ہم اپنی آزادی کے 68ویں طوفان خیز سال میں اس طرح داخل ہوئے ہیں کہ ملک کا سیاسی اُفق تاریکی میں ڈوبا ہوا ہے‘ کچھ بھی واضح نہیں۔ اس سال کے یوم آزادی کے موقع پر ہماری بُوقلموں تاریخ کا ایک اور بحران شروع ہوا۔ آج اسلام آباد کی شہر پناہ پر شورش اور بے یقینی دستک دے رہی ہے۔ وطن عزیز کا ہر باشندہ کرب میں مبتلا ہے اور اس سوچ میں غلطاں ہے کہ آیا ہمارا ملک کبھی بحرانوں اور المیوں سے چھٹکارا حاصل کر پائے گا؟ باعزت اور باوقار زندگی کے چند نادر مواقع کھونے کے بعد ہماری داستان ایسے دردناک حوادث سے عبارت ہے جس کی نظیر دنیا کے کسی دوسرے ملک میں نہیں ملتی۔
ہم میں سے کتنوں کو یاد ہے یا صرف جانتے ہیں کہ ہمارے بابائے قوم حضرت محمد علی جناح نے 11 ستمبر 1948ء کو اپنی زندگی کے چند آخری گھنٹے، ماڑی پور ایئرفورس بیس سے گورنر جنرل ہائوس (کراچی) جاتے ہوئے فوج کی اچانک خراب ہو جانے والی ایمبولنس میں، سڑک کے کنارے، انتہائی بے بسی کے عالم میں گزارے تھے؟ اس سے پہلے جب وہ کوئٹہ سے ایئرپورٹ پہنچے تو ان کے ملٹری سیکرٹری کرنل نولز کے سوا حکومت کا کوئی عہدیدار ان کے استقبال کے لیے نہ آیا۔ محترمہ فاطمہ جناح اپنی کتاب ''میرا بھائی‘‘ (My Brother) میں ان اذیت ناک لمحات کو ان الفاظ میں یاد کرتی ہیں: ''قریب ہی مہاجرین کی سیکڑوں جھونپڑیاں تھیں‘ یہ لوگ اپنے کام کاج میں مصروف تھے‘ وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کا قائد‘ جس نے انہیں آزاد وطن دلوایا‘ ان کے درمیان موجود ہے۔ کاریں ہارن بجاتی گزر رہی تھیں‘ بسیں اور ٹرک شور مچاتے رواں دواں تھے اور ہم ایک ایسی ایمبولنس میں بیٹھے تھے جس نے ایک انچ بھی آگے بڑھنے سے انکار کر دیا تھا۔ ہم نے ایک گھنٹہ انتظار کیا۔۔۔۔۔ میری زندگی میں دوسرا کوئی گھنٹہ اتنا طویل اور تکلیف دہ حالت میں نہیں گزرا‘‘۔ کیا مادر ملت کے یہ درد انگیز الفاظ ہمیں کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں یا ان سے ہمارے اندر افسوس اور ندامت کا احساس بیدار ہوتا ہے؟
اس کا جواب ہمارے اُس بے شرم رویے میں پوشیدہ ہے جس کا مظاہرہ ہم نے بطور ایک قوم، قائد کے اس وژن کو پامال کر کے کیا کہ پاکستان نہ صرف ایک مضبوط‘ مستحکم اور جمہوری ملک ہو گا بلکہ یہ امن‘ مساوات‘ انصاف‘ برداشت‘ قانون کی حکمرانی اور حقوق انسانی کی پاسداری کا بھی گہوارہ ہو گا۔ ہم میں سے وہ جو اُس پہلی نسل سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے بانیان پاکستان کے خواب کی روشنی میں تشکیل پاکستان کا ابتدائی مرحلہ دیکھا اور اس تجربے سے گزرے بھی‘ آج یہ دیکھ کر ذہنی شکست کے عذاب میں مبتلا ہیں کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا اس ملک کے بارے میں تصور کیا تھا اور ہم بطور ریاست اور قوم کہاں کھڑے ہیں!
اس یوم آزادی پر ہمیں اپنی حقیقت کا‘ جو کتنی ہی تکلیف دہ کیوں نہ ہو‘ جائزہ ضرور لینا چاہیے تھا۔ اب ہمارا ماضی ایک مکمل نسل کی مدت کے برابر ہے جس کا تقاضا ہے کہ ہم نے اپنی پوری زندگی میں اپنے ملک کے ساتھ جو کچھ کیا اس کا حساب کریں۔ کیا یہ ایک دھندلی اور داغدار تصویر نہیں؟ جی ہاں‘ ہم ایک کٹی پھٹی اور منتشر قوم ہیں، ہمیں ایک بے سہارا ملک نظر آ رہا ہے جسے خود اُس کے باسیوں نے لُوٹ لیا‘ جس کی روح ناتواں کر دی گئی اور جو آج عزت و وقار اور قومی تفاخر سے محروم ہے۔ یہ ایسا بدقسمت ملک ہے جس کے حکمرانوں نے اس کے عوام کو اپنی ذاتی خواہشات کا غلام بنائے رکھا اور جھوٹے وعدے کر کر کے ان کے حقوق کا استحصال کرتے رہے۔
قیام پاکستان کوئی تاریخی حادثہ نہیں تھا۔ یہ ملک ایک علیحدہ وطن کے خاطر برصغیر کے مسلمانوں کی انتھک جدوجہد کا ثمر ہے۔ افسوس‘ اس کے وجود کا پہلا برس ہی اپنے اس قائد کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا‘ جنہوں نے اپنے زیرک اور الہامی تصور سے اس کے مستقبل کی مایوس کن جھلک دیکھ لی تھی۔ وہ ملک کی سیاسی قیادت کے معیار اور کردار سے غیرمطمئن تھے۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ نو آزاد ریاست کا نظم و نسق ایسے سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہے جو مفاد پرست‘ جاگیردارانہ ذہنیت کے حامل اور موقع پرست ہیں۔ قائد کی پریشانی بے جا نہ تھی‘ ملک کے افق پر سیاسی نااہلی سایہ فگن ہو چکی تھی۔
قائد کی بہت جلد رحلت کے بعد ہم پر طرح طرح کے موقع پرست اور کرپٹ حکمران مسلط ہو گئے جن میں قائد جیسی اہلیت اور ساکھ کا عشر عشیر بھی نہ تھا۔ وہ ایک جمہوری ریاست اور پاکستان کے تمام شہریوں کو سماجی و معاشی انصاف فراہم کرنے کی ضمانت دینے کے اہل نہ تھے۔ وہ آزادی کے ان چیلنجوں کا بھی مقابلہ نہ کر سکے جو اسے اپنی جیو پولیٹیکل اور سٹرکچرل فالٹ لائن کے باعث لاحق تھے۔ اگر قائد طویل عمر پاتے تو وہ یہ دیکھ کر یقیناً دکھی ہوتے کہ ہم بحیثیت قوم ان کے تصور کے مطابق پاکستان کی تعمیر کرنے میں ناکام رہے۔ اور ہماری حالت تو یہ ہے کہ ہم نے قائد کے پاکستان کے ساتھ جوکچھ کیا‘ اس پر شرمندہ بھی نہیں ہیں۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ متکبر جاگیرداروں‘ قبائلی اور اشرافیہ پر مشتمل مقتدرہ کا ملک پر غلبہ ملکی نظام میں تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ تبدیلی اسے موافق نہیں۔ یہ لوگ آئین میں ایسی ترامیم کرتے رہے جو ان کے مفادات کا تحفظ کرتی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک ابھی تک ایسے سیاسی نظام سے محروم ہے جو نسلی اور لسانی تنوع کی حامل آبادی کی ضروریات پوری کر سکے۔ ہمارے حکمرانوں نے سماجی و اقتصادی عدم مساوات اور نظام کی کمزوریاں دور کر کے قوم کو متحد کرنے والے عوامل کو مستحکم کرنے کے بجائے ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات اور خواہشات کو پیش نظر رکھا۔ انہوں نے دسمبر 1970ء کے انتخابات میں عوام کی طرف سے ظاہر کی گئی خواہشات کا احترام نہ کیا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحران کا سیاسی حل تلاش کرنے کی بجائے فوجی حل کو ترجیح دی۔ آج ہم اپنی تاریخ کے ایک اور از خود پیدا کردہ بحران کے شکار ہیں۔ یہ ہر اعتبار سے ایک ایسا منظر ہے جس سے ہم کئی بار دوچار ہو چکے ہیں۔ ہمیں ایک کے بعد دوسرے بحران، سیاسی عدم استحکام‘ سماجی ابتری‘ انتشار‘ تشدد‘ انتہا پسندی‘ کرپشن اور قانون کی حکمرانی کے فقدان کا سامنا رہا۔ بلاشبہ ہم ان تمام بحرانوں سے بچ نکلے‘ لیکن کس قیمت پر؟
ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا‘ وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں۔ اس وقت بحیثیت قوم ہمیں اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ ایک آزاد ریاست کے طور پر ہماری بقا کا انحصار نہ صرف اپنے ملک کی آزادی اور جغرافیائی سلامتی کا تحفظ کرنے کی اہلیت پر ہے بلکہ ہمیں اس فرسودہ نظام سے بھی پیچھا چھڑانا چاہیے جس کی بنیاد طاقت‘ از کار رفتہ سماجی اور سیاسی ڈھانچے اور اشرافیہ کے زیر تسلط سٹیٹس کو (Status quo) ہے۔ اب ایسے لوگوں کو اٹھ کھڑے ہونے کی زوردار دعوت دی گئی ہے جو اس نظام کو ختم کر دیں جسے اشرافیہ کا ایک مخصوص طبقہ آزادی کے وقت سے مختلف ادوار میں مختلف سیاسی جھنڈے تھامے قوم کو یرغمال بنائے ہوئے ہے۔ اب سیاسی طاقت اور ہوس کی تکون محاصرے میں ہے۔ تعجب نہیں کہ پاکستان کی اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقہ، جس کی جڑیں سٹیٹس کُو میں پیوست ہیں‘ خوفزدہ ہو کر اس تبدیلی کا راستہ روکنے کے لیے متحد ہو جائیں‘ جس کا عرصہ دراز سے انتظار کیا جا رہا تھا۔
ماضی جیسے المیوں اور سانحات سے بچنے کے لیے ہمیں ایسی بامعنی قومی جدوجہد درکار ہے جس میں حکومتی نظام کا مکمل طور پر از سر نو جائزہ لیا جائے اور بڑے سیاسی فریقوں اور معاشرے کے باشعور طبقات بشمول میڈیا اور وکلا کی مشاورت سے بلا تاخیر ایسا متبادل ڈھانچہ تیار کیا جائے جو قومی امنگوں کا ترجمان ہو۔ صرف الیکشن کراتے رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا‘ نظام کو تبدیل کرنا ہو گا۔
اپنی تاریخ کے اس نازک موڑ پر، بحیثیت ملک و قوم، ہم اپنا مستقبل وقت اور مراعات یافتہ اشرافیہ کے ان خاندانوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے جو دھوکے‘ دولت اور طاقت کے زور پر اپنی بادشاہتیں قائم کیے ہوئے ہیں۔ اب ہم بڑی سادگی سے اس بات پر یقین نہیں کر سکتے کہ سب کچھ جادو کی چھڑی یا خدائی قوت سے ٹھیک ہو جائے گا۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)