یہ کالم ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ایک تحریر ہے۔ بظاہر ہر ٹکڑا دوسرے سے مختلف ہے مگر ان کا آپس میں ایک گہرا تعلق ضرور ہے۔ آپ چاہیں تو ان کو پڑھ کر ایک ہی تناظر میں دیکھیں تو خودبخود ایک تصویر بن جائے گی۔ لفظوں کے اس پہلے ٹکڑے کے راوی ہمارے دو ملازم ہیں۔ ایک سرکاری جمعدار اور دوسرا لڑکا گاڑی دھونے والا۔ ظاہر ہے دونوں ہی غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔جن دنوں یہاں لاہور میں یوم شہدا منانے کے لیے عوامی تحریک اور حکومت وقت کے درمیان ایک کھینچا تانی جاری تھی‘ ان دنوں میں گاڑی دھونے والا ملازم بابر آیا تو اس نے بتایا کہ ''عوامی تحریک والے‘ ایک دن رات دھرنے میں بیٹھنے کا پانچ ہزار دے رہے ہیں۔ میرے کچھ جاننے والے ایک دن کا معاوضہ اتنا زیادہ سن کر خوشی خوشی‘ ان کے دھرنے میں شریک ہونے چلے گئے ہیں۔‘‘ بابر سے پوچھا پھر تم کیوں نہ گئے۔ آخر کو تم بھی تو دیہاڑی دار مزدور ہو اور ابھی پاکستان میں معاشی حالات ایسے شاندار نہیں ہوئے کہ مزدور کو ایک دن کی دیہاڑی پانچ ہزار ملے۔ تو اس پر بابر نے جواب دیا ''وہ جی میں نے سنا تھا کہ وہاں پر دہشت گردی کا خطرہ ہے۔ بس اسی ڈر سے ماں نے نہیں جانے دیا‘‘۔
اسی قسم کی بات روزانہ جھاڑو لگانے والے سرکاری جمعدار عنایت نے بھی کی۔ اس نے تو علامہ قادری کے دھرنے میں شرکت کرنے والوں کے دو مختلف پیکیجز کے بارے میں بتایا۔ ایک پیکیج یہ ہے کہ پورے دن رات کا پانچ ہزار‘ کھانا پینا خود اپنی جیب سے۔ دوسرا پیکیج ہے 24 گھنٹے کا پانچ سو اور کھانا پینا تحریک والوں کے ذمے۔ عنایت نے بتایا کہ بہت سے دیہاڑی دار مزدور دھرنے میں شریک ہونے خوشی خوشی اسلام آباد چلے گئے ہیں۔ یہ ہے علامہ طاہر القادری کا انقلاب اور یہ ہے پاکستان جہاں انقلابیوں کو کرائے پر بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جن دھرنوں میں ایسے انقلابیے شریک ہوں اُن کی کوکھ سے تبدیلی جنم نہیں لے سکتی۔
تحریر کے دوسرے ٹکڑوں کا راوی لاہور کا ایک بدقسمت شہری ہے۔ اس کی کہانی بہت افسوسناک ہے۔ یہ صاحب ہمیں کہاں ملے یہ بھی بہت دلچسپ اتفاق ہے۔ کل ایک بیکری پر کچھ سامان لینے کے لیے گئے تو ایک صاحب چند لوگوں سے گفتگو کرتے ہوئے حکومتِ وقت اور احتجاجیوں کو جھولی اٹھائے بددعائیں دے رہے تھے۔ کہہ رہے تھے کہ میری بیوی کے قاتل یہ سب ہیں میں کہاں سے انصاف لوں۔ استفسار پر انہوں نے بتایا کہ 10 اگست کو جب علامہ طاہرالقادری ماڈل ٹائون میں یوم شہدا منا رہے تھے اور ان کے کارکنوں اور پنجاب پولیس کے درمیان دوبدو جھڑپیں شہر لاہور کی سڑکوں پر جاری تھیں، حکومت نے تحریکی کارکنوں کی ماڈل ٹائون آمدورفت کو کچلنے کے لیے شہر کو جگہ جگہ کنٹینروں کے ساتھ بند کر رکھا تھا، اس وقت وہ بدقسمتی سے اپنی بیوی کے ہمراہ ایک ضروری کام کے سلسلے میں رائے ونڈ روڈ سے آ رہے تھے۔ ایونیو ون کے چوک پر جب ان کی موٹرسائیکل سرخ بتی پر رُکی تو ایک تیز رفتار گاڑی نے انہیں ٹکڑ ماردی جس سے ان کی اہلیہ دور جاگریں اور وہ خود بھی زخمی ہوگئے۔ چیخ و پکار شروع ہو گئی۔ وہ بتاتے ہیں کہ میں نے بہت کوشش کی کہ تکلیف سے کراہتی اہلیہ کو جلد سے جلد جناح ہسپتال پہنچائوں لیکن ہسپتال کو جانے والے تمام راستے بند تھے۔ میں راستے کھلوانے کے لیے جگہ جگہ فون ملاتا رہا کہ کوئی میری بات سُن لے۔ کبھی کسی ٹی وی چینل کو خبر دی‘ کبھی کسی اخبار والے کی مدد چاہی‘ پولیس کے سامنے واویلا کیا خدارا مجھے میری بیوی کو ہسپتال پہنچائو۔ 1122 کی مدد چاہی مگر کوئی میری مدد نہ کر سکا۔ اُن سب کا جواب یہی تھا کہ جناح ہسپتال کے راستے کنٹینر لگا کر بند کیے گئے ہیں‘ گاڑیوں کی آمدورفت نہیں ہو سکتی۔ میری بیوی درد سے کراہتی رہی‘ میں شور مچاتا رہا اور میری بیوی میرے سامنے دم توڑ گئی۔
یہ واقعی انتہائی افسوسناک حادثہ تھا جو 10 اگست کو پیش آیا۔ قسمت میں جو ہونا ہو وہ ہو کر رہتا ہے لیکن ایک شہری اس وجہ سے اپنی بیوی کو ہسپتال نہیں لے جا سکا کہ حکومت پنجاب نے بغیر شہریوں کی تکلیف اور اذیت کی پروا کیے صرف سیاسی انتقام میں جگہ جگہ سے شہر کو بند کر رکھا تھا۔ اگر یہ حادثہ کسی مہذب ملک میں پیش آتا جہاں شہری حقوق کو حکومتیں مقدم رکھتیں ہیں تو وہاں ایسے حادثے پر ایک ہنگامہ برپا ہو جاتا لیکن یہ پاکستان ہے جہاں مقتدر اشرافیہ کو سیاسی مفادات اور انائیں مقدم ہوتی ہیں اور ان انائوں کے تلے عوام کے بنیادی حقوق بہت آسانی سے کچلے جاتے ہیں۔
تحریر کا تیسرا ٹکڑا آزادی مارچ کے متعلق ہے۔ جو رینگتا ہوا 36گھنٹوں بعد بالآخر اسلام آباد پہنچا تو موسلادھار بارش ہو رہی تھی۔ عمران خان نے بارش میں بھیگتے ہوئے کارکنوں سے خطاب کیا اور ہمیشہ کی طرح جذباتی نعروں اور جذباتی دعووں سے جلوس کے جذبات اور ولولوں کو گرمانے کی کوشش کی۔ اس کامیاب کوشش کے بعد وہ تو فاتحانہ انداز میں بنی گالہ اپنی رہائش گاہ پر آرام کرنے چلے گئے۔ ابھی فضا میں ان کے دعوئوں کی گونج باقی تھی کہ جو انہوں نے اپنے ورکروں سے خطاب کے دوران کیے تھے۔ عمران خان نے بڑے جذباتی انداز میں کہا تھا کہ میں تمہارا ساتھ نہیں چھوڑوں گا۔ وعدہ کرتا ہوں تمہارے ساتھ کھائوں گا‘ تمہارے ساتھ سوئوں گا۔ خیر یہ دعوے تو سیاسی دعوے ہی رہے۔ خبر یہ بھی ہے کہ ان کے ہمراہ آزادی مارچ کے چیدہ چیدہ رہنما بھی بنی گالہ پہنچے۔ بارش موسلادھار تھی اور مارچ میں شریک ہر شخص کسی پناہ کی تلاش میں تھا۔ سیاسی اشرافیہ جو بہ امر مجبوری دھرنے اور لانگ مارچ کی بے آرامی برداشت کر رہی تھی اس نے اپنے سٹیٹس کے مطابق مہنگے ہوٹلوں میں پناہ لینے کو غنیمت جانا۔ کچھ ایم این ایز اور ایم پی ایز پارلیمنٹ لاجز میں چلے گئے۔ پرویز خٹک کے لیے اسلام آباد کا وزیراعلیٰ ہائوس (فرنٹیئر ہائوس) موجود تھا۔ رہ گئے عوام تو وہ غریب دھکے کھاتے‘ بارش
سے بچنے کے لیے پناہ گاہیں تلاش کرتے رہے۔ یہ کالم 16 اگست کی دوپہر کو لکھا جا رہا ہے اور اب تازہ ترین منظر یہ ہے کہ آزادی مارچ کا جلسہ گاہ 10لاکھ لوگوں کا منتظر ہے۔ سہ پہر 3 بجے دھرنے کی کال پر‘ کارکنوں کی واپسی کا امکان ہے۔ تب تک تحریک انصاف کے چیئرمین اپنی شاندار رہائش گاہ میں آرام فرما رہے ہیں۔ ویسے تو سیاسی قائدین ہمیشہ سے عوام کے ساتھ یہی سلوک کرتے آئے ہیں لیکن نیا پاکستان بنانے کا دعویٰ کرنے والے عمران خان سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ اس طرح اپنے ورکرز کو خوار کریں گے۔ دوسری جانب ان کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی خیبرپی کے عوام کے مسائل سے پہلو تہی بھی کمال ہے۔ کل پشاور میں طوفانی بارشوں سے 16 افراد جاں بحق اور سو سے زائد زخمی ہوئے۔ ایسے حالات میں اس صوبے کا وزیراعلیٰ اور پی ٹی آئی کی تمام صوبائی قیادت دھرنے میں شریک پشتو گانوں پر رقص کر رہی تھی۔ وزیراعلیٰ ان گانوں کے بولوں میں گم‘ سگریٹ پیتے ہوئے‘ موسم سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ ان کی جانب سے یہ بے حسی انتہائی افسوسناک ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ خبر سن کر وہ بذریعہ ہیلی کاپٹر پشاور پہنچتے۔ انتظامات کا جائزہ لیتے پھر وہ اسلام آباد مارچ میں شرکت کے لیے آ جاتے لیکن انہوں نے صرف اپنے صوبائی وزیر صحت کو ہی پشاوربھیجنے پر اکتفا کیا ۔اس سارے سیاسی ہنگامے میں عوام صرف ایک مہرے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ یہی پاکستان کا سیاسی کلچر ہے جہاں انقلاب‘ احتجاج اور دھرنوں کے لیے کرائے پر سپورٹرز آسانی سے دستیاب ہوں‘ وہاں کسی حقیقی تبدیلی کی امید لگانا ایک خام خیالی ہے۔