کل 17اگست کی شام کو‘جب عمران خان نے فاتحانہ انداز میں خطاب کرتے ہوئے‘ اپنا ہزیمت نامہ عوام کے سامنے پیش کیا‘ تو میں دنیا ٹی وی پر جاری‘ سپیشل ٹرانسمشن میں کامران شاہد کے ساتھ بیٹھا تھا۔ اس سے پہلے ایک واقعہ ہو چکا تھا۔ میں نہیں جانتا ‘ کس کی ایما پر‘ عمران خان کے حامی پُرجوش نوجوان‘ ریڈلائن کی طرف بڑھے‘ تو اس وقت رہنمائی کے لئے‘ نہ وہاں عمران خان موجود تھے‘ نہ شاہ محمود قریشی‘ نہ شیخ رشید اور نہ بڑے لیڈروں میں سے کوئی دوسرا۔ جوش جذبات سے بھرے نوجوان‘ اپنے چاروں طرف مسلح پولیس کے جمگھٹوں کے سامنے نعروں کے شعلے بھڑکاتے ہوئے سڑکوں پر جمع ہویے۔انہیں حکومتی دھمکیوں کا ذرا خوف نہیںتھا۔ وہ دیوانہ وار ریڈ لائن کی طرف بڑھتے جا رہے تھے۔ وہ ایک لمحہ ایسا تھا جو لیڈروں اور قوموں کی تقدیریں بدل دیتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے‘ جو آگے بڑھ کر گرفت میں لے لیا جائے‘ تو تاریخ بدل جاتی ہے اور چھوڑ دیا جائے‘ تو تاریخ پھر بھی بدل جاتی ہے، لیکن اس کا رخ بلندی کے بجائے‘ پستی کی طرف ہوتا ہے۔ ہجوم اتنا بڑا تھا کہ اس میں افراد کی شناخت کرنا مشکل تھا۔ جب عوام کی طاقت اپنا اظہار کرتی ہے‘ تو یوںبھی چہرے دکھائی نہیں دیتے‘ صرف عوامی طاقت منظر پر چھائی ہوتی ہے۔ یہ وہ لمحات ہوتے ہیں‘ جب تاریخ بدلنے والوں کی گنتی نہیں ان کا جوش و جذبہ اور شوق شہادت نمایاں ہوتا ہے۔ 17اگست کو ان دونوں تاریخ ساز کیفیتوں کا ظہور ہو گیا تھا اور پھر محض ایک منظر دیکھ کر مجھے شدید کرب کے عالم میں یہ شعر یاد آ گیا
قسمت کی خوبی دیکھئے ٹوٹی کہاں کمند
دو چار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا
مجھے اسلام آباد سے‘ تحریک انصاف کے منتخب ممبر قومی اسمبلی جناب اسد عمرٹی وی پر نظر آئے۔ ہجوم کا رخ ریڈلائن کی طرف تھا اور اسد عمر کی پیٹھ۔ وہ اپنے قریبی ساتھیوں کو واپسی کے اشارے کرتے ہوئے‘ تیزی سے پلٹ رہے تھے۔ لیکن سرکش نوجوان تھے کہ ان پر وہی کیفیت طاری تھی‘ جسے عمران خان اپنی تقریروں میں جنون کہتے ہیں۔ تحریک اور اس کے قائدین دونوں میں جنون تو کبھی دکھائی نہیں دیا۔ 17 اگست کی اس شام کو‘ تھوڑی دیر کے لئے عوام کے اندر سے ابھرا اور لیڈروں کی کم ہمتی‘ اس کے پائوں کی زنجیر بن گئی۔ وہ لمحہ گزر گیا۔قومیں خوش قسمت ہوں‘ تو وہ ایسے لمحے کا استقبال کرتی ہیں اور قسمت یاوری نہ کرے‘ تو اس لمحے کی پذیرائی سے محروم رہ جاتی ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ اس وقت کوئی بھی ایسا سیاسی لیڈر یا جماعت ہمیں دستیاب نہیں‘ جس میں اس لمحے کے ثمرات سمیٹنے کی اہلیت ہو، لیکن جو اذیت ناک سٹیٹس کو‘نحوست کی طرح ہم پر مسلط ہے‘ اس میں دراڑضرور پڑ سکتی تھی۔ چہرے تبدیل ہو سکتے تھے۔ ان قوتوں کی گرفت ڈھیلی ہو سکتی تھی‘ جو 3عشروں سے پیرتسمہ پا کی طرح ہمیں جکڑے بیٹھی ہیں۔ میں اس لمحے سے محرومی کی چوٹ‘ اپنی باقی ماندہ زندگی میں نہیں بھلا پائوں گا۔ جیسے خوش نصیبی دستک دے کر اندر نہیں آتی‘ اسی طرح یہ لمحہ بھی‘ دیکھتے ہی دیکھتے تاریخ کے جاری و ساری عمل‘ میں زلزلے کے دوران ابھرتے ہوئے نئے جزیرے کی طرح ‘ نمودار ہوتا ہوا نظر آ رہا تھا۔حکمرانی کی طاقت کو تشکیل دینے والے سارے گروپ‘ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر تلے تھے۔ حکمران طبقے جو بظاہر‘ بڑے متحد اور منظم نظر آتے ہیں، درحقیقت اندر ہی اندر ان کے درمیان کشمکش موجود رہتی ہے اور کبھی کبھی ایسا مرحلہ آتا ہے‘ جب کشمکش تیز ہو جاتی ہے اور طاقت کو تشکیل دینے والے عناصر‘ درپردہ کھینچاتانی کرنے لگتے ہیں۔ یہ بھی ایک ایسا ہی لمحہ تھا۔ کچھ عناصر حکومت کو ہزیمت دینے کے خواہش مند تھے اور خاموشی سے تبدیلی کا راستہ ہموار کر رہے تھے۔ کچھ حکومت کے حامی بن کر‘ اسے دلدل کی طرف لے جانے میں لگے تھے۔ ریاستی مشینری بے دلی بلکہ خوف میں مبتلا تھی۔ طاقتوں کا توازن درہم برہم ہوتا نظر آ رہا تھا۔ بے شک سامنے کوئی متبادل نہیں تھا، لیکن حکمران طبقوں کی مشترکہ طاقت کا‘ شکنجہ بہرحال ڈھیلا پڑ گیا۔ بیوروکریسی کے ہاتھوں میں سستی اور عمل میں جھجھک دکھائی دینے لگی تھی۔ عوام تبدیلی کا استقبال کرنے کے لئے بے چین تھے اور عالمی رائے عامہ اپنی توجہ پاکستان میں رونما ہونے والی متوقع تبدیلیاں دیکھنے کے لئے مستعد ہو گئی تھی۔ سب جانتے تھے کہ تبدیلی کا طوفان سمیٹ کر معاشرے کو ارتقاء اور ترقی کے راستے پر ڈالنے والی کوئی شخصیت یا تنظیم موجود نہیں، مگر اس کے باوجود اپنے اپنے مقصد کے تحت ہر کوئی تبدیلی کا خواہش مند تھا۔ اتنی تیزرفتاری سے‘ معرض وجود میں آنے والی تبدیلی کا تھپیڑا کسی واضح سمت کی طرف بڑھتا نظر نہیں آتا، لیکن وہ ٹھہرے ہوئے پانیوں میں تلاطم‘ ضرور برپا کر دیتا ہے اور یہ تلاطم ختم ہوتے ہوتے چیزوں کی ترتیب بدل ڈالتا ہے اور بعد میں طاقت کا جو نیا توازن قائم ہوتا ہے‘ اس میں وہ توانائی نہیںہوتی‘ جو عشروں سے پختہ ہونے والے نظام کی طرح عوامی قوتوں اور صلاحیتوں کو مفلوج کئے رکھتی ہے۔ اتنا مختصر ہوتا ہے امید کا لمحہ۔ ایک پل میں ساحل کی طرف بڑھتی ہوئی غضبناک لہریں دکھائی دے رہی تھیں اور دوسرے ہی پل میں واپسی کا سفر اختیار کرتی نظر آئیں۔ تبدیلی کا لمحہ ہاتھ میں آ کے پھسل گیا۔ طوفان برپا کرنا بہت آسان ہوتا ہے اور اس کے سرکش گھوڑے کو قابو میں لانا مشکل ہو جاتا ہے۔ اپوزیشن کے لیڈروں نے طوفان تو برپا کر لیا، اس کی لگامیں تھامنے میں ناکام رہے۔ میری وہ امید کہ عمران کے ہاتھوں میں ہیں‘ لمحوں کی لگامیں‘ مجھ پر ترس کھاتے ہوئے‘ اوجھل ہو گئی۔ اب ہماری کیفیت ساحل کی‘ اس ریت جیسی ہو گئی ہے‘ جس کے اوپر سے ایک طوفانی لہر آ کر لوٹ گئی ہو اور اپنے پیچھے ہر چیز کو بے ترتیب اور بکھرا ہوا چھوڑ کے سمندر کی ابدیت میں واپس چلی گئی ہو۔ بے شمارلوگ ہیں ‘جن کا ابد سیاروں کی ٹوٹ پھوٹ سے آگے تک جاتا ہے، لیکن میرا ابد صرف سمندر تک محدود ہے۔میں اس شخص کی طرح ہوں‘ جو ساحل پر بیٹھ کر‘ لامتناہی وسعتوں میں کھو جائے۔ میرا سمندر میرے عوام ہیں۔ میں انہی کی لامتناہی وسعتوں میں کھویا رہتا ہوں اور اس کے اندر‘ جنم لینے والی تبدیلیوں میں محو رہتا ہوں۔ ہر تبدیلی اپنے رنگ کے ساتھ آتی ہے اور مجھے کبھی خوشی‘ کبھی رنج اور کبھی حیرت دے کر آگے بڑھ جاتی ہے۔
میں ان عظیم‘ پرجوش ‘ جنونی اور جذبوں سے سرشار مردوزن اور بچوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں‘ جنہوں نے 1977ء کے بعد ہم پر مسلط کی گئی بے عملی اور ناامیدی کے اندر زندگی کی رمق پیدا کی۔ ایک خوابیدہ اور بے حس معاشرے میں‘ اچانک نمودار ہو کرثابت کیا کہ ہمارا پورے کا پورا جسم مفلوج نہیں ہوا۔ اس میں حرکت پیدا کرنے کی صلاحیت برقرار ہے۔ اس نے ایوان اقتدار کی دیواروں کو ہاتھوں سے ہلا کر دکھا دیا اور وہ کنٹینر جو حکمران طبقوں کی حفاظت کے لئے کھڑے کئے گئے تھے‘ چند غیرمسلح لوگوں نے‘ اپنے خالی ہاتھوں سے انہیں ہلانا شروع کر دیا تھا۔ افسوس کہ کم ہمتی کی آوازوں نے انہیں روک دیا۔تبدیلی کا جو لمحہ جنم لیتا ہوا نظر آ رہا تھا‘ آگے بڑھ گیا اور اپنے پیچھے ناچتے گاتے‘ دل بہلاتے جنونیوں کو‘ امید کی روشنی سے محروم کرکے چھوڑ گیا۔ کیسا عجیب اتفاق ہے کہ یہی لوگ جو اقتدار کے ایوانوں کی دیواریں ہلانے آئے تھے‘ 3دن مسلسل بارش میں بھوکے پیاسے پڑے رہے۔ ان کے سونے کے لئے ننگی زمین تھی۔ آسمان بادلوں کے اوپر تھا اور بارش بلاروک ٹوک‘ ان کے جسموںپر برس رہی تھی، لیکن ان کے عزم‘ ارادے‘ جذبے‘ ولولے یوں تروتازہ ہوتے رہے‘ جیسے پھولوں اور پتوں کے رنگ‘ بارشوں سے نکھر جاتے ہیں۔بارشوں کی بے رحم بوچھاڑوں ‘ قیادت کی بے اعتنائیوںاور بھوک کی شدتوں کے باوجود ‘وہ اپنے ہدف پر جھپٹنے کے لئے اپنے عزم پر قائم رہے۔ محلات کی دیواروں تک پہنچ گئے اور عین اس وقت‘ جب وہ تاریخی لمحے کو مٹھی میں لینے کے قریب تھے‘ انہیں واپس کھینچ لیا گیا۔ لیڈروں کی تقریریں‘ اس کے بعد بھی جاری رہیں۔ وہ طرح طرح کے جذباتی نعرے دے کر یہ تاثر پیدا کر رہے تھے کہ جنگ ابھی جاری ہے۔ حقیقت میں یوٹرن لی جا چکی تھی۔ خوش نصیبی کے اس لمحے کو‘ جو طویل انتظار کے بعد گرفت میں آنے والا تھا‘ اسے کم ہمتی کا دھکا دے کر ہم سے دور کر دیا گیا۔ اب پھر سے انتظار۔ پھر سے امیدیں۔ تبدیلی ضرور آئے گی۔ لیکن اس تبدیلی کا تانا بانا‘ حکمران طبقوں نے‘ اپنے مفادات کے ڈیزائن کے مطابق بُنا ہو گا۔ جب عمران خان کی تقریر کے بعد‘ ٹرانسمشن دوبارہ شروع ہوئی‘ تو میں نے سب سے پہلے ایک واقعہ سنانے کی اجازت چاہی۔ جو مل گئی۔ اسے دہرائے دیتا ہوں۔ قریباً 40سال پہلے کی بات ہے کہ لاہور میں ایک فلم ''بہرام‘‘ کے نام سے بنائی گئی۔ بہرام ایک افسانوی ڈاکو تھا۔ فلم کی نمائش سے پہلے اس کی بھرپور پبلسٹی کی گئی۔ تب ٹیلیویژن نہیں آیا تھا۔ تشہیر کے 3ہی ذرائع تھے۔ اخبارات ‘ تانگوں پر بینر لگانا اور ریڈیو پاکستان پر پرومو چلانا۔ فلم ساز زلفی شاہ نے ‘جو کہ میرا دوست بھی تھا‘ ریڈیوپبلسٹی پر ‘سب سے زیادہ زور دیا اور یہ سلوگن بار بار چلوایا کہ ''کھڑکیاں دروازے بند کر لو‘ بہرام آ رہا ہے۔‘‘ مسلسل تکرار سن کر لوگوں کاتجسس شدید ہو گیا۔ وہ بے تابی سے نمائش کا انتظار کرنے لگے۔ اپنی اپنی توفیق کے مطابق‘ سفارشوں اور دھکوں سے پہلے شو کا ٹکٹ حاصل کر کے‘ سینما ہال میں گئے۔ رواج کے مطابق فلم انڈسٹری کے لوگ‘ انٹرول کے وقت دروازوں کے باہر کھڑے ہو گئے اور سینما ہال سے برآمد ہونے والے ناظرین سے حسب روایت پوچھنے لگے کہ ''فلم کیسی ہے؟‘‘ جو باہر آیا اس نے جواب دیا ''ڈبہ ہے۔‘‘ وہیں سے ایک فلم بین نے باآواز بلند کہا ''کھڑکیاں دروازے کھول دو۔ بہرام چلا گیا۔‘‘ مجھے تو عمران خان کی تقریر سے پہلے اندازہ ہو گیا تھا کہ ''بہرام چلا گیا۔‘‘ تقریر کے بعد سٹوڈیو میں بیٹھے لوگوں نے بھی مختلف الفاظ میں یہی کہا کہ بہرام چلا گیا ہے۔