تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     16-08-2014

سرخیاں‘ متن اور اعزازات

سول اور فوجی قیادت اکٹھی‘ 
یہ ہے آزادی مارچ... نوازشریف 
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''سول اور فوجی قیادت اکٹھی‘ یہ ہے آزادی مارچ‘‘ اور یہ جو آرمی چیف کئی دن سے ہمارے ساتھ ہیں تو اسی لیے کہ وہ ہمارے ساتھ اکٹھے رہیں۔ اگر کہیں کوئی گڑبڑ ہو گئی تو پھر ایک اور طرح کا آزادی مارچ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ''ملک منفی سیاست کا متحمل نہیں ہو سکتا‘‘ اور وزیراعظم سے استعفیٰ مانگنے سے زیادہ منفی سیاست اور کیا ہو سکتی ہے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''دس سال مل جائیں تو ملک ترقی کی بلندیاں چھولے گا‘‘ اگرچہ فی الحال تو موجودہ پانچ سال بھی پورے ہوتے نظر نہیں آتے۔ انہوں نے کہا کہ ''خیبر حکومت مارچ کی بجائے مسائل حل کرے‘‘ جبکہ میں اگر مسائل حل نہیں کر رہا تو مارچ بھی نہیں کر رہا۔ انہوں نے کہا کہ ''ملکی ترقی سے ہماری توجہ ہٹانے کی کوشش نہ کی جائے‘‘ اگرچہ ہماری ترقی پھر بھی جاری رہے گی۔ آپ اگلے روز قائداعظم ریذیڈنسی کا افتتاح کر رہے تھے۔ 
وزیراعظم سے استعفیٰ مانگنے 
جا رہا ہوں... عمران خان 
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم سے استعفیٰ مانگنے جا رہا ہوں‘‘ اس لیے کم از کم وہ اس بات کا ہی خیال رکھ لیں کہ اس کام کے لیے کتنا لمبا اور کٹھن سفر اختیار کر رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''الیکشن کمیشن میرے آنے سے پہلے مستعفی ہو جائے‘‘ بلکہ دونوں آپس میں فیصلہ کر لیں کہ پہلے وزیراعظم نے مستعفی ہونا ہے یا الیکشن کمیشن نے‘ اور اگر دونوں اکٹھے ہی یہ کام کر گزریں تو اور بھی اچھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''میچ جیت کر واپس آئوں گا‘‘ بشرطیکہ یہ نہ ہو کہ حکومت اس میچ میں شامل ہی نہ ہو اور ہم وہاں بیٹھ بیٹھ کر ہی بوڑھے ہو جائیں کیونکہ ہمارے وہاں بیٹھ رہنے سے حکومت کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑنے والا۔ انہوں نے کہا کہ ''حقیقی جمہوریت اور نیا پاکستان چند دن کی بات ہے‘‘ اور یہی بات پچھلے دنوں مجھے ایک ذمہ دار شخص نے بھی بتائی ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ذمہ دار آدمی کی بات کا اعتبار نہ کیا جائے۔ آپ اگلے روز لاہور میں لانگ مارچ پر روانہ ہونے سے پہلے خطاب کر رہے تھے۔ 
عوام نے مارچ مسترد کر دیئے‘
وزیراعظم کے استعفیٰ کا سوال پیدا
ہی نہیں ہوتا... شہباز شریف 
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''عوام نے مارچ مسترد کردیئے‘ وزیراعظم کے استعفیٰ کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا‘‘ کیونکہ ہماری اطلاع یہی ہے کہ عوام نے جوق در جوق شامل ہو کر عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کو یہی کہا تھا کہ آپ ایسا نہ کریں کیونکہ ہم مارچ کو مسترد کرنے کے لیے ہی اس میں شامل ہو رہے ہیں لیکن انہوں نے کہا کہ مارچ کو مسترد کرنے کے لیے ابھی کچھ مزید عوام کا اکٹھا ہونا ضروری ہے جو کہ رفتہ رفتہ ہو بھی رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم نے دونوں کو مارچ کی اجازت دے کر ان کی سازش ناکام بنا دی‘‘ اگرچہ یہ کام کافی تاخیر سے ہوا کیونکہ ہم ہر کام صبر و تحمل سے کرنے کے عادی ہیں‘ اور ہمارے پاس جو کچھ بھی ہے ہمارے صبر ہی کا میٹھا پھل ہے جو دونوں ہاتھوں سے کھا رہے ہیں‘ اور مخالفین کے پیٹ میں مروڑ اُٹھ رہے ہیں حالانکہ انہیں کوئی اچھی سی پھکی استعمال کرنی چاہیے جس کی ہر طرح کی ورائٹی وزیراعظم کے پاس بھی موجود ہے اور جس میں سے نمونے کے طور پر ان حضرات کو بھی دی جا سکتی ہے کہ یہی جمہوریت کا حسن بھی ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک انٹرویو دے رہے تھے۔ 
جمہوریت گئی تو ہماری زندگی میں واپس نہیں آئے گی... رضا ربانی 
پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما رضا ربانی نے کہا ہے کہ ''جمہوریت گئی تو ہماری زندگی میں واپس نہیں آئے گی‘‘ کیونکہ ہم سیاستدانوں کی زندگی اس کے بغیر ویسے ہی بہت مختصر رہ جائے گی کہ سب اجتماعی طور پر بے روزگار ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''کچھ لوگ مڈٹرم الیکشن کی بات کرتے ہیں‘‘ لیکن ہم اس کے مخالف اس لیے ہیں کہ ابھی عوام کو ہمارے لگائے گئے زخم اور معاشی خوش فعلیاں نہیں بھولیں اور نتائج پھر وہی نکلیں گے جو حالیہ انتخابات میں سامنے آئے تھے‘ اس لیے تین چار سال مزید گزرنے کے بعد ہی توقع کی جا سکتی ہے کہ ان کی یادداشت ساتھ چھوڑ جائے‘ ورنہ تو کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ انہوں نے کہا کہ ''مڈٹرم الیکشن کبھی نہیں ہوں گے‘‘ کیونکہ لگتا تو یہی ہے کہ ہر چیز کی بساط ہی لپیٹی جانے والی ہے‘ اور سب کچھ خواب و خیال ہی ہو کر رہ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''ن لیگ نے ہم سب کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں‘‘ اس لیے اب ہمارا بھی فرض ہے کہ اس کا یہ اُدھار چکا دیں کیونکہ اس سے اچھا موقع پھر شاید ہی دستیاب ہو۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ 
اعزازات 
اس دفعہ جن جن لوگوں کو صدارتی اعزازات کے قابل سمجھا گیا ہے‘ یہ اور کم و بیش ہم سب ایک دوسرے کے چاہنے
والوں میں سے ہیں؛ تاہم اکثر مقامات پر ایسا لگا کہ حکومت نے اس سلسلے میں بھی حسب روایت تاخیر سے کام لیا ہے۔ مثلاً عباس تابش‘ عطا الرحمن‘ رئوف طاہر‘ ڈاکٹر سعادت سعید‘ ڈاکٹر شاہین مفتی اور نجیب احمد میں سے کئی ایسے ہیں جنہیں یہ ایوارڈ بہت پہلے مل جانا چاہیے تھا‘ خاص طور پر عباس تابش کا جتنا کام ہے‘ مقدار اور معیار دونوں حوالوں سے‘ اس کا اعتراف بہت پہلے کر لیا جانا چاہیے تھا۔ اسی طرح متعدد خواتین و حضرات کو ابھی اس کے لیے خدا جانے کتنا انتظار کھینچنا پڑے گا۔ مثلاً کراچی میں پروفیسر سحر انصاری‘ آصف فرخی‘ مبین مرزا‘ فہمیدہ ریاض‘ پیرزادہ قاسم‘ افضال احمد سید‘ عذرا عباس‘ فاطمہ حسن‘ زاہدہ حنا‘ اکبر معصوم اور کئی اور ان جیسے ہوں گے جنہیں اب تک اکاموڈیٹ کیا جانا چاہیے تھا۔ اسی طرح پنجاب بھی ان اعزازات کے اہل لوگوں سے بھرا پڑا ہے جن میں انجم سلیمی‘ امجد طفیل‘ عامر سہیل‘ احمد عطا اللہ‘ غلام حسین ساجد‘ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ‘ حسین مجروح‘ جواز جعفری‘ خالد مسعود خان‘ ڈاکٹر ابرار احمد‘ اختر عثمان‘ اقتدار جاوید‘ عمران نقوی‘ ناصر عباس نیر‘ محمد سعید شیخ‘ حسن نثار‘ ڈاکٹر تحسین فراقی‘ سمیع آہوجا‘ شاہین عباس‘ محمد سلیم الرحمن‘ سلیم شہزاد‘ ڈاکٹر ضیاالحسن‘ عبدالرشید اور قمر رضا شہزاد سمیت کئی ایسے ادیب ہیں جن کا صحیح معنوں میں اعتراف کیا جانا ابھی باقی ہے۔ 
آج کا مقطع 
ہیں جتنے دائرے نئی ٹی شرٹ پر ظفرؔ 
سوراخ اُسی قدر ہیں پرانی جراب میں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved