نئے بابائے جمہوریت سراج الحق زور تو بہت لگا رہے ہیں اور ساتھ انتباہ بھی کر رہے ہیں کہ مارچ کرنے والی پارٹیوں نے اگر انتہاپسندانہ رویہ ترک نہ کیا‘ تو ڈبل مارچ ہو سکتا ہے۔ ڈبل مارچ تو آج یعنی 14 اگست کو ہی متوقع ہے۔ حکومت نے خواہ مخواہ‘ دوسرے مارچ میں ٹانگ اڑا کر رکاوٹ ڈال دی ہے۔ میرا اشارہ قادری مارچ کی طرف ہے‘ جسے ابھی تک روکا جا رہا ہے۔ اگر بعدازدوپہر بھی‘کسی وقت ڈاکٹرصاحب‘ اپنا قافلہ لے کر اسلام آباد کی طرف نکل پڑے اور عمران خان پہلے ہی روانہ ہو چکے ہیں‘ اس طرح ڈبل مارچ تو ہو گیا۔ اب دھرنے کی خاص ضرورت نہیں۔ جو ہونا ہے‘ ہو رہے گا۔ لیکن سراج الحق صاحب نے‘ جس ڈبل مارچ کی طرف اشارہ کیا ہے‘ وہ دوسری قسم کا ہے۔ یہ بات بہت سننے میں آ رہی ہے کہ فوج مداخلت کرے گی۔ کیوں نہ جائزہ لے کر دیکھیں کہ فوج کے لئے مداخلت کے حالات پیدا بھی ہوئے ہیں کہ نہیں؟ اور اگر وہ مداخلت کرے گی بھی‘ تو کیا ضروری ہے کہ ٹینکوں کے ساتھ حکومتی مراکز پر حملہ کر دے؟ مداخلت کے اور بھی کئی طریقے ہیں۔ جنرل کیانی نے پیپلزپارٹی کی گزشتہ منتخب حکومت کو‘ اس طرح بے دست و پا کئے رکھا کہ انہیں مداخلت کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ سیاستدان اپنی حکومت کے 5سال پورے ہونے پر بھنگڑے ڈال رہے ہیں ۔ شاید انہیں احساس نہیں کہ فوج کو مداخلت کی ضرورت وہاں پڑتی ہے‘ جہاں اس کی مرضی نہ چلے۔ جو سیاسی حکومت بغیرکسی مزاحمت کے‘ فرمانبرداری کرتی رہے‘ اسے چھیڑنے کی کیا ضرورت ہے؟
اہم بات یہ ہے کہ نوازحکومت کیا ایسے حالات پیدا کر دے گی کہ فوج امور مملکت میں اپنے اثرات بڑھانے کی ضرورت محسوس کرے؟فوج کا اثر ‘ مشرف کے زمانے میں کمزور پڑ گیا تھا۔ لیکن اب وہ قابل ذکر حد تک اسے حاصل کر چکی ہے۔ وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی کر کے‘ عوام کی نظر میں فوج کا وقار بہت بڑھ گیا ہے۔ لیکن یہ آپریشن شروع کرتے وقت‘ فوج نے بڑی احتیاط اور دانشمندی سے کام لیا اور سیاسی حکومت کو کریڈٹ لینے کا موقع نہیں دیا۔ عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ سیاسی حکومت اپنے دائو پر تھی۔ حکمران پارٹی نے انتخابی مہم کے دوران‘ باقاعدہ دہشت گردوں کی کھلی حمایت حاصل کی تھی اور انہوں نے مخالف پارٹیوں کو دھمکی دی تھی کہ اگر ان کے حامی پولنگ والے دن‘ باہر نکلے‘ تو ان کی زندگیاں محفوظ نہیں رہیں گی۔ اس دھمکی کا خاطرخواہ اثر ہوا۔ پیپلزپارٹی‘ اے این پی اور ایم کیو ایم کو نقصان پہنچا اور مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نے فائدہ اٹھایا۔ یہ بات فوج سے پوشیدہ نہیں تھی اور اقتدار میں آنے کے بعد‘جب سیاسی حکومت کو اندازہ ہوا کہ فوج ضرب عضب آپریشن شروع کرنے کے لئے تیار ہے‘ تو وزیراعظم نے فوراً ہی طالبان سے مذاکرات کا اعلان کر دیا۔ یاد رہے‘ ضرب عضب کا منصوبہ‘ ڈیڑھ سال پہلے بنایا جا چکا تھا۔ عملدرآمد شروع کرنے کے لئے مناسب موقع کا انتظار تھا۔ نئی حکومت نے جب بے نتیجہ مذاکرات شروع کئے‘ تو فوج کو آپریشن موخر کرنا پڑا۔ فوج نے ایک معقول عرصے تک‘ مذاکرات کے نتائج کا انتظار کیا۔ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ دہشت گرد کسی بھی طرح ہتھیار پھینکنے پر تیار نہیں ہوں گے۔ البتہ ان سے جہاں تک ہو سکا‘ انہوں نے مذاکرات کی آڑ میں شمالی وزیرستان سے اپنے اثاثوں اور ساتھیوں کو نکال لیا۔ جب پاکستانی عوام‘ مذاکرات کے ڈرامے سے پوری طرح بیزار ہو چکے‘ تو فوج نے رازداری کے ساتھ آپریشن شروع کر دیا۔ دہشت گردوں پر راکٹ اور بم برسنے لگے‘ تو عوام کو اندازہ ہوا کہ فوج نے کتنی مکمل تیاری کے بعد آپریشن کا آغاز کیا تھا؟ حکومتی ماہرین‘ ملٹری آپریشن کے خوف سے کانپ رہے تھے کہ اگر ہماری طرف سے کارروائی ہوئی‘ تو دہشت گرد جوابی حملے کریں گے۔ لیکن فوج نے اپنے طور پر شہری آبادیوں میں چھپے ہوئے‘ دہشت گردوں کو خاموشی سے دبوچ کر ان کا کمانڈ سسٹم توڑپھوڑ دیا تھا۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ دہشت گرد اپنے منصوبوں کے مطابق انتقامی کارروائیاں نہیں کر پائے۔ مگر امکان کو ردنہیں کرنا چاہیے۔ وہ کسی وقت بھی دوبارہ منظم ہو کر‘ ہمارے شہروں میں کارروائیاں شروع کر سکتے ہیں۔ وہ ماضی کی طرح اتنے آزاد نہیں ہوں گے کہ من مانیاں کر سکیں۔ دہشت گردی کے خلاف ہر جنگ طویل ہوتی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردوں کے سب سے بڑے مرکز پر‘ فوج کی باقاعدہ کارروائی تو اب شروع ہوئی ہے‘ جو پوری یکسوئی اور نیک نیتی سے کی جا رہی ہے۔ اس سے پہلے جو فوجی آپریشن کئے گئے‘ وہ منافقانہ تھے۔ مختلف ایجنسیوں کے عام لوگوں کو خوفزدہ کر کے‘ ایسے لوگوں کو ختم یا فرار کرایا جا رہا تھا‘ جو بنیادی طور پر جرائم پیشہ اور جعلی طالبان تھے۔ طالبان کی اصل قوت کو کبھی نہیں چھیڑا گیا۔ خصوصاً ان گروہوں کوجو افغانستان میں سرگرمیاں کر رہے تھے۔ جنرل مشرف اور جنرل کیانی دونوں ہی اپنی طرف سے امریکہ کو بیوقوف بناتے رہے۔ وہ دہشت گردوں کے خاتمے کے لئے‘ امریکہ سے بھاری فنڈز لیتے رہے اور ظاہر کرتے رہے کہ دہشت گردوں کے خلاف شدید جنگ لڑ رہے ہیں اور ان کی طرف سے بہت زیادہ مزاحمت ہو رہی ہے۔ ان میں سے ایک جنرل کی وائرلیس ٹاک تو امریکیوں نے سن لی تھی۔ جس میں وہ گرائونڈ کمانڈر سے کہہ رہے تھے ''حقانی گروپ کو نقصان مت پہنچانا۔ یہ ہمارے اثاثے ہیں۔‘‘ افغانستان کے اندر اگر امریکی افواج پر دہشت گردوں کے حملوں میں کمی آتی‘ تو ہماری طرف سے حقانی گروپ یا کسی دوسرے گروہ کے لوگوں کو افغانستان میں بھیج دیا جاتا تاکہ امریکہ کے فوجیوں کو نقصان ہو اور امریکی گھبرا کر کولیشن سپورٹ فنڈ میں مزید رقوم ادا کریں۔ آخری تین سالوں میں امریکی ان چالاکیوں کو اچھی طرح جان چکے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے ہاتھ کھینچ لیا اور دوست بن کر‘ دغا دینے کی چند افراد کی پالیسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ امریکہ پاکستان سے سردمہری کا سلوک کرنے لگا۔ یہ سلوک ابھی تک جاری ہے۔ باہمی اعتماد کے جس رشتے میں دراڑ آ گئی تھی‘ ابھی تک بحال نہیں ہوا۔ ضرب عضب آپریشن انشاء اللہ کامیابی سے ہمکنار ہو گا۔ اس کے بعد ہی امریکہ کے ساتھ باہمی اعتماد پر مبنی تعلقات استوار کئے جا سکیں گے۔ جنرل راحیل شریف اور ان کے ساتھی نیک نیتی سے آپریشن کو آگے بڑھا رہے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ سال رواں ختم ہونے سے پہلے پہلے پاکستان میں دہشت گردوں کے مراکز ختم کر دیئے جائیں۔
قادری اور عمران کی احتجاجی مہم‘ ان کی سیاسی ضروریات کا تقاضا ہے۔ حکومت کی خوش قسمتی ہے کہ ماضی کی طرح آج کی فوج ‘سیاسی حکومت کی کمزوری دیکھ کر مداخلت نہیں کرنا چاہتی۔ لیکن حکومت نے ان احتجاجی تحریکوں کو دبانے کے لئے (خصوصاً ڈاکٹرطاہرالقادری کی تحریک) جو حربے اختیار کئے‘ وہ خود ان کے لئے مصیبت بن گئے۔ اول تو حکومت کی کارکردگی شروع ہی سے ناقص رہی۔ اصولی طور پر اسے عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے‘ ابتدائی مہینوں میں ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت تھی‘ جن سے عوام کو فوری سہولتیں مل جاتیں اور وہ حکومت سے توقعات وابستہ کر لیتے‘ لیکن مسلم لیگ (ن) نے تیسری بار حکومت ملتے ہی یہ سمجھ لیا کہ اسے اپنا کارخانہ واپس مل گیا ہے اور اسے اپنے پچھلے نقصانات پورے کرنا ہیں۔ عوام کا خیال ہی غالباً ان کے ذہن سے نکل گیا۔ لیکن عوام ایک زندہ حقیقت ہیں۔ انہیں بے اعتنائی سے نظرانداز کر کے‘ عوام کے جذبات سے بچ کر نہیں رہا جا سکتا۔ ان تحریکوں نے جو زور پکڑا ہے‘ معمول کے حالات میں وہ ہرگز موثر نہیں ہو سکتی تھیں۔ کیونکہ ان دونوں تحریکوں میں عوام کے لئے کچھ نہیں۔ ایک یوٹوپیائی دنیا کے مبہم خواب دکھا رہا ہے اور دوسرے نے‘ انتخابی دھاندلی کو بنیادی مقصد بنا رکھا ہے۔ دونوں کے نعرے ایسے نہیں ہیں کہ عوام اتنے جوش و خروش کے ساتھ ان لیڈروں کا ساتھ دیتے‘ جیسے کہ وہ دے رہے ہیں۔ عوام لیڈروں کی حمایت میں نہیں‘ حکومت کی مخالفت میں اٹھے ہیں۔حکومت‘ ڈاکٹر قادری کو دبانے اور عمران خان سے سمجھوتہ کرنے میں تو کامیاب ہو سکتی ہے‘ لیکن بپھرے ہوئے عوام کو ان سے غرض نہیں ہے۔ ان کا غم و غصہ برقرار رہے گا اور کل کوئی نہ کوئی لیڈر ‘ عوامی مسائل کا نعرہ لگا کر میدان میں اتر آئے گا۔ اس وقت تین تحریکیں برابر برابر چل رہی ہیں۔ ایک عمران خان کی۔ ایک طاہرالقادری کی اور تیسری عوام کی۔ یہ آخری تحریک جاری رہے گی۔شریف برادران کو گزشتہ ایک سال کے دوران جو استحکام حاصل رہا‘ دوبارہ شاید ہی مل پائے۔