تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     16-08-2014

پکا پکایا تازہ انقلاب

جو کچھ ہو رہا ہے وہ حیرت انگیز اور افسوسناک ہے۔ کیا ہو رہا ہے، یہ بحث اب ختم ہوچکی۔ سوچنا یہ ہے کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے۔ حیرت کا سلسلہ ''کیا‘‘ سے چلا اور اب ''کیوں‘‘ پر آکر رک گیا ہے۔ ایسا کیوں ہے کہ کسی بھی منتخب حکومت نے ابھی بوریا بستر کھولا بھی نہیں ہوتا کہ اُس کا بوریا بستر گول کرنے کی تحریک شروع کردی جاتی ہے؟ ن لیگ کی تیسری حکومت نے ابھی سانس بھی درست نہیں کیا ہے کہ اُسے چلتا کرنے کی کاوشیں منظر عام پر آگئی ہیں۔ آرڈر پر مال تیار کرنے والے میدان میں ہیں اور اِس قدر تیاری کے ساتھ کہ خود بھی سمجھ نہیں پارہے کہ کب کیا کرنا ہے اور کتنا کرنا ہے! 
کسی نے خوب کہا ہے کہ ؎ 
جسے بھی دیکھیے روتا ہے رونا اپنی بیوی کا 
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ آخر ماجرا کیا ہے 
مزا تو جب ہے لے کر ہاتھ میں موٹا سا اِک ڈنڈا 
میاں، بیوی سے خود پوچھے بتا! تیری رضا کیا ہے؟ 
یہاں معاملہ بیوی کا نہیں، حالات اور اُن کی تبدیلی کا ہے۔ بیویاں تو شاید جیسے تیسے سُدھر بھی جاتی ہوں، حالات کہاں بدلتے یا سُدھرتے ہیں؟ اور حالات سے بھی کئی قدم آگے جاکر اب معاملہ انقلاب تک آپہنچا ہے۔ دوسری طرف حکومت نے جب ہاتھ میں ڈنڈا تھام کر احتجاجیوں سے اُن کی ''رضا‘‘ جاننے کی کوشش کی تو ٹائمنگ غلط ہونے سے کچھ گڑبڑ ہوگئی اور پھر معاملات الجھتے ہی چلے گئے۔ 
قوم کو راہ دکھانے والے کیا کیا دِکھانا چاہتے ہیں، کچھ پتا نہیں چلتا۔ قوم حیران و پریشان ہے کہ اِن ''کرم فرماؤں‘‘ کے ہاتھوں ابھی اور کیا کیا دیکھنا ہے۔ نیت اور ارادوں پر دو چار کیا، درجنوں پردے پڑے ہوئے ہیں۔ ایک پردہ ہٹتا ہے تو دوسرا دِکھائی دیتا ہے۔ دوسرا ہٹائیے تو تیسرے کے درشن ہوتے ہیں۔ گویا ع 
صاف چُھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں! 
اسکولوں میں بچوں کو ''جادو کے کمالات‘‘ دکھانے والے بھی تھوڑی بہت حیرت برپا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ہمارے راہ نماؤں میں تو اب اِس قدر چونکانے کی صلاحیت و سکت بھی نہیں رہی۔ اُن کے ''کمالات‘‘ دیکھ کر اب کوئی چونکتا ہے نہ خوش ہوتا ہے۔ ہاں، اُن کی پژمُردگی کی سطح دیکھ کر قنوطیت کا گراف ضرور بلند ہوتا جاتا ہے۔ ؎ 
اہلِ ستم کے طُرفہ ''کمالات‘‘ دیکھ کر 
اہلِ کرم کا عزمِ ہُنر ختم ہو گیا 
ایک مدت سے یہ تماشا ہو رہا ہے۔ راتوں رات سب کچھ بدل ڈالنے کے دعوے کئے جارہے ہیں۔ اللہ جانے مغرب میں ایسی کون سی دوا ملتی ہے جسے پینے کے بعد ہمارے یہ مہربان تازہ دم ہوکر پھر کَمر کَس کے واپس آتے ہیں اور ہمیں راہ دِکھانے پر تُل جاتے ہیں! 
مرزا تنقید بیگ کہتے ہیں کہ اِس میں بے چارے راہ نماؤں کا کیا قصور؟ ہم ہیں ہی اِتنے بھٹکے ہوئے کہ ہمارے راہ نماؤں کے سَروں میں بار بار راہ دکھانے کا خَنّاس سَما جاتا ہے۔ ہم راہ پر آنے کا نام نہیں لیتے اور ہماری ہی وجہ سے قائدین بھی راہ پر نہیں آتے یعنی جب تک ہمیں راہِ راست پر نہیں لے آتے، وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ 
ایک بار پھر وہی پرانا راگ الاپا جارہا ہے‘ یعنی یہ کہ سب کچھ راتوں رات تبدیل ہو کر رہے گا۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی گاڑیوں میں منجن اور ہاضمے کا چُورن بیچنے والے بھی ایسی ہی باتیں کیا کرتے ہیں‘ یعنی صرف ایک بار استعمال کیجیے اور تمام تکالیف سے نجات پائیے۔ ہماری سیاست اب چُورن اور منجن بیچنے ہی کی سطح پر آچکی ہے۔ سب کی اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ ہے۔ سیاست ہو یا مذہب، سب اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا بیٹھے ہیں۔ ہر ایک کو زُعم ہے کہ سارے جہاں کا درد اُسی کے جگر میں اور سارے مسائل کا حل اُسی کی زنبیل میں ہے۔ دماغ خالی ہیں اور غَرّہ اِس بات کا ہے کہ اُن میں سارے جہاں کی دانائی بھری ہوئی ہے۔ انتہائے حماقت کا نمونہ ملاحظہ فرمائیے کہ حکومت کے خلاف، بلکہ حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کے لیے وفاقی دارالحکومت جانے کی خاطر حکومت ہی سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ خصوصی ٹرینوں کا بندوبست کیا جائے! یعنی حکومت سے کہا جارہا ہے کہ آپ کو ذبح کرنا ہے، ذرا چُھری تو مرحمت فرمائیے! راتوں رات تو ایک گھر کا ماحول بھی تبدیل نہیں ہوتا، یہاں ملک کو بدلنے کے دعوے کئے جارہے ہیں۔ ایسے دعوے سُننے اور پڑھنے والا سوچتا ہے ع 
حیراں ہوں دِل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں 
مرزا تنقید بیگ مزاجاً انتہا پسند واقع ہوئے ہیں۔ وہ جب بھی مشورہ دیتے ہیں تو انتہا پسندی پر اُتر آتے ہیں۔ مرزا کہتے ہیں کہ راتوں رات سب کچھ درست کرنے کی باتیں کرنے والوں کو پاگل خانے پہنچا دینا چاہیے۔ ہم انتہائی رحم دل واقع ہوئے ہیں اِس لیے ایسے کسی بھی مشورے کی تائید نہیں کرسکتے۔ سیدھی سی بات ہے، بے چارے پاگلوں نے ہمارا کیا بگاڑا ہے! اِس ملک میں ایک وہی تو ہیں جو سُکون سے ہیں۔ اُنہیں سُکون ہی سے رہنے دیا جائے۔ 
مرزا تنقید بیگ تبدیلی اور انقلاب کے نعروں سے خاص الرجی رکھتے ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ فلم ابھی شروع نہیں ہوئی ہوتی اور لوگ The End کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ فلم میں بُرا انجام ولن کا ہوتا ہے۔ ہماری سیاسی و جمہوری فلم میں ہیرو کو بُرے انجام سے دوچار کرنے کی کوششیں جاری رہتی ہیں اور ولن دور کھڑا، یہ تماشا دیکھ کر ہنستا رہتا ہے۔ انقلاب کے نعرے لگانے والے کبھی یہ سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتے کہ لوگ یہ باتیں سُن کر کِس قدر ہنستے ہوں گے۔ اتنی بات تو بچے بھی جانتے ہیں کہ برسوں بلکہ عشروں کا بگاڑ دو چار دن میں دور نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے ماحول میں انقلاب مذکور کامیڈی کا درجۂ کمال معلوم ہوتا ہے۔ نواز شریف صاحب تیسری بار وزیر اعظم بنے ہیں اور مسلسل تیسری بار پریشان ہیں۔ پریشان کیوں نہ ہوں؟ اِس بار بھی اُن کے اقتدار کی بساط ابتدائی مرحلے ہی میں لپیٹنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ میاں صاحب کا معاملہ تو یہ ہے کہ ؎ 
ابھی آئے، ابھی بیٹھے، ابھی دامن سنبھالا ہے 
''سبھی کی 'جاؤ جاؤ‘ نے تو اُن کا دَم نکالا ہے!‘‘ 
یار لوگ ہاتھ دھوئے بغیر میاں صاحب کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ موقع دیکھا جارہا ہے نہ محل۔ طے کرلیا گیا ہے کہ معقولیت کو لپیٹ کر ایک طرف رکھ دینا ہے اور وہ سب کچھ کر گزرنا ہے جس میں معقولیت کا شائبہ تک نہ پایا جائے۔ سب چاہتے ہیں کہ میاں صاحب ایک بار پھر ع 
آکے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے 
والے انجام سے دوچار ہوں۔ 
سیاسی ہنگامہ آرائی کے میلے میں وہ شور و غوغا ہے کہ کان پڑی آواز کا سُننا محال ہوگیا ہے۔ ایک طرف دھاندلی کا راگ الاپا جارہا ہے اور دوسری طرف انقلاب کا الاؤ دہکایا جارہا ہے۔ جس طرح کا انقلاب لانے کی بات کی جارہی ہے اُس سے تو ہمیں ذوالفقار علی بھٹو کا دور یاد آگیا۔ 1974ء میں کراچی میں پکی پکائی تازہ روٹی متعارف کرائی گئی۔ پلاسٹک کی تھیلی میں ایک روپے کی پانچ روٹیاں ملا کرتی تھیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستان میں پکا پکایا انقلاب متعارف کرا رہے ہیں۔ گویا کنٹینرز میں انقلاب کے پیکٹ درآمد کئے جائیں گے‘ جو اسٹورز پر دستیاب ہوں گے۔ جس کے جی میں آئے وہ اپنی ضرورت کے مطابق انقلاب خرید کر گھر لے جائے! ؎ 
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی 
ہم نے تو دِل جلا کے سرِ عام رکھ دیا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved