتخابی شکست کے اسباب تلاش کرنے والی '' فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی‘‘ کی اس رپوٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ خود ان کی اپنی تشکیل کردہ تحقیقاتی کمیٹی نے حالیہ الیکشن میںعمران پر غیر مستحق افراد پر پارٹی ٹکٹ فروخت کر کے کئی نشستیںگنوانے کی ذمہ داری عائد کی۔ بلاشبہ دنیا بھر کے غیر جانبدار ذرائع نے مئی 2013 کے الیکشن کو پاکستان کی حالیہ تاریخ میں ہوئے تمام انتخابات سے بہتر قرار دیا۔ ان ڈیڑھ سال میں حکمرانوں کی اہلیت پہ انگلی اٹھی نہ کوئی میگا سکینڈل سامنے آیا۔ نا کردہ گناہوں کی پاداش میں گورنمنٹ کا دھڑن تختہ کرنے کی مبینہ مہم نے خاموش اکثریت میں نواز حکومت کے ساتھ ہمدردی کی سطح کو بلند کر دیا ہے۔ اگر مقبول جمہوری حکومت کا غیر آئینی ہتھکنڈوں سے دھڑن تختہ کیا گیا تو اس کا ردعمل حیران کن ہو سکتا ہے جو سیاست کے روایتی تصورات کو بہا لے جائے گا۔ رائے عامہ کی نگاہیں پہلی بار ان محرکات کو بھی ڈھونڈ رہی ہیں جو ہر بار انتشار کی آگ کو بھڑکا کے سیاسی حکومتوں کو موت کے گھاٹ اتار کے جمہوری استحکام کو گزند پہنچانے کا سبب بنتے ہیں۔ اسے خوش قسمتی سے تعبیر کیا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ عمران کی سرگرانی نے سویلین حکومتوں کو گرانے کے آزمودہ طریقوں کی حقیقت عریاں کر کے اجتماعی شعور کو ایک قدم آگے بڑھنے کا موقعہ فراہم کیا۔ حکومت کا تختہ الٹ جائے یا نوازشریف اس بحران سے بچ نکلیں‘ دونوں صورتوں میں قوم 14 اگست کے بعد ایک بہتر مستقبل کی صبح امید دیکھ لے گی۔ قومی سیاسی لیڈر شپ اور اجتماعی دانش کے علاوہ عوام کی اکثریت پہلی بار کسی جمہوری حکومت کے خلاف ہونے والی سازشوں پہ بے چین دکھائی دے رہی ہے۔ یہی اضطراب دراصل جمہوری سسٹم کے دفاع کا سب سے موئثر ہتھیار ہے۔نواز شریف کو قوم سے خطاب میں ان حساس مسائل کی حقیقت پر لب کشائی ضرور کرنا چاہیے تھی لیکن نامعلوم مصلحتوں نے انہیں درخواستوں اور اپیلوں تک محدود رکھا۔ جس دن قومی قیادت نے اپنی جانوں کی پروا کئے بغیر پس پردہ حقائق سے نقاب الٹنے کی ٹھان لی‘ اسی روز قوم کنفیوژن کی دھند سے نکل کے سیاسی قیادت کی پشت پر آ کھڑی ہو گی۔سب جانتے ہیں کہ عمران خان کے مطالبات جتنے بھی صائب ہوں انہیں بنیاد بنا کر منتخب حکومت کو گرانا ہرگز جائز نہیں۔ سرکاری مشینری کو مفلوج کر کے منفی ہتھکنڈوں کے ذریعے حکومتوں کا تختہ الٹنے کی روایت قومی سلامتی کے لئے مہلک ہونے کے علاوہ سیاسی انتشار کی آگ بھڑکانے کا سبب بنے گی جس میں سب جل جائیں گے۔حیرت ہے جو سیاستدان 2013ء کے الیکشن میں مبینہ دھاندلی کو جواز بنا کے عمران خان اور طاہرالقادری کی احتجاجی تحریکوں کو اخلاقی جواز دیتے پھرتے ہیں،وہی 2002ء کے اس الیکشن سے استفادہ کرنے والوں میں سرفہرست تھے جس کی بے ثباتی پر ایک دنیا نوحہ کناں رہی۔ مشرف آمریت نے مقبول سیاسی قیادت کو ملک بدر کرنے کے علاوہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کو ریاستی قوت کے ذریعے کچل کے انتخابی میدان کو اپنی حامی جماعتوں کے لئے خالی کرایا تو متقی لوگوں نے بھی اس بے انصافی سے استفادہ میں عار محسوس نہ کی۔ جب دونوں بڑی سیاسی جماعتوںکے مضبوط امیدواروں کو نیب کے کوڑوں سے ہانک کر ق لیگ ،شیرپاؤ اور ایم ایم اے میں شامل ہونے پر مجبور کیا جا رہا تھا اس وقت اصول پسندوں کے سرخیل زیر لب مسکرا رہے تھے ۔6 اضلاع پر مشتمل اے این پی جیسی علاقائی جماعت کو تقسیم کر کے اجمل خٹک کو ہم نوا بنانے میں شرم محسوس نہ کی گئی۔پیپلز پارٹی اور نواز لیگ جیسی قومی سیاسی جماعتوں کو انتخابی اکھاڑے میں اترنے سے پہلے مرکزی قیادت سے محروم کر کے انہیں ملکی گیر الیکشن مہم چلانے سے روک دیا گیا۔ اس کے برعکس ایک دوسرے کے خون کے پیاسے فرقہ پرست گروہوں اور متحارب مذہبی جماعتوں کو ایم ایم اے کے پلیٹ فارم پر منظم کر کے انہیں ملک بھر میں ملین مارچ، ٹرین مارچ اور سیاسی کاروان چلانے کی کھلی چھٹی ملی رہی۔ جنرل مشرف کی سیاسی بے انصافیوں سے فائدہ اٹھانے والے اہل تقویٰ اور اصول پرست سیاستدان اس ظلم ناروا پہ چپ سادھے رہے۔ 2002ء کے الیکشن میں طاہرالقادری اور عمران کو کامیاب کرا کے جس طرح اسمبلی تک پہنچایا گیا اس کی تفصیل ڈاکٹر شیرافگن کے انتخابی ریفرنس میں موجود ہے۔ چودھریوں کو پنجاب اور ایم ایم اے کو خیبرپختونخوا حکومت پلیٹ میں رکھ کے حوالے کی گئی تو علماء نے مینڈیٹ کی حرمت کو پرکھے بغیر اسے شیر مادر سمجھ کے قبول کر لیا۔ اس وقت سراج الحق بھی پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے خلاف استعمال ہونے والے ریاستی جبر پر تحفظات کا اظہار نہ کر سکے۔