تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     17-08-2014

امپائر کی انگلی…!

شیخ رشید نے تحریکِ انصاف کے جلسے میں کہا: ''میں نے عوام کا ایسا سمندر پہلے کبھی نہیں دیکھا‘‘۔لگتایہی ہے کہ انہوں نے سمندر کبھی نہیں دیکھا۔میری طرح راولپنڈی میں رہنے والا، نالہ لئی ہی کو سمندر سمجھتا ہے۔'عوام کاسمندر‘کیا ہو تا ہے، یہ کراچی والا ہی بتا سکتاہے جس نے سمندر دیکھ رکھا ہو۔یہ ایم کیو ایم والے جانتے ہیں کہ سمندر کیا ہوتا ہے اور عوامی سمندر کسے کہتے ہیں۔ لیکن یہ سیاست کی باتیں ہیں۔وہ سیاست جس سے استدلال رخصت ہو چکا۔اب رومان باقی ہے یا مذہبی استحصال۔
وزیر اعظم نے اتمامِ حجت کر دیا۔میرے لیے ممکن نہیں کہ میں تجزیاتی غیر جانب داری کے نام پر انصاف کو خیر باد کہہ دوں۔ میں سیاسی شخصیات یا عمومی رویوں کا تقابل نہیں کررہا، نقطہ ہائے نظرکی بات کر رہا ہوں۔وزیر اعظم مصالحت کے لیے جہاں تک جا سکتے تھے،اس سے آگے تک گئے ہیں۔دس حلقوں کی دوبارہ گنتی اور عدالتی کمیشن کاقیام آئینی مطالبہ نہیں تھا۔وزیر اعظم نے اس کے باو صف ان کے لیے آ مادگی کاا علان لیا۔دوسری طرف بزور وزیراعظم کو ہٹانے کا عزم ہے۔ مجھے کوئی شبہ نہیں کہ یہ مطالبہ غیر آئینی اور غیر اخلاقی ہے۔اب تو عدالت ِ عالیہ کے فیصلے نے اس پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔عدالتی فیصلے پر بحث ہو سکتی ہے۔ ان سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔مہذب معاشروں میں مگر ان کو تسلیم کیا جا تا ہے۔ جنگل اور انسانی بستیوں میں یہی فرق ہو تا ہے۔ عمران خان نے عملاً فیصلے کو ماننے سے انکار کیا۔ جب مطالبات کو عدالت نے غیر آئینی کہا ، وہ بدستور ان پر ڈٹے ہوئے ہیں۔اس کے بعد میرے لیے ممکن نہیں کہ میں نوازشریف اور عمران خان کے موقف کا یکساں قراردوں۔ لوگ کہتے ہیں مذاکرات کیے جائیں۔ دونوں طرف سے نرمی کا مظاہرہ ہو۔ کوئی بتائے کہ حکومت اس سے زیادہ کیا نر می کر سکتی ہے؟
میرے نزدیک اس رائے میں بھی کوئی وزن نہیں کہ اگر حکومت ابتدا میں مطالبہ مان لیتی تویہ نوبت نہ آتی۔یہ نوبت ہر صورت میں آنی تھی۔ عمران خان اور طاہر القادری صاحب نے معا ملے کو ہر حال میں یہاں تک لا نا تھا کہ بحث سمٹ کر نوازشریف کے استعفے تک پہنچ جا ئے۔ذرا قادری صاحب کے اُس ایجنڈے کوذہن میں تازہ کیجیے جو انہوں نے 17جون سے کہیں پہلے ، پیپلزپارٹی دور میں بے نقاب کیا تھا۔ وہ علانیہ اس نظام کی صفیں لپیٹنے کے لیے آئے ہیں۔اگر ماڈل ٹاؤن کا سانحہ نہ ہوتا تو بھی ان کی حکمتِ عملی اور مطالبات یہی ہوتے۔اس سے بہر حال انسانوں کا قتلِ عام جائز نہیں ہو جا تا۔جن لوگوںکی حکمت ِعملی نے اس سانحے کو جنم دیا،ان کے ساتھ قانون کے مطابق معاملہ ہو نا چاہیے اور انہیں سخت سزا ملنی چاہیے؛ تاہم اس حادثے کا طاہر القادری صاحب کے ایجنڈے اور حکمتِ عملی سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔یہی معاملہ عمران خان کا بھی ہے۔ٹی وی چینل اسے بار بار دہرا رہے ہیں کہ وہ خود عدالتی کمیشن کا مطالبہ کرتے رہے ہیں اور جب یہ مطالبہ تسلیم کر لیا گیاتو انہوں نے اپنے تھیلے سے ایک نئی بلی نکال لی کہ پہلے وزیراعظم استعفیٰ دیں۔ یہ سلسلہ کب تک دراز ہو سکتا ہے کہ عمران خان اپنے تھیلے سے بلیاں نکالتے رہیں اور حکومت انہیں 
مارتی رہے۔یہ سیاست ہے 'گربہ کُشی‘ کا کھیل نہیں۔ 
سوال ایک اور بھی ہے۔عمران خان کے پاس اس قوم کو دینے کے لیے متبادل کیا ہے؟ چودھری نثار کے مقابلے میں خان سرور۔حنیف عباسی کے مقابلے میں شیخ رشید ۔سردار نسیم کے مقابلے میں فیاض چوہان۔ملک ابرار کے مقابلے میںحنا منظور۔ شیخ آفتاب کے مقابلے میں ملک امین اسلم جو پرویز مشرف کے وزیر مملکت تھے۔اشرف گجر کے مقابلے میں اسد عمر۔ سعدرفیق اور ایازصادق کے مقابلے میںشفقت محموداور علیم خان۔ کیایہ ہے وہ قیادت جس کے لیے عمران خان ملک کو عدم استحکام کی نذر کر رہے ہیں؟ اس متبادل قیادت کے لیے سماج کوانتشار میں ڈال دینا چاہیے؟کیا انقلاب اسی کا نام ہے؟
معاملہ لیکن استدلال کی دنیا سے نکل چکا۔دلیل اب بے معنی ہے۔استدلال اور عقل کی باتیں وہاں ہو تی ہیں جہاں ذہنی توازن ہو۔ ہم تو یہ توازن کھو چکے۔ہم تو قاتل کی محبت میں گرفتار قوم ہیں۔عمران خان اور طاہر القادری کی عوامی تائید کی پشت پر دلیل نہیں، رومان اور مذہبی جذبات کارفرما ہیں۔دونوں کو کسی دلیل سے نہیں ما را جا سکتا۔رومان کا توڑ استدلال ہوتا تو کوئی لڑکی اپنے گھر سے نہ بھاگتی ،یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایک سماج میں چھپنا ممکن نہیں ہوتا۔مذہبی بہروپیوں کے ان گنت اور چشم دید واقعات کے بعدمذہبی استحصال کادروازہ بند ہو چکا ہوتا۔لڑکیاں گھروں سے آج بھی بھاگ رہی ہیں اور مذہب کا جذباتی و سیاسی استحصال آج بھی جاری ہے۔ جن معاشروں میں عقل اور دلیل کی حکمرانی ہو وہاں ایسے واقعات میں کمی آ جا تی ہے۔ سیاست پوری انسانی تاریخ میں، پیغمبروں اورچند نیک لوگوں کے استثنا کے ساتھ، حقیقت پسندی کی سنگلاخ زمین پر کھڑی رہی ہے جہاں لطیف جذبات کے گلاب نہیں کھلتے۔ میرے نزدیک یہ سادگی کی انتہا ہے کہ کوئی اہلِ سیاست سے رومان وابستہ کر لے‘ لیکن اس بات کا تعلق استدلال سے ہے اور یہاںایک ایسے سماج کاتذکرہ ہے جو ذہنی مریض بن چکا۔ کوئی کہتا ہے: ''اپنے قائد کے اشارے پر بچے قربان کریں گے۔ کچھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ اس کام کے لیے چن لیتا ہے‘‘۔ کوئی کہتا ہے: ''اپنے لیڈروں کے ساتھ ہیں۔پاؤں میں جوتی نہیں تو کوئی بات نہیں۔یہ جہاد ہے۔ہمیں اس سے غرض نہیں کہ ہمارا لیڈر کہاں ہے۔کمانڈر ضروری نہیں کہ خود بھی میدان میں ہو۔‘‘ اسی کو استحصال کہتے ہیں۔ یہی رو مان ہے۔
ایسا کیوں ہوا؟ جو سماج تین عشروں سے خانہ جنگی کی کیفیت میں ہو، وہاں ذہنی توازن قائم رکھنا ممکن نہیں ہو تا۔ فلسطین، مقبوضہ کشمیر، عراق، افغانستان، سب معاشرے ذہنی توازن کھو چکے۔ افغانستان میں سماجی صورتِ حال اس لیے بہتر ہے کہ قتل،گولی، اسلحہ وہاں کا روزمرہ ہیں۔ہمارا معاملہ یہ نہیں تھا۔اس خانہ جنگی پر مستزاد ہمارے معاشی مسائل اور جمہوری حکومتوں کی ناکامی ہے۔ان سب مسائل نے جس سماجی اضطراب کو جنم دیا ہے، اسے کچھ لوگوں نے انگیخت کر دیا ہے۔
سوال دوہی اہم ہیں۔کیا یہ ملک کسی آئین اور ضابطے کے تحت چلے گا یا کسی فرد اور خواہشات کے مطابق؟قیادت میں تبدیلی طاقت کے ذریعے آئے گی یا کسی آئین کے تحت؟اگر آئین نہیں تو پھر اس وقت طالبان اور عمران خان میں جوہری فرق کیا ہے؟یہ سوالات اہم ہیں لیکن وہاں جہاں استدلال کا راج ہو۔ یہ ذہنی طور پر متوازن معاشروں میں ہوتاہے۔خوف، اضطراب اور بے یقینی نے عوام کو سوچنے کے قابل کہاں رکھا ہے؟ یہ طے ہو گیا کہ عمران خان اس عوامی تائید کا مظاہرہ نہیں کر سکے جو ریاستی نظام کو مفلوج کر سکتی ہے۔ایسا دھرنا تو وہ نیٹو سپلائی کے خلاف بھی دے چکے۔وہ کہتے ہیں کہ امپائر نے انگلی اٹھا دی۔یہ امپائر کون ہے؟جمہوریت میں یہ ذمہ داری عوام کے پاس ہو تی ہے۔عوام نے تو انگلی نہیں اٹھائی۔ پھر عمران خان کا اشارہ کس طرف ہے؟
حکومت کو صبر کر نا چاہیے۔حالات خود منطقی انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔میرا خیال ہے تحریکِ انصاف کوبھی اب کھمبا نہیں نو چنا چاہیے۔اب وہ خیبر پختون خوا پر تو جہ دیں۔ چار سال محنت کریں اور زبانِ حال سے قوم کو بتائیں کہ وہ اس ملک کو بہتر قیادت دے سکتے ہیں۔قوم نے اس انقلاب کا ساتھ دینے سے تو انکار کر دیا جوزیادہ سے زیادہ چوہدری نثارعلی خان کی جگہ غلام سرورخان صاحب کا تحفہ دے سکتا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved