ملک واقعی حالتِ جنگ میں ہے‘ اور اس کا یقین ہمیں یوں آیا کہ اس میدانِ جنگ میں ہمارے شہسوار انتظار حسین بھی گرے‘ لیکن بچ نکلے اور ٹانگ پر چوٹ آئی۔ ہمیں معلوم ہوا تو فوراً فون کیا جس پر کوئی اور صاحب بولے؛ تاہم کچھ دیر بعد صاحبِ موصوف سے بھی بات ہوگئی۔ کوئی ہفتہ ڈیڑھ گزرنے کے بعد آج پھر فون کیا۔ کسی نے ہیلو کہا تو عرض کیا کہ ظفر اقبال بول رہا ہوں اور انتظار صاحب کا حال معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ بولے‘ بھئی میں انتظار حسین ہی بول رہا ہوں۔ میں نے کہا‘ یہ ٹانگ کی چوٹ کا ہی اعجاز ہو سکتا ہے جو آواز میں اتنی کھنک پیدا ہو گئی ہے کہ میں نے پہچانی ہی نہیں۔ میں نے پوچھا‘ چلنا پھرنا شروع کیا یا نہیں‘ تو بتایا کہ ٹانگ تو ابھی ٹھیک نہیں ہوئی‘ البتہ کالم لکھنا شروع کردیا ہے۔ میں نے کہا کہ دوسروں کے معاملات میں اگر زیادہ نہ اڑایا کریں تو یہ بھی ٹھیک ہو جائے گی جبکہ کالم لکھنا تو ویسے بھی آپ کی بائیں ٹانگ کا کھیل ہے! البتہ ہمیں یہ پوچھنا یاد نہ رہا کہ زخمی ٹانگ بائیں ہے یا دائیں۔ منقول ہے کہ ایک صاحب کا بایاں ہاتھ مشین میں آ کر کٹ گیا۔ ان کا ایک دوست مزاج پُرسی کے لیے گیا تو وہ بولا: ''شکر ہے کہ دایاں ہاتھ بچ گیا‘‘
''مشین میں تو دایاں ہاتھ ہی آنے لگا تھا لیکن میں نے جلدی سے پیچھے کھینچ کر بایاں آگے کردیا‘‘ وہ بولے:
یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ ٹانگ پر یہ چوٹ لگی کیسے ہے۔ ایسی چوٹ تو عموماً محبوبہ کی دیوار پھلانگنے سے ہی آیا کرتی ہے۔ اور یہ شعر تو آپ نے سُن ہی رکھا ہوگا ؎
کُودا کوئی یوں چھت پہ تری دھم سے نہ ہو گا
جو کام کیا ہم نے وہ رستم سے نہ ہو گا
اور‘ یہ بات بھی تسلیم کر لینی چاہیے کہ عشق نہ ذات پوچھتا ہے نہ عمر۔ یہ شعر دیکھیے ؎
جو بوڑھا ہوں تو کیوں دل میں محبت زور کرتی ہے
میں جتنا چُپ کراتا ہوں یہ اتنا شور کرتی ہے
ہم تو یہ ٹانگیں کب سے قبر میں لٹکائے بیٹھے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ انتظار صاحب کا ارادہ ان سے ابھی مزید کام لینے کا ہے کیونکہ یہاں تو وہ ٹکتے ہی نہیں‘ جب فون کرو‘ یہی اطلاع ملتی ہے کہ بھارت یا کہیں اور گئے ہوئے ہیں‘ البتہ کبھی کبھار دورے پر ہی پاکستان آتے ہیں‘ یعنی ع
ایک چکر ہے مرے پائوں میں‘ زنجیر نہیں
بہرحال‘ چونکہ موصوف ملک کے سب سے بڑے کہانی کار بھی ہیں‘ اس لیے یہ چوٹ لگنے کی وجہ کو کسی اور طریقے سے بھی ٹال سکتے ہیں۔ مثلاً ایک صاحب کے لڑائی میں دو دانت ٹوٹ گئے۔ ان کا ایک دوست اظہار ہمدردی کے لیے گیا اور لڑائی کی وجہ پوچھی تو وہ بولے: ''کوئی لڑائی وغیرہ نہیں‘ بلکہ معمولی تکرار ہوئی تھی‘‘
''اور یہ تمہارے اگلے دو دانت؟‘‘ دوست نے پوچھا
''یہ تو میں نے ویسے بھی نکلوا دینے تھے!‘‘ وہ صاحب بولے۔
یہ بھی ہو سکتا ہے کہ محاورے پر عمل کرتے ہوئے گھٹنا مار کر کسی کی آنکھ پھوڑ دی ہو اور اس دوران ٹانگ بھی زخمی ہو گئی ہو۔ اپنا تو عالم یہ ہے کہ چھڑی کے بغیر چلا نہیں جاتا اور احتیاطاً اسے ابھی سے سفید رنگ بھی کروا دیا ہے کہ اگر بصارت جواب دینے لگے تو نئی نہ خریدنی پڑے‘ یعنی ؎
چل نہیں سکتا ہوں اور اُس تک پہنچنا ہے ضرور
سُن نہیں سکتا ہوں اور اس کا اشارہ شور ہے
البتہ سُن نہ سکنے کا ایک فائدہ بقول غالبؔ یہ بھی ہے کہ ؎
بہرا ہوں میں تو چاہیے دُونا ہو التفات
سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر
اس کالم کی ایک شانِ نزول یہ بھی ہے کہ بھائی صاحب نے کالم لکھنا شروع کردیا ہے‘ مبادا میرے حال پوچھنے پر ہی ہاتھ صاف کردیں‘ کیوں نہ میں پہل کر دوں تاکہ بعد میں ہاتھ ملتا نہ رہ جائوں۔ ایک صاحب کا گھوڑا بیمار پڑ گیا تو وہ اُسے ڈنگر ڈاکٹر کے پاس لے گئے جس نے اسے سفوف کا ایک پُڑا سا تھما کر کہا کہ یہ گھوڑے کو استعمال کرائیں‘ ٹھیک ہو جائے گا۔
''لیکن اسے گھوڑے کو استعمال کیسے کرانا ہے؟‘‘ ان صاحب نے پوچھا۔
''بانس کی ایک نلکی لیں‘ اس میں یہ سفوف بھریں اور گھوڑے کے منہ میں رکھ کر زور سے پھونک مار دیں‘‘ ڈاکٹر نے جواب دیا۔
کوئی ایک گھنٹے کے بعد وہی صاحب دوبارہ ڈاکٹر کے پاس آئے‘ سوجی ہوئی آنکھیں لے کر۔
''کیا ہوا؟‘‘ ڈاکٹر نے پوچھا۔
''گھوڑے نے پہلے پھونک مار دی!‘‘ وہ صاحب بولے۔
انتظار حسین عموماً پہلے ہی پھونک مارا کرتے ہیں۔ یہ تو حفظ ماتقدم کے طور پر عرض کیا ہے۔ اس کا جواب تو ہماری طرف سے چلا ہی جاتا ہے لیکن کچھ بات نہیں بنتی کہ پہلے پھونک مارنے کا مزہ ہی اور ہوتا ہے۔ مثلاً میرے بارے میں ان کے ایک کالم کا عنوان تھا‘ ع
چھیڑتا ہوں کہ اُن کو غصہ آئے
لیکن ہمیں غصہ آنے کی نوبت کہاں آتی ہے‘ ادھر تو بقول امیرؔ مینائی‘ حالت یہ ہے کہ ؎
اُن کو آتا ہے پیار پر غصہ
ہم کو غصے پہ پیار آتا ہے
پہلے بھی کہیں لکھ چکا ہوں کہ شاعری کے بعد ہمارے دوسرے معشوق انتظار حسین ہیں‘ بلکہ شاید اولیت انتظار صاحب ہی کو حاصل ہو‘ اس لیے ہم تو یہیں تک محدود رہتے ہیں کہ ع
چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسدؔ
بہرحال‘ اب تو یہی آرزو ہے کہ جلد از جلد موصوف کو خراماں خراماں چلتے ہوئے دیکھیں اور ہم جیسوں کی ٹانگیں کھینچتے ہوئے بھی‘ اگرچہ اس کے لیے ٹانگ نہیں بلکہ ہاتھ ہی درکار ہوتا ہے جبکہ موصوف کو چوٹ ٹخنے پر آئی ہے اور اس کا اثر ٹانگ پر پڑا ہے۔ خدا کرے‘ اب فون کروں تو یہ جواب آئے کہ کالم کے ساتھ ساتھ ٹانگ نے بھی چلنا شروع کردیا ہے‘ یعنی ع
ایک بیدادگرِ رنج فزا اور سہی
کیونکہ ہم ماشاء اللہ لاتوں کے بھوت ہیں‘ باتوں کے نہیں۔
آج کا مقطع
اے ظفرؔ، وہ یار تھا کیسا کہ اس کے نین نقش
خون میں شامل تھے، آنکھوں کے لیے نایاب تھے