تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     20-08-2014

وہ تو ناراض ہی ہو گئے

بعض اوقات جذباتی کیفیت‘ انسانی ذہن پر اس قدر حاوی ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے ہی سودوزیاں سے بے پروا ہو کر ‘ ایسے معاملات میں ضد کر بیٹھتا ہے‘ جو اس کے حق میں ہوں۔ یہ تماشہ 18 اگست کی شام کو ''دنیا‘‘ ٹی وی پر ہوا۔ رانا ثناء اللہ آن لائن تھے اور میں گفتگو کرنے والے پینل میں شامل تھا۔ ایک موقع پر رانا صاحب نے‘ اپنی جماعت کی جمہوریت پسندی پر زور دیا‘ تو میں نے انہیں یاد دلایا کہ آج 2مہینے سے زیادہ کا عرصہ ہو چلا ہے‘ ماڈل ٹائون کے شہداء کے وارثوں کی ایف آئی آر ابھی تک نہیں لکھی جا سکی۔یہ معاملہ ایک عدالت میں پیش ہوا‘ تو جج صاحب نے حکم دے دیا کہ اس سانحے کی ایف آئی آر درج ہونا چاہیے۔ جن پر الزامات ہیں‘ ان میں وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم شامل ہیں۔ لیکن یہ خطرناک بات نہیں۔ عمومی طور پر زیادہ غصے اور تکلیف میں آئے ہوئے لوگ‘ صوبے یا ملک کے انتظامی سربراہوں کے نام لکھوا دیتے ہیں اور مقدمے کی سماعت کے دوران حالات و واقعات سے ان کی بے گناہی ثابت ہوتی ہے اور نام خارج کر دیئے جاتے ہیں۔ 
قومی تاریخ میں بھٹو صاحب کے ساتھ عظیم المیہ ہوا۔ اس وقت قومی اسمبلی کے ممبر احمد رضا قصوری کے والد‘ نامعلوم قاتلوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ احمد رضا قصوری قریباً ہر وقت ہی عالم اشتعال میں رہتے ہیں اور ان دنوں بھٹو صاحب ان پر ناراض تھے۔انہوں نے آئو دیکھا نہ تائو۔ سیدھے تھانے گئے اور ایف آئی آر میں بھٹو صاحب کوملزم نامزد کر دیا۔ اس کے بعد نہ کسی نے پیروی کی اور نہ پولیس والوں نے‘ اس نامزدگی کو اہمیت دی۔ کچھ عرصے بعد قانونی تقاضے پورے کر کے‘ اس ایف آئی آر کو خارج کرنے کی بجائے‘ تھانیدار نے کیس فائل میں بند کر کے رکھ دیا۔ بھٹو صاحب کو جب بھی اس ایف آئی آر کی طرف توجہ دلائی گئی‘ وہ اسے خاطر میں نہیں لائے۔ 
کچھ عرصے بعد انتخابات قریب آئے‘ تو قصوری صاحب‘ بھٹو صاحب کو منانے کے لئے سرگرم ہو گئے۔ یہ واقعہ میرے سامنے کا ہے کہ وہ لاہور ایئرپورٹ کے وی آئی پی لائونج میں موجود‘ پیپلزپارٹی کے لیڈروں کو بتا رہے تھے کہ بھٹو صاحب کو ان کے بارے میں لوگوں نے بھڑکا رکھا ہے اور وہ اپنی پوزیشن صاف کرنے کی خاطر‘ ان سے ملاقات کرنے اسلام آباد جا رہے ہیں۔ یہ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اپنے کوٹ کی اندرونی جیب سے ‘قرآن پاک کا ایک جیبی نسخہ نکالا اور کہا کہ میں ان کے سامنے قرآن پاک رکھ کراپنی صفائی پیش کروں گا اور یاد دلائوں گا کہ میں زمانہ طالب علمی ہی سے ان کے ساتھ ہوں۔ پارٹی کے بنیادی ممبروں میں ہوں۔ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو بھی گئی ہے‘ تو آپ کو چاہیے کہ نظرانداز کر دیں۔ بھٹو صاحب نے احمد رضا صاحب کی باتوں پر یقین کرتے ہوئے معاملہ رفع دفع کر دیا۔ اس پر قصوری صاحب نے انتخابات کے لئے ٹکٹ کی درخواست دے دی۔ یہ درخواست پارٹی کی پارلیمانی کمیٹی کو بھیجی گئی۔ کمیٹی کے ارکان نے قصوری صاحب کی انتخابی پوزیشن کو کمزور سمجھتے ہوئے ٹکٹ کسی اور کو دے دیا۔ جس پر قصوری صاحب کو شدید رنج پہنچا‘ لیکن وہ خاموش رہے۔ جب جنرل ضیاالحق نے 
اقتدار پر قبضے کے بعد‘ بھٹو صاحب کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا‘ تو ایجنسیوں کو حکم دیا کہ بھٹو کے خلاف کوئی کیس نکالا جائے۔ ان دنوں جماعت اسلامی‘ بھٹو صاحب کے خون کی پیاسی ہو رہی تھی۔ اس کے لیڈروں کو مذکورہ ایف آئی آر کا علم تھا۔ انہوں نے اپنے ذرائع سے سراغ لگایا کہ اس ایف آئی آر پر قانونی کارروائی کر کے‘ اسے خارج کرنے کی بجائے‘ فائل جوں کی توں بند کر کے رکھ دی گئی تھی۔ اس کی تلاش کا حکم آ گیا۔ پولیس کے ریکارڈ میں پڑے پرانے پلندے کھول کر‘ فائلیں چیک کی گئیں۔ بھٹو صاحب والی فائل برآمد ہو گئی۔ یہ ساری تفصیل ضیاالحق کو پہنچا دی گئی۔ انہوں نے اپنی قانونی ٹیم کو حکم دیا کہ اس کیس میں بھٹو صاحب کو پھانسی لگانے کی گنجائش پیدا کی جائے۔ چنانچہ اسی کیس کو بنیاد بنا کر بھٹو صاحب پر مقدمہ قائم کر دیا گیا۔ بھٹو صاحب کی ذرا سی غفلت‘ انہیں پھانسی کے تختے تک لے گئی۔ معمول کے معاملات ہوتے‘ تو یہ دفن شدہ فائل جوں کی توں پڑی رہتی۔ لیکن جب کوئی حکمران جبراً ہٹائے گئے وزیراعظم کو‘ اس خوف سے ملیامیٹ کرنے پر تل جائے کہ ''اگر یہ کبھی آزاد ہو کر حکومت میں آ گیا‘ توضرور انتقام لے گا۔‘‘ جنرل ضیا نے جائز و ناجائز کی پروا نہ کرتے ہوئے‘ عدلیہ کو درجہ بدرجہ احکام جاری کرنا شروع کر دیئے کہ اعلیٰ ترین عدالت تک ایسی فائل جانی چاہیے کہ بھٹو صاحب پھانسی سے نہ بچ سکیں۔ بدنیتی پر مبنی یہ کیس ہائی کورٹ سے شروع کیا گیا۔ جبکہ مقدمہ قتل کی ابتدا سیشن کورٹ سے ہوتی ہے۔ اسی سے ظاہرہو گیا کہ بھٹو صاحب سے‘ ایک اپیل کا حق چھین لیا گیا ہے۔ میں زیادہ تفصیل میں نہیں جائوں گا۔ سپریم کورٹ میںجب آخری اپیل پر سماعت مکمل ہو گئی‘ تو بنچ کے اراکین کے بارے میں تحقیقات کی گئیں۔ رپورٹ یہ ملی کی اگر دو ججوں سے نجات حاصل کر لی جائے‘ توپھانسی کے حق میں فیصلہ دینے والے ججوں میں‘ ایک کا اضافہ ہو جائے گا اور اگر سماعت کرنے والے پورے بنچ کا فیصلہ آیا‘ تو بھٹو صاحب بری ہو جائیں گے۔ایجنسیوں سے مزید تحقیقات کرائی گئیں‘ تو پتہ چلا کہ ایک جج کی ریٹائرمنٹ نزدیک ہے اور دوسرے کے خلاف کوئی کیس بنایا جا سکتا ہے۔ قرعہ جسٹس صفدر شاہ کے نام نکلا۔ ان کے خلاف فائل تیار کی گئی کہ ان کا میٹرک کا سرٹیفکیٹ جعلی ہے۔ اس مقصد کے لئے پرانی تاریخوں میں‘ اسی سکول سے میٹرک کا جعلیسرٹیفکیٹ جاری کرایا گیا‘ جس میں شاہ صاحب کو فیل ظاہر کیا گیا تھا۔ شاہ صاحب کو اطلاع ملی کہ ان پر نہ صرف جعلی سازی کا مقدمہ قائم کر کے انہیں نااہل قرار دے دیا جائے گا بلکہ جیل میں ڈالنے کی تیاریاں بھی ہو چکی ہیں۔ ایک قابل اور دیانتدار جج ہونے کی بنا پر‘ انہیں زندگی کا یہ انجام اچھا نہ لگا اور وہ خاموشی سے بیرون ملک چلے گئے۔ ایک اور جج صاحب کی ریٹائرمنٹ میں چند ہفتے 
رہ گئے تھے۔ چنانچہ فیصلہ موخر کر دیا گیا اور مذکورہ جج صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد‘ اس وقت لکھوا لیا گیا‘ جب بھٹو صاحب کو سزا دینے والوں میں‘ بنچ کے ایک رکن کی اکثریت بن گئی۔ میں کیا؟ پوری پاکستانی قوم اس عظیم المیے کو کبھی فراموش نہیں کر پائے گی۔ آج کہ مجھے علم ہے وزیراعظم نوازشریف کے خلاف‘ کچھ درپردہ سازشیں ہو رہی ہیں۔ ماڈل ٹائون میں فائرنگ کا حکم‘ شہبازشریف نے نہیں دیا تھا۔ باخبر حلقوں میں جو سرگوشیاں چل رہی ہیں ‘ ان کے مطابق کچھ شوٹر آئے تھے‘ جو اندھا دھند فائرنگ کر کے غائب ہو گئے۔ یہ کون تھے؟ اور کہاں سے آئے تھے؟ یہ کسی کو معلوم نہیں۔مگر ایک بات ظاہر ہو گئی کہ کہیں نہ کہیں سازش ضرور ہو رہی ہے اور جب ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت کے فیصلے میں‘ وزیراعلیٰ شہبازشریف اور وزیراعظم نوازشریف کے نام لکھ کر‘ ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا گیا‘ تومیرے اس شک میں اضافہ ہو گیاکہ کہیں نہ کہیں‘ دونوں بھائیوں کے خلاف ضرور کچھ ہو رہا ہے۔ یہ تھا وہ پس منظر میں نے جس کی روشنی میں ''دنیا‘‘ ٹی وی کے ٹاک شو میں‘ رانا ثناء اللہ کو مشورہ دیا کہ آپ ایف آئی آر درج کرا کے‘ اسے قانون کی رو سے منطقی انجام تک پہنچائیں۔ یہی آپ کے لئے بہتر ہے۔ خداجانے رانا صاحب نے‘ میری اس بات کو کس طرح سمجھا کہ وہ مجھ پر ہی برس پڑے۔ میں قومی تاریخ کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہوں۔ میری بھٹو صاحب سے بھی نیازمندی تھی اور شریف برادران سے بھی میرے قریبی تعلقات ‘میری طرف سے آج بھی برقرار ہیں۔ اگر میں دونوں بھائیوں کے خلاف بھی ہو گیا ہوتا‘ تواپنے وزیراعظم اور صوبے کے وزیراعلیٰ پرظلم کرنے کی تیاریوں پر‘ ضرور مضطرب ہوتا۔ میرے سامنے بھٹو صاحب کا انجام ہے اور میں کبھی یہ نہیں چاہوں گا کہ میرے ملک کا ایک اور منتخب وزیراعظم‘ خاکم بدہن اسی طرح کے انجام کو پہنچے۔ پاکستان ابھی تک بھٹو صاحب کے عدالتی قتل کا داغ نہیں دھو سکا۔ دنیا بھر میں دہشت گردی کرنے والے انتہاپسندوں نے ہمیں رسوا کر رکھا ہے۔ ہماری عدلیہ کی شہرت مثالی نہیں۔ ہمیں طعنے کے طور پر ''سکیورٹی سٹیٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اگر ایک اور وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے ساتھ‘ ناانصافی ہو گئی‘ توعالمی برادری میں ذلت و رسوائی کے علاوہ‘ خود پاکستان کی یکجہتی اور سلامتی بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔خصوصاً ان دنوں‘ جبکہ نریندر مودی بھارت کے وزیراعظم ہیں۔وہ اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔ میں وزیراعظم کی سیاسی غلطیوں کی نشاندہی ضرور کرتا ہوں لیکن اس میں کوئی بدنیتی شامل نہیں ہوتی۔جب ملاقات تھی‘ تو یہی باتیں میں خو د وزیراعظم کے گوش گزار کر دیا کرتا تھا۔ اب میل جول نہیں رہا‘ تو لکھ یا بول کر ہی بتا سکتا ہوں۔ رانا ثناء اللہ سے میں نے اسی جذبے کے تحت بات کی تھی۔ میری اب بھی یہ رائے ہے کہ عدالتی حکم کے بعد فوراً ایف آئی آر لکھنے کے لئے کہا جائے اور شامل تفتیش ہونے کے بعد‘ بے گناہی ثابت کر کے‘ ایف آئی آر سے نام خارج کرائے جائیں۔ میرا تو خیال تھا کہ رانا صاحب کو یہ بات پسند آئے گی۔ لیکن وہ تو ناراض ہی ہو گئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved