اسلام آباد میں آزادی مارچ اور انقلاب مارچ اپنے بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کی تعداد کے حوالے سے بحث جاری ہے، ہرکوئی اپنی عینک لگا کر دیکھ اور اندازے لگا رہا ہے۔ نتیجہ کیا نکلے گا ؟ اس حوالے سے بھی مختلف افواہیں اور خبریں گردش کر رہی ہیں۔ اسلام آباد کے ''خبری‘‘ ( مخبر کی شائستہ شکل ) حلقے پورے تیقن کے ساتھ مختلف دعوے کر رہے ہیں۔ اچھی با ت یہ ہے کہ اس سیاسی اکھاڑے سے باہر موجود سیاسی جماعتیں میچورٹی کا مظاہرہ کرتے ہوئے محض تماشا دیکھنے پر اکتفا نہیں کر رہیں۔ پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی مفاہمت کے لئے سرگرم ہیں۔ پیپلزپارٹی کا یہ رویہ مستحسن ہے۔ مجھے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا انداز سیاست دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی، وہ بڑے پختہ کار اور مدبر سیاستدان نظر آئے۔ جماعت کو عرصے بعد سیاست کے عملی تقاضے سمجھنے والاامیر ملا ہے۔ ان کی کوششیں کامیاب ہوں یا ناکام ،لیکن یہ حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی عرصے بعد قومی سیاست میں اہمیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔
عمران خان کے لانگ مارچ کا کیا بنے گا ؟ ڈاکٹر طاہر القادری اپنے انقلاب مارچ کو کس انجام سے دوچار کرائیں گے ؟ یہ سب بہت جلد واضح ہونے والا ہے۔ آزادی مارچ اور انقلاب مارچ تفصیلی تجزیے کے متقاضی ہیں، ان پر بات ہوتی رہے گی۔ اس ہنگامے میں کئی اہم خبریں دب گئیں ۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے انتخابات ہوئے، جن میں پہلی بار مولانا فضل الرحمٰن کو بطور امیر چیلنج کیا گیا۔ ایسا کرنے والے بھی کوئی غیر معروف شخص نہیں بلکہ جے یوآئی کے نہایت اہم اور سینئر لیڈر مولانا محمد خان شیرانی تھے۔ مولانا شیرانی کو جس طرح منت ترلے کر کے دستبردار کرایا گیا، وہ ایک الگ کہانی ہے۔ جے یوآئی کے اندرسے اٹھنے والی اس آواز پر بہت سوں کو حیرت ہوئی۔ جے یوآئی جس مسلک کا سیاسی چہرہ ہے، اس میں انقلابی روح موجود بلکہ نمایاں ہے، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنی تمام تر انقلابیت کے باوجود اکابر پرستی اس قدر غالب رہی ہے، پارٹی قیادت کے فیصلوں اور رویے سے نالاں ہونے کے باوجود کوئی کھلے عام آواز بلند نہیں کرتا تھا۔ مولانا شیرانی نے یہ روایت توڑ ڈالی۔
جے یوآئی کے انتخابات کی طرح نٹور سنگھ کی کتاب بھی ہمارے ہاں زیربحث نہیں آ سکی۔ نٹور سنگھ سابق بھارتی سول سرونٹ، سیکرٹری خارجہ اور وزیر خارجہ رہے ہیں۔ وہ گاندھی خاندان کے ساتھ طویل عرصہ کام کرتے رہے۔ راجیو گاندھی سے سونیا گاندھی تک انہیں کانگریس کی قیادت کا اعتماد حاصل رہا۔ راجیو گاندھی کے دور میںو ہ وزیر مملکت برائے امور خارجہ تھے۔ دس دن پہلے نٹور سنگھ کی کتاب 'One Life Is Not Enough (ایک زندگی کافی نہیں) شائع ہوئی، اس کے منتخب اقتباسات دو تین ہفتے پہلے سے اخبارات میں چھپ رہے تھے۔ اس کتاب نے بھارت میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ گزشتہ روز روزنامہ دنیا کے سنڈے میگزین میں بھی اس کے مندرجات کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ شائع کی گئی۔
کیریئر ڈپلومیٹ کے طور پر اپنی زندگی کے تیس سال گزارنے والے اور وزارت خارجہ جیسی اہم وزارت پرفائز رہنے والے نٹور سنگھ کہتے ہیں: '' سی آئی اے کے ایجنٹ حکومت کے ہر شعبے میں گھسے ہوئے ہیں۔ امریکیوں کی مداخلت اس حد تک ہے کہ وہ وزارت خارجہ اور وزارت خزانہ جیسی اہم وزارتوں کے لئے بھی اپنی پسند کے بندے چاہتے ہیں ‘‘۔ نٹور سنگھ نے بھارتی جرنلیوں پرکڑی تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ بلند بانگ دعوے کرنے کے عادی ہیں مگر ان کی کارکردگی مایوس کن رہی۔ نٹورسنگھ نے مثال دی کہ 1987ء میں سری لنکا فوج بھیجنے سے پہلے چیف آف آرمی جنرل سوامی نے ڈینگ ماری کہ ہم دو ہفتوں میں تامل ٹائیگرز اور ان کے کمانڈر پربھاکرن کا خاتمہ کر دیں گے، لیکن ہوا اس کے برعکس۔ بقول نٹور سنگھ ''1984ء میں سکھوں کے خلاف آپریشن بلیوسٹاراور آسام میں علیحدگی پسندوں کے خاتمے کے لئے آپریشن بجرنگ ہوا، دونوں بار جرنیلوں نے اسی طرح کے دعوے کئے اور غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے جانی اور مالی نقصان اٹھایا۔ بھارتی جرنیل نجانے کیوں حقائق سے ہمیشہ نابلد رہتے ہیں؟ انہوں نے تلخ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا‘‘۔
نٹور سنگھ نے ایک حیران کن انکشاف ایسا کیا جس پر ہمارے ہاں بحث ہونی چاہیے تھی، سیاسی ہنگامہ خیزی کے باعث ایسا نہیں ہوسکا۔ نٹور سنگھ کی بات سمجھنے سے پہلے ہمیں اٹھائیس سال پہلے جاناہوگا۔ 1986ء میں بھارت نے راجستھان میں بہت بڑے پیمانے پر فوجی مشقیں شروع کیں۔ چار لاکھ سے زیادہ فوج اورٹینکوں کی بڑی تعداد ان مشقوں میں شامل تھی جن کا کوڈ نام آپریشن براس ٹیک رکھا گیا تھا۔ عالمی ماہرین کے مطابق یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑا ملٹری شو تھا۔ پاکستان میں ان مشقوں کو بڑی سنجیدگی سے لیا گیا تھا۔ اس حوالے سے جب کشیدگی اپنے عروج پر تھی، پاکستان کی کرکٹ ٹیم میچ کھیلنے انڈیا گئی ہوئی تھی۔ پاکستان کے صدر جنرل ضیاء الحق اچانک میچ دیکھنے کے بہانے بھارت پہنچ گئے۔ کہا جاتا ہے کہ ایئر پورٹ پر جنرل ضیا نے اپنی مخصوص سرد مسکراہٹ کے ساتھ بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کو دھمکی دی کہ یہ جنگ نیوکلیئر ہوگی جس میں دونوں ملک تباہ ہوجائیں گے۔ نٹور سنگھ نے آپریشن براس ٹیک کے ایک نئے زاویے پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ کہتے ہیںکہ اس وقت کے بھارتی آرمی چیف جنرل کرشنا سوامی سندر جی اور وزیر دفاع ارون سنگھ نے اس سٹریٹیجک منصوبے کی منظوری دی جس کے مطابق راجستھان میں بڑے پیمانے پر فوجی مشقیں کرنا تھیں تاکہ پاکستانی فوج پنجاب اور سندھ کو بچانے کے لئے اس طرف متوجہ ہوجائے ؛ تاہم بھارتی فوج کا اصل منصوبہ آپریشن ٹرائیڈنٹ کے ذریعے آزاد کشمیر اور پاکستان کے شمالی علاقوں پر حملہ کر کے ان پر قبضہ کرنا تھا۔ نٹورسنگھ کے مطابق راجیوگاندھی کو آپریشن براس ٹیک کی خبر نہیں تھی۔ انہوں نے نٹور سنگھ سے پوچھا کہ کیا تمہیں آپریشن ٹرائیڈنٹ کا علم ہے؟انکار میں جواب ملنے پر راجیو نے بتایا کہ مجھے بھی کچھ پتا نہیں۔ پھر راجیو نے امریکی اور روسی سفیروں سے درخواست کی کہ سیٹیلائٹ کے ذریعے پاکستانی فوج کی نقل وحمل دیکھی جائے۔ دونوں ممالک نے رپورٹ دی کہ پاکستانی فوج جارحانہ پوزیشن میں قطعاً نہیں ہے۔ اس پر راجیو گاندھی نے میٹنگ بلوائی اور یہ رپورٹیں شیئر کیں۔ ارون سنگھ نے یہ مضحکہ خیز دلیل دی کہ امریکی اور روسی سیٹیلائٹ ناقص ہیں، ان کی رپورٹ قابل اعتماد نہیں۔ راجیوگاندھی اس پر ہنس دیے ۔ میٹنگ برخاست ہونے کے بعد راجیو نے نٹور سنگھ سے پوچھا: اپنے وزیردفاع ارون سنگھ کا میں کیا کروں؟ نٹور سنگھ کا جواب تھا کہ اس نے غداری کی ہے، اس سے استعفیٰ لے لینا چاہیے۔ (آرمی چیف کے حوالے سے راجیو نے کچھ کہا اور نہ ہی نٹور سنگھ نے کوئی مشورہ دینے کی جرأت کی۔)
نٹور سنگھ کی کتاب نے جہاں بھارتی سیاست کے داخلی تضادات کو بے نقاب کیا، وہاں اس سے بھارتی ڈیفنس اسٹیبلشمنٹ کی نادیدہ قوت بھی آشکار ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلے سال ستمبر میں بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس نے ایک تہلکہ خیز رپورٹ شائع کی کہ سابق بھارتی آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ ایک خفیہ ٹیکنیکل سپورٹ ڈویژن کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کے وزرا کے فون ٹیپ کراتے رہے، مقصد ریاستی حکومت گرانا تھا۔ بعد میں پتا چلا کہ بھارتی حکومت اپنی ہی فوج کے اس خفیہ ڈویژن کی موجودگی سے بے خبر تھی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں ایسا کرنے والے جنرل وی کے سنگھ کا کوئی بال بھی بیکا نہ کرسکا۔اب وہ نریندر مودی کی حکومت میں وزارت کا چارج بھی سنبھال چکے ہیں۔ ان واقعات نے بھارتی سیاست کے بیک گرائونڈ میں سرگرم بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے سائے کی ہلکی سی جھلک دکھائی ہے، دیکھیے آنے والے دنوں میں کیا کچھ مزید سامنے آتا ہے؟