میرے عزیز ہم وطنو! السلام علیکم
جیسا کہ کچھ عرصے سے صورت حال متغیر ہے ۔اوپر سے شیخ رشید احمد صاحب نے کہہ دیا ہے کہ فوج مارشل لاء لگانے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔ اب اتنی بڑی پارٹی کے اتنے بڑے لیڈر کی بات کو کیونکر جھٹلایا جا سکتا ہے۔ کوئی تبدیلی رونما ہوئے ویسے بھی ایک زمانہ ہو گیا ہے کیونکہ جنرل مشرف نے آئین کے ساتھ جو چھیڑ چھاڑ کی تھی اور جسے عدالت نے جائز بھی قرار دے دیا تھا‘ اُسے مارشل لاء ہرگز نہیں کہا جا سکتا جبکہ قوم ویسے بھی مارشل لاء کی عادی ہو چکی ہے اور اگر دس بارہ سال اس کے بغیر گزر جائیں تو باقاعدہ اداس ہونے لگتی ہے اور آخر قوم کے جذبات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔
ملک کی عمومی صورت حال پہلے ہی ناگفتہ بہ ہے۔ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ گوشت کا تو کہنا ہی کیا‘ سبزی ترکاری‘ دالیں‘ دودھ‘ گھی‘ چینی اور آٹا تک غریب عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکے ہیں۔ بیروزگاری کی مصیبت اس کے علاوہ ہے۔ لوگ اپنے گردے اور بچے تک بیچ رہے ہیں‘ بلکہ خودکشیوں پر اُتر آئے ہیں۔ مائیں اپنے بچوں سمیت نہر میں کود رہی ہیں۔ چوریاں‘ ڈکیتیاں اور بھتہ خوری معراج پر ہیں۔ ان کے جان و مال کی حفاظت کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ملتا۔ غرض ایک افراتفری کا عالم ہے اور تنگ آ کر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے پر مجبور ہیں۔ غرض امن و امان کی صورتِ حال کسی طرح سے بھی قابل بیان نہیں۔
حکومت تو ہے لیکن محض برائے نام‘ کہنے کو جمہوریت ہے لیکن اصل میں بدترین بادشاہت کا دور دورہ ہے۔ دونوں بڑی پارٹیوں کے اپنے اندر کبھی انتخابات نہیں کرائے گئے بلکہ چٹ اور پرچی سسٹم چلتا ہے۔ بڑی وارداتوں میں پولیس عام طور پر خود شامل ہوتی ہے۔ ارکان اسمبلی نے اپنے اپنے قبضہ گروپ بنا رکھے ہیں۔ ہر رکن اسمبلی کو ڈویلپمنٹ کے ہر منصوبے میں 16 فیصد کمیشن اپنے آپ ہی مل جاتا ہے اور جسے جائز سمجھا جاتا ہے۔ برسراقتدار حضرات نے سیاسی مخالفین کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ ان کے خلاف جھوٹے پرچے درج کروائے جاتے اور اصل مجرم تھانہ سے چھڑوا لیے جاتے ہیں بلکہ اب تو یہ کام تھانے پر دھاوا بول کر بھی کیا جاتا ہے۔ پولیس اور دیگر اہلکاروں کی ان کے ہاتھوں پٹائی اس کے علاوہ ہے۔
سکولوں اور ہسپتالوں کی حالت الگ سے ابتر ہے۔ بھوت سکولوں کی بھرمار ہے اور جو سکول کہیں ہیں بھی تو ان کے یا تو اساتذہ غائب ہوتے ہیں یا ان میں جاگیرداروں کے مال مویشی بندھے ہوتے ہیں۔ ہسپتالوں میں دوائیں نایاب ہیں تو ڈا کٹر حضرات اکثر ہڑتال پر رہتے ہیں۔ ہسپتالوں میں بچوں کے تبدیل اور اغوا کیے جانے کی وبا عام ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ بات بات پر ڈاکٹر اور نرسیں ہڑتال کر دیتی ہیں۔ اکثر بڑے ہسپتالوں میں جان بچانے کے بڑے آلات ہی نایاب ہیں۔ مریضوں کے لواحقین کے ساتھ الگ بدتمیزی کی جاتی ہے اور غلط ٹیکوں کی وجہ سے اموات بھی عام ہیں۔ ملک میں شروع سے کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے کوئی درجن بھر وزارتیں خود سنبھال رکھی ہیں۔ وزیراعظم پارلیمنٹ میں آنا توہین سمجھتے ہیں اور اپنے کاروبار کے سلسلے میں زیادہ تر غیر ملکی دوروں ہی پر رہتے ہیں۔ وزارت خارجہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہتی ہے۔ دیگر ملکوں کے ساتھ تعلقات انتہائی غیر تسلی بخش ہیں۔ ماسوائے چین کے‘ ہمارا کوئی دوست ملک نہیں ہے جبکہ دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہی رہتے ہیں۔ بھارت نے ہمارا پانی بند کر رکھا ہے تو افغانستان سے آئے دن حملے ہوا کرتے ہیں۔ اکثر مغربی ممالک نے ہمارے ہاں پروازوں پر بندش لگا رکھی ہے۔ پولیو کے خطرے کے باعث اکثر ملکوں نے ہمارے وہاں آنے جانے پر قدغن لگا رکھی ہے۔ بیرونی ملکوں میں سبز پاسپورٹ کی کوئی قدرو قیمت باقی نہیں رہ گئی جبکہ جعلی پاسپورٹوں اور شناختی کارڈز کی تیاری زوروں پر ہے۔
ملک کی معاشی صورت حال کے بارے میں غلط اور فرضی دعوے کیے جاتے ہیں‘ حتیٰ کہ اس سال ملک بصد مشکل دیوالیہ ہونے سے بچا ہے۔ حکومت نوٹ چھاپ چھاپ کر بائولی ہو رہی ہے۔ جتنے غیر ملکی قرضے اس حکومت نے لیے ہیں‘ اس نے سارے سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ ملکی وسائل اونے پونے فروخت کیے جا رہے ہیں۔ بیرونی سودوں میں لمبے کمیشن کھائے جا رہے ہیں۔ اقربانوازی اور طوائف الملوکی کا دور دورہ ہے۔ میرٹ کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ دو سطحی نظام تعلیم نے الگ بیڑہ غرق کر رکھا ہے اور جہالت روز بروز عروج اور ترقی پر ہے۔ صرف 2 فیصد لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ خوشحال طبقے سے ٹیکس وصول کرنے سے گریز کیا جاتا ہے۔ تاجر طبقہ خوب پھل پھول رہا ہے اور اسی نے حکومت کو سہارا بھی دے رکھا ہے۔ بدحکومتی کی مثالیں روز افزوں ہیں۔ ملک پر ایک ہی خاندان کی حکومت ہے اور کسی کو پر مارنے کی ہمت نہیں۔
امن و امان کی صورت حال بد سے بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ کراچی میں آئے دن سرکٹی اور بوری بند لاشیں برآمد ہو رہی ہیں تو سڑک پر ڈکیتی ایک معمول بن چکا ہے۔ سیاسی جماعتوں نے غنڈوں کے اپنے اپنے وِنگز قائم کر رکھے ہیں جس سے جرائم میں کمی ہونے کی بجائے روز افزوں اضافہ ہورہاہے۔ کوئٹہ اور دیگر شہروں کی صورت حال بھی کچھ اچھی نہیں۔ بھتہ خوری کی وبا لاہور اور اسلام آباد تک پہنچ چکی ہے۔ ہر اہم سیاستدان دہشت گردوں کی ہٹ لسٹ پر ہے۔ تقریباً ساری پولیس حکمرانوں کی سکیورٹی پر مامور ہے اور عوام لاوارث۔ کوئی کسی کا پُرسانِ حال نہیں۔
لانگ مارچ والوں کے خلاف جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر کے حکومت نے عوام پر ایک اور عذاب نازل کر رکھا ہے اور زندگی معطل ہو کر رہ گئی ہے۔ نہ مریضوں کے لیے دوا لانے کی گنجائش ہے،نہ کھانے پینے کی چیزوں کی دستیابی۔ حالانکہ یہ بے چارے زیادہ سے زیادہ کیا کر لیتے۔ اب دیکھیں کہ یہ صورت حال بالآخر کیا رنگ لاتی ہے؛ چنانچہ حالات کو مزید خراب ہونے سے بچانے کے لیے ہم نے بھاری دل کے ساتھ متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنا کام کریں اور حکومت اپنا۔
پاکستان پائندہ باد‘ پاک فوج زندہ باد
آج کا مطلع
راکھ ہوتا ہوا‘ ہر لحظہ نِبڑتا ہوا میں
رفتہ رفتہ یہ کوئی آگ پکڑتا ہوا میں