تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     18-08-2014

انقلاب کی آنیاں جانیاں

جب یہ کالم چھپ کر آپ کے ہاتھوں میں آئے گا تب تک یہ عاجز ملتان سے اسلام آباد پہنچ چکا ہوگا اور اگر آپ اخبار علی الصبح پڑھتے ہیں تب انقلاب کی ڈیڈ لائن تقریباً اٹھارہ گھنٹے کی دوری پر ہوگی اور اگر آپ دیر سے اخبار کھولتے ہیں تو یہ ڈیڈلائن آپ کی سستی کے حساب سے مزید قریب آ چکی ہوگی۔ میں اس تاریخی لمحے میں حصہ دار بننے کے لیے خصوصی طور پر ملتان سے اسلام آباد جا رہا ہوں تاکہ انقلاب کے تاریخی واقعے کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے سے محروم نہ رہ جائوں۔ یہ عاجز انقلاب بہرحال ضرور دیکھے گا۔ اگر آتے نہ دیکھ سکا تو کیا ہوا؟ کم از کم جاتے ہوئے ہی دیکھ لے گا۔ انقلاب تو ہر حال میں انقلاب ہی ہوتا ہے خواہ آ رہا ہو یا جا رہا ہو۔ یہ ایک تاریخی موقع ہوگا۔ یہ عاجز وزیراعظم اور پنجاب کے وزیراعلیٰ کو مستعفی ہو کر حوالہ حوالات ہوتے‘ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو ازخود تحلیل ہوتے‘ ملک کو بلا حکومت اور بغیر کسی آئینی عبوری سیٹ اپ کے‘ غیبی امداد یا ہدایت پر نامعلوم قسم کی انقلابی حکومت کو برسراقتدار آتے ہوئے دیکھے گا۔ یہ تاریخ عالم کا سب سے انوکھا اور محیر العقول واقعہ ہوگا اور اس سے محروم رہ جانا سوائے بدقسمتی اور کچھ نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ میں اس تاریخی لمحے کا عینی شاہد بننے کے لیے ملتان سے اسلام آباد روانہ ہو رہا ہوں۔ یہ کالم تو صبح شائع ہوگا مگر میں انشاء اللہ رات ہی اسلام آباد پہنچ جائوں گا اور مورخہ اٹھارہ اگست رات بارہ بجے تک تو اسلام آباد میں ہی قیام کروں گا کہ یہی ''ڈیڈ لائن‘‘ کا وقت مقرر ہے۔ 
شاہ جی کہنے لگے‘ اگر اٹھارہ اگست رات بارہ بجے تک انقلاب نہ آیا تو تم کیا کرو گے؟ میں نے کہا‘ میں نے کیا کرنا ہے؟ میں انقلاب کو اگر آتے ہوئے نہ دیکھ سکا تو کم از کم جاتے ہوئے تو ضرور دیکھوں گا۔ شاہ جی فرمانے لگے‘ اگر مولانا نے حسبِ معمول ڈیڈلائن میں توسیع کردی تو پھر کیا کرو گے؟ میں نے کہا کہ میں ان کا پیروکار یا مرید تو ہوں نہیں کہ ان کی ہر بات پر یقین کروں اور ان کی کہہ مکرنیوں کو ان کی حکمت عملی اور ان کے دعوے در دعوے کی عادت کو مرشد کا حکم سمجھ کر قبول کروں۔ اگر انہوں نے ڈیڈ لائن میں توسیع فرمائی تو میں پھر مجبوراً واپس ملتان آ جائوں گا۔ مجھے اس تاریخی واقعے کو بذات خود دیکھنے سے محرومی کا قلق تو ضرور رہے گا مگر میں غیر معینہ مدت کے لیے صرف قادری صاحب کے وعدوں اور دلاسوں پر تو اسلام آباد نہیں بیٹھا رہ سکتا۔ اگر قادری صاحب اپنے سابق دھرنے کی طرح مریدوں کو لارا لگا کر دوسری بار پھر کینیڈا روانہ ہو گئے تو یہ عاجز کہاں جائے گا؟ ان کے مریدوں کی تو خیر بات ہی دوسری ہے۔ قادری صاحب دنیا کے ان چند خوش قسمت ترین لوگوں میں سے ہیں جنہیں دنیا کے سب سے بے لوث‘ مخلص‘ معصوم اور ذاتی سوچ و بچار سے عاری معتقدین ملے ہیں۔ اگر وہ اس بار بھی دھرنے سے ناکام و نامراد اٹھ کر کینیڈا چلے گئے تو انہیں رتی برابر فرق نہیں پڑے گا۔ وہ اگلی بار‘ اس سے اگلی بار اور اس سے مزید کئی اگلی بار بھی کینیڈا سے آ کر ان کو لانگ مارچوں اور دھرنوں میں بلاتے ہیں تو وہ آئندہ بھی ہر بار اسی جوش و جذبے سے آئیں گے۔ انہیں اپنے مرشد کے دعوے‘ وعدے‘ اعلانات اور احکامات پر یقین کامل ہے اور وہ انہیں اپنے دعوے سے پھر جانے پر‘ وعدے سے مکر جانے پر‘ اعلان سے ہٹ جانے پر اور حکم کے واپس لے لینے پر نہ تو کوئی سوال کرتے ہیں اور نہ بے اعتباری کرتے ہیں۔ انہیں اپنے مرشد کے ہر حکم سے اور اس کے واپس لے لینے سے‘ وعدہ کرنے اور وعدے سے مکر جانے سے‘ دعویٰ کرنے اور دعوے سے پھر جانے سے اور اعلان کرنے اور اعلان سے ہٹ جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ان کا اعتبار‘ ایمان اور جذبہ کمزور نہیں پڑتا۔ وہ معتقدین کی اس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنے مرشد کی ہر بات پر اندھا یقین رکھتے ہیں اور ان کی بظاہر خامیوں اور کمزوریوں کو بھی راز اور رمز قرار دے کر خوبیاں تصور کرتے ہیں۔ عمران خان ایسے معتقدین سے محروم ہے۔ وہ سیاسی ورکروں کا لیڈر ہے جبکہ قادری صاحب جذباتی مذہبی معتقدین کے رہنما ہیں۔ سیاسی ورکروں اور مذہبی دیوانوں میں بنیادی فرق یہ ہوتا ہے کہ سیاسی ورکر اپنے لیڈر کا جائزہ لیتا ہے اور احتساب کرتا ہے جبکہ مذہبی معتقدین صرف اور صرف اعتقاد اور یقین کے سہارے زندگی گزارتے ہیں۔ 
اب میں صرف ایک واقعہ بیان کروں گا۔ قادری صاحب نے عالم رویا میں امام ابوحنیفہؒ سے براہ راست علم حاصل کیا‘ ان سے پڑھا اور ان کی شاگردی میں رہے۔ اس سلسلے میں وہ یہ واقعہ خود اپنی زبان سے یوں بیان کرتے ہیں۔ ''میری حنفیت کا عالم تو یہ ہے کہ میں نے تو عالم رویا میں کوئی پندرہ بیس سال کے لگ بھگ کا عرصہ امام اعظمؒ کی شاگردی کی‘ آپ سے پڑھا۔ عالم رویا میں براہ راست تلمذ کا شرف ملا ہے۔ عالم رویا میں بطریق منام (خواب میں)۔ 
تو میں مر سکتا ہوں حنفیت کیسے چھوڑ سکتا ہوں؟ میں تو ان کا کف بردار ہوں۔ ان کے جوڑے اٹھانے والا ہوں۔ میرا تو جینا‘ مرنا امام اعظمؒ کے قدم کے نشان پر ہے‘‘۔ یہ ان کا ایک بیان ہے۔ صرف دو ماہ بعد حیدرآباد میں ان کا بیان ملاحظہ فرمائیں۔ ''میں عالم رویا میں‘ خواب میں‘ عالم رویا میں۔ اللہ کی عزت کی قسم‘ تاجدارؐ کائنات کے نعلین پاک کی قسم‘ عالم رویا میں نو سال تک امام اعظم ابو حنیفہ سے پڑھا ہوں‘‘۔ اب آپ دیکھیں کہ ایک بیان میں پندرہ بیس سال اور دوسرے بیان میں اللہ کی عزت اور تاجدارؐ کائنات کے نعلین پاک کی قسم کھا کر یہ مدت نو سال کردی۔ کسی مرید سے‘ مقلد سے پوچھیں تو اس کی ڈیڑھ سو تاویلات اور اڑھائی سو وجوہ بیان کردے گا۔ ان کی اس بات سے ایک پرانا لطیفہ یاد آ گیا۔ ایک صاحب غلط بیانی کے بادشاہ تھے اور اوپر سے ان کی یادداشت بھی کمزور تھی۔ تھوڑی دیر پہلے کی گئی بات یاد نہیں رہتی تھی مگر گپیں مارنے سے باز نہیں آتے تھے۔ ایک واقعہ سناتے ہوئے کہنے لگے۔ جب سیلاب کا اعلان ہوا‘ میں نے گھروالوں سے کہا کہ مال و دولت کی خیر ہے جان کی خیر ہونی چاہیے۔ میں نے گھروالوں کو کہا کہ بس سب کچھ چھوڑیں یہیں پر اور فوراً مرسڈیز میں سوار ہو جائیں۔ جب ہم گھر سے نکلے تو تھوڑی دیر میں ہی پانی شہر میں داخل ہو گیا اور چند ہی منٹ میں پانی ہماری جیپ کے بونٹ تک پہنچ گیا۔ ابھی ہم لوگ اگلے چوک تک پہنچے ہی تھے کہ ہمارا تانگہ پانی میں ڈوب گیا۔ 
قادری صاحب کے انقلاب کا نقشہ اور منظرنامہ بھی انوکھا ہے۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کا استعفیٰ پہلی شرط ہے۔ یعنی پہلے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ مستعفی ہو جائیں‘ پھر اسمبلیاں تحلیل کی جائیں۔ آئین کے آرٹیکل (1)58 کے تحت ''صدر قومی اسمبلی توڑے گا‘ اگر وزیراعظم اسے بایں طور مشورہ دے‘‘۔ اسی طرح صوبائی اسمبلی توڑنے کے لیے آئین کے آرٹیکل (1)112 کے تحت ''گورنر اسمبلی کو توڑ دے گا اگر وزیراعلیٰ اسے ایسا مشورہ دے‘‘۔ یعنی اسمبلیاں توڑنے کے لیے وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کی ہدایت ضروری ہے اور وہ تبھی یہ ہدایت جاری کر سکتے ہیں اگر وہ موجود ہوں۔ پھر قادری صاحب اگلے انتخابات پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ بقول ان کے مڈٹرم الیکشن سے یہی لوگ پھر منتخب ہوں گے۔ قادری صاحب کا انقلاب انتخابات بھی نہیں مانتا اور حکومت بھی مانگتا ہے۔ وہ جمہوریت کی بات بھی کرتے ہیں اور جمہور کو حکمران منتخب کرنے کا حق بھی دینے پر تیار نہیں۔ ان کے مطالبات ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ان کی سوچ اور مطالبات آئین سے متصادم ہیں۔ وزیراعظم سے استعفیٰ مانگنا یا مطالبہ کرنا بہرحال غیر آئینی نہیں ہے کہ آئین ایسے کسی مطالبے پر کوئی قدغن نہیں لگاتا۔ مگر اسے زبردستی مسلط کرنا بہرطور غیر آئینی ہے۔ 
میں اسلام آباد میں بیٹھ کر انقلاب کا نظارہ کروں گا۔ اگر آتے ہوئے انقلاب کا نظارہ نہ کر سکا تو کم از کم انقلاب کی واپسی کا منظر تو ضرور دیکھوں گا۔ ممکن ہے یہ گنہگار آنکھیں بعدازاں انہیں کینیڈا جاتے ہوئے بھی دیکھیں مگر فی الحال تو انقلاب کی آنیاں جانیاں دیکھنے کے لیے خرچہ کر کے اسلام آباد جا رہا ہوں۔ خدا نہ کرے کہ میرا یہ سارا خرچہ برباد ہو جائے اور میں نہ تو انقلاب کو آتا دیکھ سکوں اور نہ جاتا ہوا... بلکہ انقلاب کی ڈیڈلائن میں اضافہ ہو جائے۔ شاہ جی کا خیال ہے کہ انقلاب کو آتا ہوا دیکھنے سے کہیں زیادہ تاریخی منظر یہ ہوگا کہ میں انقلاب کو واپس جاتا ہوا دیکھوں۔ کہ ایسا منظر شاید ہی پہلے کسی نے دیکھا ہو۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved