یادش بخیر!ہمارے ممدوح جناب شیخ رشید احمد صاحب مرنجا مرنج آدمی ہیں ، ٹیلی ویژن پروگراموں میں ریٹنگ کے سلطان بلکہ بے تاج بادشاہ ہیں۔ جب پولیٹیکل ٹاکس کے لئے موضوعات کم یاب بلکہ نایاب ہوں ، ویرانی سی ویرانی ہو، تو ایسے میں ہمارے شیخ صاحب ٹیلی ویژن اسٹوڈیوز کے لنگربرداروں (Anchor Persons)کی مدد کو پہنچتے ہیںاور ان کی ریٹنگ کو فرش سے اٹھا کر عرش پہ پہنچا دیتے ہیں۔ انہیں اس بات کا بجا طور پر حق پہنچتا ہے کہ اینکرپرسنز سے ان کے مشاہرہ جات میں سے کراچی کی کاروباری اصطلاح میں ''پتّی ‘‘ لیں، بلکہ اگر وہ پورا ''پتّہ‘‘ لے کر ''پتی‘‘ ان کے لئے چھوڑ دیںتو بھی ان کی مہربانی سمجھی جائے۔
شیخ صاحب جب جبیں پہ شکنیں ڈال کر اور تیوری چڑھا کر ذرا رُک کربولتے ہیں تو لگتا ہے پوری سیاسی دانش اُن کی ذات میں سمٹ آئی ہے اور یہ ہماری سیاسی قیادت اور پوری قوم کی بدقسمتی ہے کہ وہ اس سے استفادہ نہیں کرپاتی۔ میں اگرچہ ان کا کوئی پروگرام اَزاوّل تا آخر یعنی ''مِن وعَن ‘‘ نہیں دیکھ پایا ، لیکن جب ایک ہی وقت میں کئی چینلز پر انہیں اپنی دانش کی سوغات اور حکمت کی خیرات بانٹتے دیکھتا ہوں، تو اُن کی اہمیت کا اندازہ ہوتاہے۔
شیخ صاحب 2008ء کے بعد سے سیاسی بشارتیں ، پیشین گوئیاں اور مستقبل کی غیبی خبریں دیتے چلے آرہے ہیں اور اب ان کی آخری اور حتمی پیشین گوئی ''قربانی سے پہلے قربانی ‘‘ والی ہے۔ یہ ان کی مہربانی ہے کہ اس بار انہوں نے ڈیڈ لائن بہت دور نہیں رکھی اور عربی میں کہتے ہیں :''اَلْاِنْتِظَارُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ‘‘، یعنی انتظار کی گھڑیاں قتل سے بھی زیادہ اذیّت ناک ہوتی ہیں ، مگر اس بار انہوں نے اس قاتلانہ ادا کی اذیّت کوقریب ترین ''ڈیڈلائن‘‘ دے کر قدرِ کم کردیا ہے، اللہ تعالیٰ انہیں اِس کی جزائِ خیر عطا فرمائے۔
2008ء سے 2013ء تک شیخ صاحب ''مرکزِ انقلاب‘‘ کی طرف دیکھتے رہے، انہیں کم وبیش ہر روز متوجہ فرماتے رہے کہ سب کچھ لٹ جائے گا، برباد ہوجائے گا، اقتدار کا سارا محل جل کر راکھ راکھ ہوجائے گا، تو کیا پھر آپ کی آنکھ کھلے گی؟۔ اگرچہ ''مرکزِ انقلاب‘‘ ان کے سیاسی آستانے سے چنداں دور نہیں ہے، لیکن انہوں نے بھی بے اعتنائی اور بے نیازی کی حد کردی اور شیخ صاحب کی داد وفریاد کی جانب پلٹ کر نہ دیکھا ، نہ سنا۔ چنانچہ انہیں بارہا کہنا پڑا کہ راولپنڈی والے لسّی اور سَتّو پی کر خوابِ خرگوش کے مزے لُوٹ رہے ہیں اور انہیں خبر ہی نہیں کہ ساری متاعِ سیاست واقتدار لٹ چکی ہے۔ مگر وہ لسّی اور ستّو اتنے مدہوش کن ثابت ہوئے کہ جناب جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی ریٹائر منٹ کے ایک سال بعد بھی مہر بہ لب ہیں اور جامدوساکت ہیں، کچھ بھی بتا کر نہیں دے رہے اور شیخ صاحب اب بھی بہ زبانِ حال ماتم کناں ہیں کہ ؎
بتا اے آسماں والے !میرے نالوں پہ کیا گزری
یہ بجلی جو چمکتی تھی، چمن والوں پہ کیا گزری
ایک عرصے تک جناب شیخ صاحب اشارات وکنایات میں کوشاں رہے کہ '' مسلم لیگ (ن)‘‘ ان کے لئے کوئی نرم گوشہ پیدا کرے ، لیکن ان کی سنگدلی اور جذبۂ انتقام بھی اپنی انتہا پر تھا، انہوں نے نہ صرف یہ کہ اِن اشارات وکنایات کا مُثبِت جواب نہ دیا بلکہ ایک طرح سے اہانت آمیز رویہ اختیار کئے رکھا۔ چنانچہ بالآخر شیخ صاحب نے انہیں ''طلاقِ مغلَّظہ‘‘ دی اور جناب عمران خان سے رشتہ اُستوار کیا۔ خان صاحب کو بھی شاید اپنے جلسوں میں رونقیں مطلوب تھیں ، چنانچہ وہ انہیں ساتھ لئے چلتے رہے ، سوائے ایک مرحلے کے کہ جب انہوں نے لال جھنڈی دکھائی اور ایم کیوایم کے ساتھ مل کر شیخ صاحب کو قائدِ حزبِ اختلاف بنانے پر آمادہ نہ ہوئے، مگر شیخ صاحب نے پھر بھی ہمت نہیں ہاری اور ع: ''وفاداری بشرطِ استواری اصلِ ایماں ہے‘‘کے مصداق اپنا مشن جاری رکھااور بڑے مقاصد کی خاطر چھوٹی موٹی تلخیاں گوارا کرنی پڑتی ہیں اور انہیں'' طاقِ نسیاں‘‘ پہ بھی سجانا پڑتاہے۔
آپ حضرات نے عالمی اسپورٹس ایونٹس میں ''فور اِن ون‘‘ کی ریس دیکھی ہوگی ، جہاں چار سو میٹر کی دوڑ میں چار ایتھلیٹ دوڑ کی مسابقت (Racing)میں حصہ لیتے ہیں، ایک دوڑنے والا جب اپنے پوائنٹ کے قریب پہنچنے والا ہوتاہے تو اگلے پوائنٹ والا پیچھے مڑ کر اُسے دیکھ رہا ہوتاہے اوراس کے پہنچنے سے پہلے دوڑ لگا دیتاہے تاکہ جب جھنڈی اس کے ہاتھ میں آئے تو رفتار کاRhythmٹوٹنے نہ پائے ۔ چنانچہ شیخ صاحب اپنے سیاسی آستانے سے 2008ء سے مرکزِ انقلاب کی طرف رخ کئے Full Motionمیں پیچھے کی طرف مڑکر دیکھ رہے ہیں کہ کوئی آئے اور ان کا ہاتھ پکڑے، لیکن سب نے مایوس کیا۔ البتہ اس مرتبہ انہوں نے بیک وقت کراچی ، لاہور ، گجرات اور اسلام آباد میں الگ الگ ریسرز سے رابطہ قائم کررکھا ہے اور ان کے درمیان رابطے کی کڑی بھی بنے ہوئے ہیں، چھوٹی موٹی بے اعتمادیوں کو دور کرنے میں لگے رہتے ہیں اور اب انہیں قوی امید ہے کہ یہ چاروں Racersبیک وقت اُن سے آ ملیں گے اور مرکزِ انقلاب کی جانب کارواں رَوَاں دَوَاں ہوجائے گا۔اور اگر کسی ایک نے کمزوری بھی دکھائی یا ارادہ بدل دیا یا کسی کے بِہکاوے اور پھُسلاوے میں آگیا یا دشمن کی کوئی تدبیر مُدافَعت کامیابی سے ہمکنار بھی ہوگئی ، تب بھی کوئی نہ کوئی تو کسی نہ کسی طرح سے بچ بچا کر ان سے آ ملے گااور مرکزِ انقلاب کی جانب قافلہ رواں ہوجائے گا اور انہیں یقین ہے کہ وہ ان کا'' سواگت‘‘ کرنے کے لئے دل وجان سے تیار کھڑے ہیں ۔
بہت ممکن ہے کہ اس کالم کی طباعت سے پہلے ہی وہ آخری فیصلہ کن مرحلہ آجائے یا جو بھی نیک وبدانجام ہے ، اُسے آپ دیکھ چکے ہوں یا عنقریب دیکھ پائیں ، تاہم شیخ صاحب کی دانش وفراست ، عزم وحوصلے اور استقامت کی داد دئیے بغیر چارہ نہیں ہے ۔ اس سارے کھیل تماشے میں آئین اور قانون کا نام محض زیبِ داستاں کے لئے یا ایک خوش رنگ ماسک کے طور پر استعمال ہوتا چلاآیا ہے اور ہوتا رہے گا ۔ ماہرین ِ آئین وقانون توہمیں یہ بتاتے ہیں کہ یہ سارے مطالبات ، خوبصورت خواہشات اور حسین خواب آئین وقانون کے فریم ورک میں کسی طور پر بھی فٹ نہیں آتے ، لیکن ہر ایک اپنی جگہ ماہرِ آئین، مفسرِ آئین اور شارحِ آئین ہے ، کوئی کسی دوسرے کی اتھارٹی کو کیوں تسلیم کرے۔
انہیں اس بات کا بھی ادراک نہیں ہے کہ ہماری مسلح افواج داخلی طور پر دہشت گردی کے خلاف ''ضربِ عَضْب‘‘ نامی ایک پیچیدہ آپریشن میں مصروف ہیں اور سرِ دست یہ ان کے اور ملک وقوم کے مفاد میں نہیں ہے کہ وہ پورے آئینی نظام اورمنتخب جمہوری اداروں کی بساط لپیٹ لیں اور اپنے آپ کو ایک انتہائی پیچیدہ اور مشکل صورتِ حال سے دوچار کردیں ۔ اس وقت خواہ علامتی اور کمزورہی سہی ایک سیاسی نظامِ اقتدار یا نظمِ اجتماعی ان کے اور پورے ملک وملت اور قوم کے مفاد میں ہے ۔ انڈیا کے نو منتخب وزیراعظم پاکستان کے حوالے سے اپنے مذموم عزائم کو ظاہر کرنے میں کسی تکلف یا لگی لپٹی سے کام نہیں لے رہے ،انہوں نے حال ہی میں کارگل کے دورے کے موقع پر جو بیان دیا ہے، وہ اہلِ نظر کی چشم بصیرت کو وَاکرنے کے لئے کافی ہے،انڈین مسلح افواج کے نئے چیف آف آرمی اسٹاف کا زہریلا بیان بھی سب نے پڑھ رکھا ہوگا ، مشرق وسطیٰ کی پیچیدہ صورتِ حال سب کے سامنے ہے اورہمارے شمال کی جانب قریب ترین مسلم ممالک ایران اور افغانستان کے ساتھ ہمارا اعتماد کا رشتہ قائم نہیں ہے ۔ آئے دن ہم ان کی جانب سے شکوک وشبہات بلکہ صریح الزامات پر مبنی بیانات سنتے رہتے ہیں ، انڈیا افغانستان میں کافی نفوذ کرچکا ہے اور ایران اور انڈیا میں بھی باہمی اعتماد کا تعلق قائم ہے ، ایسے میں پاکستان اور اہلِ پاکستان ، ہماری سیاسی قیادت ، مسلح افواج اور ہمارے حساس اداروں کو پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ، ہمیں '' گھر پھونک تماشا دیکھ‘‘ کا منظر دنیا کے سامنے پیش نہیں کرناچاہئے ۔ 16دسمبر 1971ء کا المیہ ہم پر گزر چکا ہے اور موجودہ پاکستان کسی ایسے المیے کا متحمل نہیں ہوسکتا، ورنہ کچھ بھی باقی نہیں بچے گا اورخاکم بدہن کہیں ایسا نہ ہوکہ ہم :''تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘‘کا مصداق بن جائیں۔میں بارہا انتہائی مؤدبانہ انداز میں گزارشات پیش کرتارہاہوں کہ ہمارے آزاد میڈیا کو بھی اپنی ذمے داریوں کا احساس کرناچاہئے۔