جمہوریت کو نقصان پہنچا تو ذمہ دار مارچ
کرنے والے ہوں گے... شہباز شریف
وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''جمہوریت کو نقصان پہنچا تو ذمہ دار مارچ کرنے والے ہوں گے‘‘ کیونکہ اگر جمہوریت کو نقصان پہنچتا ہے تو ساتھ ہی یہ نوزائیدہ بادشاہت بھی ''لغی‘‘ جائے گی اور یہ غنچہ بن کھلے ہی مرجھا جائے گا اور صرف حسرت باقی رہ جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ''گوجرانوالہ کا ناخوشگوار واقعہ افسوسناک ہے‘‘ لیکن یہ زیادہ ناخوشگوار بھی ہو سکتا تھا‘ اس لیے اطمینانِ قلب کا باعث بھی ہے‘ البتہ گلو بٹ کے بعد یہ جو پومی بٹ منظرعام پر آ گیا ہے‘ یہ بات واقعی تشویشناک ہے کیونکہ اس سے حکومتی شہرت پر کافی بُرا اثر پڑا ہے‘ جو پہلے بھی کوئی خاصی اچھی نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ ''جلد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا‘‘ جبکہ دودھ ہم زہرمار کر لیں گے اور پانی رعایا کے کام آئے گا جو پہلے سے ہی صاف پانی کی قلت سے دوچار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ذمہ داروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی‘‘ اور قانون کی پاسداری اور بالادستی کے اس دور میں کسی کو اس بارے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے‘ نہ ہی قانون کسی پریشانی میں مبتلا ہو کہ اس کے خلاف کوئی بدسلوکی کی جائے گی۔ آپ اگلے روز دنیا نیوز اور وفود سے بات چیت کر رہے تھے۔
حکومت ختم ہوئی تو آئین کی
پیروی کریں گے... گیلانی
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''لانگ مارچ کے نتیجے میں حکومت ختم ہوئی تو آئین کی پیروی کریں گے‘‘ اور شریف آدمیوں کی طرح خاموش رہیں گے کیونکہ آئین ایسے موقعوں پر احتجاج وغیرہ کی اجازت نہیں دیتا۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت نے کنٹینر لگا کر لانگ مارچ سے غلط طریقے سے نمٹنے کی کوشش کی‘‘ جبکہ اپنے دور میں ہم نے ہر کام صحیح طریقے سے کیا اور ماشاء اللہ کرتے ہی چلے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ''تاہم‘ اسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا‘‘ لیکن ماشاء اللہ ہمیں آخر تک نہیں ہوا کیونکہ ہم جو کچھ کر رہے تھے اسے غلطی سمجھ ہی نہیں رہے تھے بلکہ اپنے حق کے طور پر سب کچھ کر رہے تھے اور سمجھتے تھے کہ اگر حلوہ ہی نہیں کھانا تو پھر اندھے کس لیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''14 اگست کی تقریبات منعقد کر کے حکومت یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ فوج اس کے ساتھ ہے‘‘ اگرچہ واقعتاً بھی ایسا ہی لگتا ہے کیونکہ لانگ مارچ والے اتنا کچھ کر رہے ہیں اور ان کی توقعات ہی پوری نہیں ہو رہی ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
نوازشریف کی تصاویر کی بے حرمتی پر
کارکن مشتعل ہوئے... پرویز رشید
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''نوازشریف کی تصاویر کی بے حرمتی پر کارکن مشتعل ہوئے‘‘ کیونکہ صاحبِ موصوف کی اِدھر اُدھر جو عزت افزائی ہو رہی ہے‘ انہیں اس پر زیادہ مشتعل ہونا چاہیے تھا لیکن شاید وہ اسے روٹین کا معاملہ سمجھ کر خاموش ہو جاتے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''شرط لگاتا ہوں عمران خان چار دن بھی کارکنوں کے ساتھ نہیں سو سکتے‘‘ حالانکہ ہمارے قائد ہر صورت میں گہری نیند سو سکتے ہیں کیونکہ کھانا کھانے کے بعد ان کے نزدیک سونے جاگنے کا فرق ہی باقی نہیں رہتا۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان کو صرف شیخ رشید سے خطرہ ہے‘‘ جبکہ ہمیں ماشاء اللہ ہر طرف سے خطرہ ہے لیکن ہم ڈٹے ہوئے ہیں۔ اگرچہ اس طرح ڈٹ جانے کا نتیجہ پہلے بھی بھگت چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''یہ روایت ختم ہونی چاہیے کہ اگر عمران خان یا طاہرالقادری قتل ہو گئے تو مقدمہ نوازشریف کے خلاف قائم کیا جائے گا‘‘ کیونکہ یہ بات اگر اتنی آسان ہوتی تو سانحہ ماڈل ٹائون میں 14 افراد کے قتل کا مقدمہ شہباز شریف ہی کے خلاف درج کروا کر رکھ دیا جاتا۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں گوجرانوالہ کے واقعہ پر ردعمل ظاہر کر رہے تھے۔
خانہ جنگی شروع‘ فوج کو مداخلت
کرنا ہی پڑے گی... شیخ رشید
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ اور رکن قومی اسمبلی شیخ رشید احمد نے کہا ہے کہ ''خانہ جنگی شروع ہو چکی ہے‘ اس لیے فوج کو مداخلت کرنا ہی پڑے گی‘‘ اور اگر اب بھی فوج مداخلت نہیں کرتی تو میرا خیال ہے کہ مجھے پیشین گوئیوں کا یہ سلسلہ ترک کر کے کوئی اور دھندہ شروع کرنا چاہیے۔ سمجھ نہیں آتی کہ اس ملک کا آخر بنے گا کیا۔ انہوں نے کہا کہ ''گوجرانوالہ میں مشتعل افراد نے عمران خان کے کنٹینر پر 36 منٹ تک فائرنگ کی‘‘ حالانکہ اس کام کے لیے پندرہ بیس منٹ ہی کافی ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان کے کنٹینر سے پٹرول نکال لیا گیا‘‘ اور اس کے بعد وہ کنٹینر اپنی اخلاقی قوت کے سہارے ہی چلتا رہا جو اسے میں نے مہیا کر رکھی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ''ابھی میں عمران خان کو خطرے سے آگاہ کر ہی رہا تھا کہ ہم پر حملہ ہو گیا‘‘ اور‘ اگر میں یہ کام نہ کرتا تو شاید یہ حملہ نہ ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ''اب مجھے یقین ہو چکا ہے کہ قربانی ہر صورت ہو کر رہے گی‘‘ جس کا آغاز اس طرح سے ہوا ہے کہ طاہرالقادری کی سرداری کی وجہ سے میں ان کا مارچ چھوڑ کر عمران خان کے مارچ میں شامل ہوا تھا اور اس طرح عوامی تحریک کا مارچ حملے سے بچ گیا۔ آپ اگلے روز گوجرانوالہ میں اس واقعے کے بعد میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
تشدد کی سیاست قابل نفرت
اور لائقِ مذمت ہے... منظور وٹو
پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر میاں منظور احمد خاں وٹو نے کہا ہے کہ ''تشدد کی سیاست قابلِ نفرت اور لائق مذمت ہے‘‘ جبکہ مختلف تقریبات کے دوران کارکنوں کا اپنے مخلص لیڈروں کے خلاف تشدد پر اتر آنا اس سے بھی زیادہ قابل مذمت ہے جس سے میں کئی بار بال بال بچا ہوں حالانکہ جو کچھ اپنے دور میں ہم نے کیا وہ اجتماعی طور پر ہی برسرِکار لایا گیا تھا لیکن اس سارے کی کسر مجھ پر نکالی جا رہی ہے‘ اور کافی حد تک نکل بھی چکی ہے‘ اس لیے اب تو کارکن حضرات کو صبر اور امن و امان کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان کے جلوس پر حملہ کرنے والوں کی شناخت مشکل نہیں‘‘ حتیٰ کہ خاکسار پر حملہ کرنے والوں کی شناخت بھی بہت آسان تھی لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت کی طرف سے سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکامی کسی طرح بھی قابلِ معافی نہیں‘‘ جبکہ اس کے علاوہ میں خود حکومت سے سکیورٹی کا طلبگار ہوں کیونکہ میرے ساتھ بھی کارکن یہ سلوک دوبارہ کسی وقت بھی کر سکتے ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں معمول کا بیان جاری کر رہے تھے۔
آج کا مطلع
مانا گل و گلزار پہ رعنائی وہی ہے
منظر تو بدل دے کہ تماشائی وہی ہے