گوجرانوالہ میں تحریکِ انصاف پہ حملہ محض اتفاق اور وقتی اشتعال نہیں ، باقاعدہ منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے ۔ یہاں لیگی قیادت ایسے معززین کے سپرد ہے ، جن کی سیاسی بقا زورِ بیاں کی بجائے زورِ بازو کی مرہونِ منّت ہے ۔ نون لیگ کے سابق ممبر پنجاب اسمبلی ایس اے حمید نے تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کی تو ان کی نگرانی میں چلنے والے رفاہی ادارے پہ قبضہ ابھی کل ہی کی توبات ہے ۔ابھی کل کی بات ہے کہ میڈیا میں شور مچا اور وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف نے واقعے کا نوٹس لیا۔ اب آزادی مارچ پہ حملے کا نوٹس۔ نوٹس پہ نوٹس۔ نوٹس پیدا کرنے والی مشینری جب تک محض نوٹس ہی لے گی، یہ تماشہ جاری رہے گا۔ برسبیلِ تذکرہ ایسے کن ٹٹے تحریکِ انصاف کی صفوں میں بھی موجود ہیں ۔ پارٹی کی اگر تطہیر نہ کی گئی تو ایک دن وہ باعثِ شرمندگی ہوں گے ۔
میں نے عدلیہ بحالی تحریک کے پہلے لانگ مارچ کو اسلام آباد میں داخل ہوتے دیکھا ہے ۔ تاحدِ نگاہ انسانی سر ، گاڑیوں کے قافلے ختم ہونے کا نام نہ لیتے تھے۔انتخابات سے قبل اقبال پارک لاہور میں تحریکِ انصاف کے دوسرے جلسے کا حال بھی یہی تھا۔ خدا لگتی یہ ہے کہ جمعے کی شب آزادی مارچ میں شرکا کی تعداد کم تھی لیکن عین ممکن ہے کہ ہفتے کے دن اور اگلے چند روز میں خلقِ خدا وہاں ٹوٹ پڑے ۔عمران خان خالی ہاتھ تو لوٹ جانے کے نہیں لیکن اگر واقعتاًوہ شریف حکومت گرادینا چاہتے ہیں تو یہ بہت قبل از وقت ہے ۔کم از کم اڑھائی تین برس کے بعد ہی کسی حکومت کی مکمل ناکامی کا تاثر پختہ ہو تاہے ۔آج سے ایک ڈیڑھ سال بعد اگر عمران خان میدان میں اترتے تو شاید دو گنا پرجوش حامی انہیں میسّر آتے ۔ فی الحال عوام کی ایک بڑی تعداد حکومت کو مہلت دینا چاہتی ہے ۔ مہلت دینا اور آزمانا چاہتی ہے ۔
ایک طویل عرصے بعد جماعتِ اسلامی قومی سیاست میں ایک بڑا مثبت کردار ادا کررہی ہے اور یہ خوش آئند ہے ۔ مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق جیسی ہستیوں کے برعکس سراج الحق اپنا قد کاٹھ بڑھانے کی بجائے واقعتاً مصالحت چاہتے ہیں۔ مشکوک حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی ، سپریم کورٹ کے مجوّزہ کمیشن کی جلد از جلد تشکیل،90روز میں انتخابی اصلاحات کمیٹی کی تجاویزاور الیکشن کمیشن کی تشکیلِ نو سمیت، ان کے پانچ نکاتی ایجنڈے پہ نون لیگ کو اتفاق اور تحریکِ انصاف کو اکتفا کرلینا چاہیے۔ ایک تجویز اور ہے : ہر صورت اور ہر قیمت پر جلد از جلد ایسے الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کی تنصیب، دھاندلی کو جو ناممکن بنا دے۔ بالکل اسی طرح ، جیسے ایک اے ٹی ایم مشین سے روپیہ چرانا نا ممکن ہوتاہے۔ سابق چیئرمین نادرا طارق ملک کے خلاف مقدمات کے خاتمے اور اتفاقِ رائے سے انہی جیسے کسی دیانتدار افسر کی اس عہدے پہ تقرری بھی مفاہمت کا حصہ ہونا چاہیے۔ یہ وہ بہترین صورت ہے ، دونوں جماعتوں کو جو محاذ آرائی‘ سیاسی شکست اور شرمندگی سے بچا سکتی ہے ۔ دس حلقوں کی جانچ پڑتال اور سپریم کورٹ کے کمیشن پہ حکمران جماعت پہلے ہی اتفاق کر چکی ہے ۔ جہاں تک وزیرِ اعظم کے استعفے اور نئے انتخابات کا تعلق ہے ،یہ خواب و خیال کی باتیں ہیں ۔کسی صورت ایسا ممکن نہیں۔
ایک نفسیاتی گرہ علّامہ طاہر القادری کے انقلاب کی جڑ ہے ۔ یہ کہ انتخابی سیاست میں ''شیخ الاسلام‘‘ بری طرح ناکام رہے ۔ اب وہ یہ نظام ہی اکھاڑ پھینکنا چاہتے ہیں ، جس نے ان جیسی پاکیزہ ہستی کو مسترد کرنے کی جرأت کی۔ حدود آرڈیننس پہ پاکستان کے اندر اور بیرونِ ملک متضاد بیانات سمیت، ان کے تضادات فلک شگاف ہیں لیکن عقیدت کے قیدیوں کو یہ بات کون سمجھائے؟ اس دور کے استاد کا قول یہ ہے : عقیدت اور جہالت کا آغاز ایک ساتھ ہوتاہے ۔میرا وجدان کہتاہے کہ اب کی بار علّامہ صاحب کینیڈا لوٹے تو حالات کا جبر پاکستانی سیاست سے انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بے دخل کر دے گا۔ پھر شاید وہ مزید ایک ہزار کتابوں کے مصنف ڈھونڈتے پھریں ۔
کارِ سیاست سیاستدانوں کو زیبا ہے ۔ معزز ججوں کو جلد اور فوری انصاف پہ اپنی تمام تر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ کوئی عدالتی فیصلہ کسی لانگ مار چ کو روک سکتاہے اور نہ جج حضرات چینی کی قیمت بیس روپے کلو مقرر فرما سکتے ہیں ۔ مہم جوئی کی ایک قیمت ہوتی ہے ۔ حوالے کے لیے ملاحظہ ہوں جسٹس افتخار محمد چوہدری ۔ جہاں تک مارشل لا کا تعلق ہے ، میرا نہیں خیال کہ فوجی قیادت اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ایسی حماقت کا ارتکاب کرے گی ۔ بالفرضِ محال اگر ایسا ہواتو چند ماہ کے اندر فعال طبقات ایسی حکومت کے خلاف ڈٹ جائیں۔ اس دور سے ہم بہرحال گزر چکے ، جہاں ایک عشرے کی طویل فوجی حکومتیں گوارا کی جاتیں ۔ خدانخواستہ ملک ہنگامہ آرائی کی جانب بڑھا تو زیادہ سے زیادہ ایک مختصر سی مداخلت ہو سکتی ہے ، جس کے بعد ایک بار پھر سیاسی قوّتوں ہی کو آگے بڑھنا ہوگا۔
پاکستانی سیاست کا خلا بڑھتا ہی چلا جار ہا ہے ۔ ایم کیو ایم ، اے این پی اور جماعتِ اسلامی جیسی تنظیمیں ہمیشہ سے زیادہ کمزور ہیں ۔ پیپلزپارٹی کا صرف نام باقی ہے۔ شریف حکومت کی یہ خام خیالی ہے کہ خاندانی طرزِ حکومت اور من مانی کا راج زیادہ عرصے گوارا کیا جا ئے گا۔ زیادہ عرصہ تحریکِ انصاف اپنی کمزور تنظیم پہ کھڑی رہ نہیں سکتی، جس میں بدترین کو بہترین پہ فوقیت حاصل ہو۔ پی ٹی آئی ایک نئی جماعت ہے ۔ زیادہ تیزی سے وہ اصلاح قبول کر سکتی ہے مگر عمران خان کا بے لچک روّیہ ؟ پھر یہ کہ اپنے لشکر کی تنظیم اور تربیت کے بغیر ہی وہ مخالف سپاہ کو زیر کرنا چاہتے ہیں ۔ ہتھیلی پہ سرسوں کہاں اگتی ہے ۔ غیر معمولی دیانت اور طلسماتی شخصیت کے باوجود انہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ معمولی سمجھ بوجھ کے آدمی ہیں ۔ اپنی حکمتِ عملی مرتّب کرتے ہوئے ایسے دانا لوگوں سے انہیں مشورہ کرنا چاہیے، انتخابی سیاست اور کسی حکومتی عہدے کے جو خواہشمند نہ ہوں ۔