ہم ایک سے زائد بار اس رائے کا اظہار کرچکے ہیں کہ جمہوریت اپنی جبلّت اور ساخت کے اعتبار سے سیکولر نظام کا نام ہے۔ اس کے ذریعے خالص اسلامی نظام یا شریعت کا نفاذ عملاً دشوار ہے۔ اس کی محدودیت میں رہتے ہوئے صرف جزوی اصلاح کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ہمارے ٹریک ریکارڈ سے بھی یہ امر واضح ہے کہ پاکستان کے جمہوریا عوام نے کبھی بھی خالص دینی حاکمیت کی دعویدار یا حامل کسی جماعت یا دینی جماعتوںکے اتحاد کو پاکستان پر بلاشرکتِ غیرے حکمرانی کا حق نہیں دیا۔اس کے اسباب پر بحث ہوسکتی ہے، لیکن زمینی حقیقت یہی ہے ، جو ہم نے بیان کی ہے۔دینی جماعتوں کو اب تک زیادہ سے زیادہ جو کامیابی حاصل ہوئی، وہ نظام میں رہتے ہوئے اقتدار یا اس کی برکات میں'' حصہ بقدرِ جُثّہ‘‘ ہے، اس میں بھی انہیں نظام میں تبدیلی کا کبھی کوئی اختیار حاصل نہیں ہوا۔ لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ یہاں اسی کی بات پر کان دھرا جاتاہے ، جوکسی بھی حیثیت میں نظام میں موجود ہے اور جو نظام سے باہر ہے، اُسے صرف ''فغانِ درویش‘‘کی اجازت تو ہوتی ہے، مگر اسے قابلِ توجہ نہیں سمجھا جاتا، تاوقتیکہ وہ پورے نظام کو مفلوج نہ کردے، آجکل ہم اسی صورتِ حال سے دوچار ہیں۔
اسی لئے دین دار طبقے کا ایک مُعتَدبہ حصہ اپنی اپنی سوچ کے مطابق لوگوں کی انفرادی اصلاح میں مصروفِ عمل ہے اور براہِ راست وہ عملی سیاست سے کنارہ کش ہیں، یہی وجہ ہے کہ انہیں سیاسی لحاظ سے بے ضرر سمجھ کر اُن کی اپنی حکمتِ عملی کے مطابق کام کرنے کا موقع دیا جاتاہے، کیونکہ یہ لوگ نظام کی خرابیوں ، کرپشن ، استحصال اورغیر منصفانہ مَظاہر کو نہ مخاطَب کرتے ہیں، نہ چیلنج کرتے ہیںاور نہ ہی تشدد کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ تبلیغی جماعت اور دعوتِ اسلامی اِسی طرز پر کام کررہی ہیں ، یعنی خیر وشر کی دونوں قوتوں کو کام کی آزادی ہو، لیکن وہ ایک دوسرے سے متصادم نہ ہوں۔ قرآن نے اسے ''حزبُ اللہ‘‘ اور ''حزبُ الشیطان ‘‘ سے تعبیر کیا ہے، جبکہ قرآن مجید نے بعثتِ رسالت کا مقصد غلبۂ اسلام بتایا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:''وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کردے،خواہ مشرکوں کو ناگوار ہو،(توبہ:33)‘‘۔ یہ تقریباً ایسی ہی صورتِ حال ہے کہ جس طرح قرونِ وسطیٰ میں یورپ میںتھی کہ:''جو چرچ کا ہے اُسے چرچ کو دو اور جو شاہ کا ہے اُسے شاہ کودو‘‘۔سعودی عرب میں اسی تقسیمِ کار پر سلطنت کا نظام اور بادشاہت چل رہی ہے، یعنی مذہبی معاملات پر آلِ شیخ کے عقائد ونظریات کا تسلُّط ہے اور نظامِ ریاست وحکومت آل ِ سعود کے ہاتھ میں ہے۔
بعض مذہبی جماعتوں نے درمیانی رَوِش اختیار کررکھی ہے، یعنی وہ نظام کی خرابیوں کی نشاندہی تو کرتی ہیں ، اپنے طریقے پر احتجاج بھی کرتی ہیں، لیکن نظام کو چیلنج نہیں کرتیں اور نہ ہی اس کے راستے میں رکاوٹ بنتی ہیں ، اس لئے یہ بھی اہلِ اقتدار کوایک حدتک گوارا ہیں، تحریکِ اسلامی اور تنظیمِ اسلامی اس قبیل کی جماعتیں ہیں ۔ یہ جمہوریت کو شجرِ ممنوعہ سمجھتے ہوئے عام انتخابات میں حصہ نہیں لیتیں ، بلکہ جمہوری انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کو ہدفِ ملامت بناتی ہیں ۔ ان میں جماعتِ اسلامی سے علیحدگی اختیار کرنے والے رہنما شامل ہیں ، کیونکہ ان کے نزدیک جماعتِ اسلامی نے اپنے بنیادی میثاق سے انحراف کرکے انتخابات اور سیاسی عمل میں حصہ لیااور حاصل کچھ نہ ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ ماحَصَل تو ان کے توشہ دان میں بھی کچھ نہیں ہے۔
بعض مذہبی جماعتیں ایسی ہیں جو نظامِ شریعت یا نظامِ اسلام یا نظامِ مصطفی ﷺ کے نفاذ کی دعویدار ہیں، جیسے جماعتِ اسلامی یا جمعیۃ علمائِ اسلام اور جمعیۃ علمائِ پاکستان کے مختلف دھڑے،عام طور پر یہ جماعتیں اپنے اپنے انداز میں کام کرتی ہیں یا کسی اتحاد میں شریک ہوجاتی ہیں۔لبرل طبقے اور ہر دور کے حکمرانوں کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ مذہبی جماعتیں اور مذہبی لوگ اُن کے راستے میں رکاوٹ نہ بنیں ، اپنی اپنی سوچ اور اَپروچ کے مطابق اﷲاﷲکرتے رہیں ، عبادت اور ذکر وفکر میں مشغول رہیںیا پرامن طور پر ناصحانہ انداز میں اصلاحِ معاشرہ کاکام کریں ، مگر آزاد خیال کلچر اور ملحدانہ اَقدارکو چیلنج نہ کریں،اُن کا راستہ کھلاچھوڑیں۔ ظاہر ہے جب مجموعی ماحول آزاد خیالی کا ہو، الیکٹرانک اور کیبل کے ذریعے فحاشی کا سیلاب برپا ہو۔ قانونی ذرائع سے نشریاتی حقوق حاصل کئے بغیردرجنوں انڈین ٹیلیویژن چینلز پاکستان کی تشہیری صنعت کے بجٹ کاکافی حصہ غیرقانونی ذرائع سے لے جائیں، توایسے معاشرے میں اصلاح بھی اتنی آسان نہیں ہے۔
جہاں تک میڈیا کی آزادی کا تعلق ہے تو مغرب بتدریج یہاں تک پہنچا ہے، لہٰذا اُن کے ذہن پختہ ہیں، انہیں اپنی حدود کا پتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ملک وقوم کے مفاد سے ٹکرانے والی سرخ لائن کو کبھی عبور نہیں کرتے۔ اس کے برعکس ہم ارتقائی مراحل سے گزرے بغیر ایک ہی جست میں اُن سے آگے نکل جانا چاہتے ہیںاور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے حصے میں فائدے کی بجائے نقصان زیادہ آتاہے۔
ملّی یکجہتی کونسل پاکستان وجود میں آئی،وقتی دباؤ سے نکلنے کے لئے اس نے آکسیجن کاکام کیا، مگر یہ تشدُّد پر مبنی فرقہ وارانہ تصادم کو مستقل بنیادوں پر نہیں روک سکی۔اس کا سبب یہ ہے کہ کسی بھی مسلک کے اکابر کے لئے اپنے انتہاپسندوں کے آگے بند باندھنا مشکل ترین ہدف ہے۔ ہر مسلک کے انتہاپسند یہ توقع اور خواہش رکھتے ہیں کہ ان کے اکابر جائز وناجائز اور حق وباطل کی تمیز کئے بغیر ان کی حمایت کریں ، چنانچہ ان اکابر کے لئے ع : ''گویم مشکل ونہ گویم مشکل ‘‘والی کیفیت ہوجاتی ہے۔ اگر وہ کلمۂ حق انتہائی نرم انداز میں بھی کہہ دیں تو انہیں دھمکیاں ملتی ہیں۔ اب پاکستان کو جوبہت بڑا خطرہ درپیش ہے، وہ دوسروں کی لڑائی اپنی سرزمین پر لڑنا اور خود ایک دوسرے کو مارکر تسکین حاصل کرنا ہے، یعنی اذیت رسانی اور اذیت پسندی ہمارا مزاج بنتا جارہا ہے، اسے جدید اصطلاح میں Proxy Warکہا جاتاہے۔
ایک اصطلاح کرائے کے سپاہی کی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی سرگرمیوں کے لئے بے پناہ وسائل درکار ہیں اور جو مالی وسائل فراہم کرتاہے، اس کا اپنا ایجنڈا ہوتاہے۔ نچلی سطح کے کارکن جذبۂ جہاد سے سرشار ہوکر اُن کے آلۂ کار بن جاتے ہیں اوراُن کو اس راہ پر ڈالنے والے لوگ ماہرین نفسیات بھی ہوتے ہیں اور انہیں ذہن سازی کا ملکہ اور مہارتِ تامّہ حاصل ہوتی ہے۔
لیکن اب ہماری سیاسی جماعتیں جو کلچر متعارف کرارہی ہیں ، وہ ہماری سیاست کا ایک خطرناک رجحان ہے، کہ چند ہزار یاچند لاکھ افراد کوجمع کرکے پورے اجتماعی نظام کی بساط لپیٹ دیں اورمن پسند نظام قائم کریں ۔ ہمیں ان کی نیت اور اخلاص پر شبہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے ، ہوسکتا ہے ان کے نزدیک ملک وقوم کو مسائل کے گِرداب سے نکالنے کا یہی ایک راستہ رہ گیا ہو اور اس سے انہیں بہتر نتائج برآمد ہونے کا یقینِ کامل ہو، لیکن اس روایت، روش اور شِعار میں بے پناہ خطرات مضمر ہیں، جن کا ادراک کوئی بھی صاحبِ نظر بآسانی کرسکتاہے۔لہٰذا قوم کو خیر کی توقع رکھنے کے ساتھ ساتھ بدتر نتائج کے لئے بھی تیار رہنا ہوگا۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اس کی صلاحیت ہماری جہادی اور نیم جہادی تنظیموں کے پاس سب سے زیادہ ہے، اُن کے پاس شدت پسندکثیرتعداد میںہیں اور اُن کے لوگوں کے نزدیک کسی کی جان لینا اور اپنی جان دینا ایک پسندیدہ مشغلہ بھی ہے۔ سو اگر یہ رَوِش آگے بڑھی تو پاکستان کا مستقبل خطرات سے دوچار ہوگا۔ہماری دعاہے کہ ہمارے خدشات غلط ثابت ہوں اوراس قومی منظر کے بطن سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خیرِ مستور اس قوم کا مقدر بن جائے۔
پس نوشت:بہت سے لوگ جوکسی کی عقیدت میں اَزخود رفتہ ہوتے ہیں ،وہ تعصبات سے بالاترہوکر کسی بات پرغور کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیںاوردوسروں کے بارے میں یہی رائے قائم کرلیتے ہیںکہ کوئی جو کچھ بھی کہہ یالکھ رہاہے ،اس کامُحرّک کسی سے نفرت یاکسی کی بے جا حمایت ہے۔وزیراعظم نوازشریف کے طرز حکمرانی اوروزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے بارے میں ان کالموں میں لکھتارہاہوں ۔اگرآج عمران خان صاحب وزیراعظم کے منصب پرفائز ہوتے اورقومی وملکی منظر یہی ہوتاتوہمارا تجزیہ اُس وقت بھی یہی ہوتا،کیونکہ ہماری ترجیح ِاول اسلام اورپاکستان ہے۔ہاں کوئی بھی ہمارے تجزیے سے دلائل کی بنیاد پراختلاف کرسکتاہے،البتہ کسی کی نیت کے بارے میں بدگمانی درست نہیں ہے ۔