پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا مسلم ملک ہے۔ اس کا جغرافیائی محلِ وقوعِ قابلِ رشک ہے اور دنیا کے لئے اسے نظر انداز کرنا یا اسے الگ تھلگ کرکے رکھ دینا عملاً دشوار ہے ۔ بُحَیرۂ عرب پر اس کا طویل ساحل ہے ۔ کراچی ، پورٹ قاسم اور گوادر کی بندرگاہیں ہیں ۔ اس کے علاوہ پاکستان کے ساحلوں پر''شپ بریکنک انڈسٹری ‘‘کا ایک بڑا Hubہے ۔ یہاں کی زمین زرخیز ہے، صحرا ہیں، دریا ہیں، ندی نالے ہیں، ایک بہت بڑا سلسلۂ کوہ ہے۔ دنیا کی دوسری بڑی ہمالیائی چوٹی(Peak) پاکستان میں ہے ، اس لئے یہ کوہ پیماؤں کے لئے مرکزِ نگاہ رہتی ہے۔ وسیع وعریض جنگل ہیں، حسین وجمیل مناظر ہیں ، ہر قسم کی زرعی اجناس یہاں پیدا ہوتی ہیں ، پاکستان کاباسمتی چاول اور کپاس دنیا میںاعلیٰ مقام کے حامل ہیں ۔ ہرقسم کے پھل اور باغات ہیں، لذت کے اعتبار سے پاکستان کے بعض پھل دنیا میں اپنی مثال آپ ہیں ، جن میں آم کی مختلف اقسام اور کنوں قابلِ ذکر ہیں اور بڑے پیمانے پر ان کی برآمد ہوتی ہے۔
یہاں طرح طرح کی زبانیں بولی جاتی ہیں، مثلاً: اردو، پنجابی، سندھی،پشتو، بلوچی ، بروہی، سرائیکی ، پوٹھواری، ہندکو ، گوجری، گلگتی ، بلتی، چترالی، گجراتی ، میمنی ، کشمیری اور دیگر چھوٹی بڑی زبانیں، پھر ہر چالیس پچاس میل کے فاصلے پر اِن زبانوں کے لہجے (Accent)بدل جاتے ہیں ۔ انسانوں کی قامت ، جسامت ، رنگت ، نسل ،قبیلے اور مزاج کے اعتبار سے ایک تنوُّع(Diversity) ہے ۔ اگرچہ پاکستانی باشندوں کی غالب ترین اکثریت مسلمان ہے، لیکن اس کے باوجود مذہبی اعتبار سے ایک صورتِ تکثُّر(Pluralism)بھی موجود ہے، یہاں ہندو، سکھ، یہودی، عیسائی ، پارسی، قادیانی،بہائی، ذِکری، ملحدین(Atheist)، الغرض مختلف مذاہب کے ماننے والے موجود ہیں اور آئین وقانون کے دائرے میں ان کے حقوق مسلّم اور محفوظ ہیں اور عالمی منفی پروپیگنڈے کے باوجود مذہبی اعتبار سے'' پُرامن بقائے باہمی ‘‘ اور ''جیو اور جینے دو‘‘ کی ایک فضا موجود ہے ۔ اِکّا دُکّا ناخوشگوار واقعات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں ، جن پر ہمیں شدید دکھ اور افسوس ہے، لیکن مجموعی فضا قابو سے باہر نہیں ہے۔ اگر ذرائع رسل ورسائل (Communication)اور سفری سہولتیں عالَمی معیار کی ہوں ، امن وامان اور سلامتی کی فضا موجود ہو ، تو سیاحت (Tourism)ہمارے ملک کی ایک بڑی صنعت بن سکتی ہے اور ہماری زرِ مبادلہ کی آمدنی کا ایک بڑا ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے۔ ہم دنیا کی ساتویں اور مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت ہیں ۔ پاکستان میں تمام تر مشکلات کے باوجودسیمنٹ، اسٹیل، ٹیکسٹائل، ہوزری ، گارمنٹس ، آلاتِ جراحی وطبی آلات ، کھیل کود کے سامان، پلاسٹک انڈسٹری، سرامکس ،بجلی کے پنکھوں اور دیگر شعبوں کے حوالے سے ایک معتدبہ صنعتی ڈھانچہ موجود ہے۔
ہمارے لوگ اگر ملک سے باہر ہوں تو ان کا شمار دنیا کے ذہین، قابل ، محنتی اور جفاکش، قانون اور قواعد وضوابط کے پابند لوگوں میں ہوتاہے ۔ ہمارے لوگ تقریباً دنیا کے ہر خطے میں موجود ہیں اور ان مَمالک کی معیشت میںپاکستانیوں کا ایک مُعتَد بہ اور مؤثّر حصہ ہے۔ ہمارے لوگ دیگر مسلم ممالک کے مقابلے میں مذہب اور اسلامی تعلیمات کے زیادہ پابند ہیں اور سمجھے جاتے ہیں ۔ اسلامی علمی سرمائے میں ہمارے خطے کا ایک مؤثر حصہ ہے۔
ان تمام فضائل اور مَحاسن کے باوجود ہم ترقی کی دوڑ میں دنیا سے پیچھے ہیں، جدید سائنسی اور فنی علوم میں ہم کاسۂ گدائی لئے پھرتے ہیں ۔ ہم دنیا کی ایک مقروض قوم ہیں ۔ ہم اپنی چادر کے سائز کے مطابق پاؤ ں نہیں پھیلاتے، بلکہ ہم ایک کفایت شِعار قوم بننے کے بجائے عیش وعشرت کے دلدادہ ہیں۔ ہمارے سالانہ بجٹ میں آمدنی کے شعبے میں ایک بڑا حصہ بیرونی قرضوں کا ہوتاہے اور اخراجات کے شعبے میں بھی بہت بڑا حصہ بیرونی قرضوں کی اَقساط اور ان کے سود کا ہوتاہے۔ برطانیہ جو کبھی دنیا کی ایک سُپر پاور تھا اور کہا جاتا تھا کہ اس کی حَدودِ سَلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا، یعنی اس کی سلطنت شرق سے غرب اور شمال سے جنوب تک خِطّۂ ارضی کے ایک بڑے حصے پر محیط تھی۔ مگر آج بھی لندن میں اس کے وزیر اعظم کی رہائش گاہ 10ڈاؤننگ اسٹریٹ ایک درمیانے سے مکان پر مشتمل ہے، اُن کا وزیراعظم اپنے مہمان غیر ملکی سربراہان کا فٹ پاتھ پر استقبال کرتاہے۔
اس کے برعکس ایک مقروض اور معاشی اعتبار سے دریوزہ گر اور غلام ملک ہوتے ہوئے ہمارا ایوانِ صدر، وزیراعظم ہاؤس اورسیکریٹریٹ ، گورنرہاؤسز اوروفاقی وصوبائی سطح پر ریاست کے عُمّال کی رہائش گاہیں اور دفاتر محلات کا منظر پیش کرتی ہیں ، ان کی نگہداشت اور حفاظت(Maintenance)پر اس غریب قوم کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ کرپشن ہمارے جسدِّ ملّی کے انگ انگ اور روئیں روئیں میں کینسر کی طرح سرایت کرچکی ہے اور صورتِ حال کچھ یوں ہے کہ ع
تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم
ہمارے ریاستی ادارے مفلوج ہوچکے ہیں اور وہ اب قوم کے لئے فیض رسانی (Delivery)کے قابل نہیں رہے، کوئی جُزوی اصلاح اس نظام میں جوہری تبدیلی نہیں لاسکتی، صرف دافعِ درد (Pain Killer)یا مُسکِّن(Tranquilizer)کا کام کرسکتی ہے ، یعنی یہ صرف دفع الوقتی حیلہ یا حربہ ثابت ہوسکتی ہے، ہمارے قومی اور ملّی امراض کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا ذریعہ نہیں بن سکتی، اس طرح کی جوہری تبدیلی صرف انقلاب سے آسکتی ہے یا تدریجی اصلاحی نظام سے ، جس میں تسلسل ہو، دوام ہواور اس پر عوام کو مکمل اعتماد ہو۔ موجودہ صورتِ حال اس شعر کی تصویر ہے ؎
مری تعمیر میں مُضمَر ہے اک صورت خرابی کی
ہَیوُلیٰ برقِ خرمن کا ہے خونِ گرم ، دہقاں کا
اس وقت اسلام آباد میں جو منظر درپیش ہے ، انتہائی خطرناک نتائج کا حامل ہے ۔ آزادی مارچ یا انقلاب مارچ کی قیادت نے جن قومی اور ملّی اَمراض کی نشاندہی کی ہے، اُن میں کوئی نئی بات نہیں ہے ، نئی تحقیق نہیں ہے ، یہ سب کچھ ہر پاکستانی کو اچھی طرح سے معلوم ہے ۔ لیکن اس کے لئے جو طریقۂ کار اختیار کیا جارہا ہے، اس کے بَطن سے کوئی خیرِ مستور برآمد ہونے کے آثار نہیں ہیں، بلکہ اس سے تباہی وبربادی اور فساد کا سلسلہ مزید مُحیط ، مُہیب(Fearful) اور مُہلِک ہوجائے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ نظر متفکّرہیں اور بعض رہنماؤںکی طرف جو لوگ امید بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے، اب یہ منظر دیکھ کر انہیں خوف آنے لگا ہے اور ان رہنماؤں کی فکری ناپختگی (Immaturity)نے انہیں شدید مایوس کیا ہے۔ ان کے اردگرد جولوگ جمع ہیں، وہ قومی المیے سے محظوظ ہورہے ہیں ، بھنگڑے ڈال رہے ہیں ، جس سے یہ امر واضح ہوجاتاہے کہ وہ شعوری طور پر کسی اصلاحی تحریک کا حصہ نہیں بنے، بلکہ اندھی عقیدت میں گرفتار ہیں اور انہیں حالات کی سنگینی کا ذرہ بھر احساس نہیں ہے ۔اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ روایتی حزبِ اقتداریاحزبِ اختلاف سے ہٹ کر ایسے اہلِ فکرونظر جن کی اِصابتِ فکر پروسیع پیمانے پر قوم کو اعتماد ہواور وہ گروہی تعصبات سے بالاتر ہوں ، میدانِ عمل میں آئیں اور ان رہنماؤں سے سنجیدہ مکالمہ کریں تاکہ ان رہنماؤں اور ان سے وابستہ لوگوں کی توانائیاں اور وُفورِ جذبات فکری لا اُبالی پن کی نظر نہ ہوجائے اور پھر مستقبل ِ قریب میں کوئی گمبھیرحالات میں کسی پر اعتماد کرنے کے لئے تیارہی نہ ہو۔ پس قبل اس کے کہ پورا خِرمَن (سیاسی کھلیان)برق کی نذرہوجائے ، کوئی آئے،آگے بڑھے اور اسے مکمل تباہی سے بچائے!۔
یہ سطور ہم نے اس لئے لکھی ہیں کہ ہم بدقسمتی سے ''گھر پھونک تماشا دیکھ ‘‘کے عادی ہوچکے ہیں، سنجیدگی اور اپنے اَقوال واَفعال اور اَحوال کے عواقِب(Subsequences) پر غور کرنے سے کوسوں دور ہیں ۔ ذہنی اذیت اس حدتک بڑھ چکی ہے کہ نیوز چینلز اور اُن پر سیاسی بحث وتمحیص کا جو معیار اور انداز ہے ، وہ انتہائی غیرذمے دارانہ بلکہ کسی حدتک سُوقیانہ ہے ، اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔
میں نے اس قومی انتشار کے موقع پر ایم کیو ایم کے قائد جناب الطاف حسین کے کردار کو بڑا مثبت پایا اور لگا کہ انہیں حالات کی حسّاسیت اور نزاکت کا پورا پورا احساس ہے،انہیں اس رخ پر پیش رفت کو سُرعتِ رفتا راور پورے اخلاص کے ساتھ جاری رکھنا چاہئے ۔ امیرجماعتِ اسلامی جناب سراج الحق کو پوری جماعتِ اسلامی کی تاریخ میں قدرت نے ایک اعلیٰ اور نمایاں مصالحتی کردار ادا کرنے کاموقع عطا کیا تھااور ان مواقع کاجو لوگ پوری حقیقت اور معنویت کے ساتھ ادراک کرکے ان کا حق ادا کرتے ہیں ، وہ تاریخ میں اَمر ہوجاتے ہیں ۔ کاش کہ ! جناب سراج الحق اپنے اندر کے اپوزیشن رہنما کی گرفت سے باہر نکلیں اور چھوٹے چھوٹے تعصبات اور پسند وناپسند کے حِصار سے نکل کر ایک قومی اور ملّی کردار ادا کریں، وہ تمام مسالک کے چند معتمد اور سرکردہ علماء کو بھی اس خیر کے قومی مشن میں اپنے ساتھ شریکِ عمل کرسکتے ہیں اور کرناچاہئے۔