ایک عالم ِ دین کی طرف سے کیا جانے والا موجودہ'' انقلاب مارچ‘‘ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ حصول ِ اقتدار کے لیے ذاتی ایجنڈے میں مذہب کی آمیزش کی پالیسی کا انجام معاشرے میں افراتفری اور کشیدگی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ ماضی اور دور ِ حاضر کے حکمرانوں اور مذہبی شناخت رکھنے والی سیاسی تحریکوں نے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے اپنے مخالفین ، حتیٰ کہ عام شہریوں پر تشدد کرنے کو روا سمجھا ۔ تاریخ کا مطالعہ اور موجودہ دور کا جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ مذہب کے نام پر انتہا ئی سنگین لڑائیاں لڑی گئی ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہب اور مذہبی تحریکوں، جن کا اصل مقصد حصول ِ اقتدار ہی ہوتا ہے، میں حتمی اتھارٹی مذہبی رہنمائوں کے ہاتھ ہوتی ہے۔ ان کے پیروکار اُن پر مکمل یقین رکھتے ہوئے ان کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے یا ان کی حکمتِ عملی پر سوال اٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ایسے مذہبی رہنمائوں کی پارسائی اور سچائی کی جانچ کرنے کے لیے درکار عقل اور استدلال کی راہ میں پیروکاروں کی اندھی عقیدت حائل ہوتی ہے۔ اس لیے مذہبی رہنمائوں کو اندھے مقلد مل جاتے ہیں جو ان کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔وہ اس بات کا فہم نہیں رکھتے کہ اُنہیں دراصل سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
دوسری طرف خالص سیاسی جماعت یا تحریک میں رہنما ایک عام شہری ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ عوام کا تعلق عام انسانوں کی سطح پر ہوتا ہے کیونکہ انہیں اس رہنما سے مذہبی عقیدت نہیں ہوتی۔ سیاسی رہنمائوں سے عوام کی وابستگی نظریاتی، نہ کہ جنونی، حد تک ہوتی ہے۔ تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ نیکوکاروں پر مشتمل معاشرے کی تخلیق کے نام پر عوام کے جذبات کو مشتعل کرتے ہوئے تشدد اور خونریزی کی راہ ہموار کی گئی۔ ایسے مذہبی رہنمائوں کے خالص سیاسی مقاصد ہوتے ہیں لیکن وہ اپنے پیروکاروں کی نظر سے اُنہیں اوجھل رکھتے ہیں اور کسی مذہبی معاملے پر اشتعال دلا کر اپنامقصد حاصل کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ہمارے اپنے ملک، ہماری اپنی تاریخ، سے ہی کئی مثالیں لی جاسکتی ہیں۔
آج کل علامہ طاہرالقادری کی طرف سے اسلام آباد کی طرف سے کیا جانے والا نام نہاد ''انقلاب مارچ‘‘ اس طرز ِعمل کی ایک زندہ مثال ہے۔اس وقت ، جبکہ ان کے ہزاروں پیروکار اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں، میرا اور تمام محب ِوطن حلقوں کا خدشہ یہ ہے کہ کہیں علامہ صاحب اپنے پیروکاروں کو اشتعال دلا کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تصادم کی راہ نہ اپنالیں۔ اگرچہ مارچ شروع کرنے سے پہلے اُنھوںنے کچھ سیاسی قوتوں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کا انقلاب مارچ پرامن ہوگا اور بقول ان کے ''ایک گملا تک نہیں ٹوٹے گا‘‘، لیکن ان کی جذباتی تقریریں اور دی گئی ڈیڈلائنز کشیدگی کے خطرے کو بڑھارہی ہیں۔
اس تمام صورت ِحال کے تناظر میں ایک وسیع تر مسئلہ سامنے آتا ہے۔۔۔ چاہے طالبان کے ساتھ لڑائی ہو یا فرقہ وارانہ کشیدگی یا ملک میں پھیلی ہوئی انارکی، ان سب کے پیچھے طاقت اور اقتدار حاصل کرنے کے لیے مذہب کا من پسند استعمال کارفرما ہے۔ براہ ِ کرم میری بات کو غلط نہ سمجھا جائے ۔ میں مذہب پر پختہ یقین رکھتا ہوں۔ میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ اس میں مذہب کا کوئی قصور ہے ، بلکہ ایسے طالع آزمامذہبی رہنمائوں کی طرف سے کی گئی من پسند تشریح اور اس کی مدد سے عقل و استدلال سے دستبردار ہوجانے والے خوش عقیدہ پیروکاروں کے اشتعال کا نتیجہ ہے کہ ہم مذہب کے نام پر بہت سی خونریزی دیکھتے ہیں۔ ایسے رہنمائوں کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ ہمارا معاشرہ ایک بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ہوا ہے اور ہلکی سی چنگاری سب کچھ جلا کر راکھ کر دے گی۔ مذہب کے بارے میں میری ذاتی رائے یہ ہے کہ یہ انسان کو اس کی زندگی کے بارے میں واضح جواب دینے کے علاوہ سماجی امن اور استحکام کی ترویج کرتا ہے۔ تاہم مسئلہ اُ س وقت پیدا ہوتا ہے جب اس کے مجرد احکامات کی من پسند تشریح سے پیروکاروں کو اشتعال دلاکر سیاسی مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔
پاکستان میں اچھی بات یہ ہے کہ پاکستانی ووٹر نے ہمیشہ فہم و فراست سے کام لیتے ہوئے مذہبی جماعتوں کو مسترد کردیا ہے کیونکہ ان جماعتوں کا ایجنڈا معاشرے کو اُس سے کہیں زیادہ مذہبی بنانا ہوتا ہے جتنے وہ خود بھی نہیں ہوتے۔ ایسی جماعتیں اور رہنما سمجھتے ہیں کہ ان کے پا س عوام کے سامنے پیش کرنے کے لیے کوئی قابلِ عمل سیاسی ، سماجی اور معاشی پروگرام نہیں ، ا س لیے وہ عوام کے جذبات برانگیختہ کرتے ہوئے مذہبی عقائد کی آڑ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ا س ضمن میں وہ یہ مفروضہ استعمال کرتے رہے ہیں کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے(کیا دنیا کی دیگر ریاستیں نظریاتی نہیں ہیں ؟) اور اس نظریے پر صرف ان کی اجارہ داری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی ہر ریاست کسی نہ کسی نظریے کی بنیاد پر ہی قائم ہے، لیکن زیادہ تر مہذب ریاستوں کا نظریہ معاشی خوش حالی اور سماجی ترقی ہوتا ہے۔ تاہم ہمارے ہاں مذہب کو نظریے کے مترادف قرار دینے کی وجہ سے بہت سے متحارب فرقے اسے اپنی سیاسی طاقت کے لیے استعمال کرتے ہوئے اپنے حریفوں کو دباتے ہیں۔ اب یہ ہوسکتا ہے کہ اس خطرناک راہ پر چلتے ہوئے سیاسی طاقت ہاتھ نہ آئے لیکن ان مذہبی رہنمائوں کے پاس ذاتی اثرورسوخ اور سماجی طاقت ضرور آجاتی ہے کیونکہ ان کے پاس بلاچون وچراں ہر حکم ماننے والا ایک پرجوش طبقہ موجود ہوتا ہے۔
گزشتہ ایک عشرے سے پاکستان میںالیکٹرانک میڈیا کی ترقی نے بھی ان مذہبی رہنمائوں کے ہاتھ مضبوط کیے ہیں۔ اس سے اُنہیں یہ زعم ہوچلا ہے کہ اب وہ سیاسی طاقت بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ بات بھی نوٹ کی جاسکتی ہے کہ میڈیا نے سیاسی طاقتوںکی بجائے مذہبی گروہوں کی آبیاری کی ۔۔۔یہ صحافت کا صریحاً منفی استعمال ہے ۔ سیاسی طبقے، چاہے اچھے ہوں یا برے، تنقید کا نشانہ بنائے جاسکتے ہیں اور وہ تنقید برداشت بھی کرلیتے ہیں لیکن مذہبی طبقوں پر معمولی سی رائے زنی جان کو خطرے میں ڈال دیتی ہے۔
مختلف مراحل پر مذہب اورسیاست کے امتزاج نے سماجی امن اور اعتدال کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ چونکہ زیادہ تر مذہبی رہنمائوں کا تعلق کسی نہ کسی فرقے سے ہوتا ہے، اس لیے اُنہیں بیرونی ممالک سے مالی امداد بھی ملتی ہے تاکہ وہ کسی مخصوص مسلک کی ترویج کریں۔ چنانچہ ہمارا ملک کچھ دوست ممالک کی پراکسی جنگ کا میدان بھی بن چکا ہے۔ اب مذہبی انتہا پسندی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا انتہائی خطرناک ثابت ہورہاہے کیونکہ سیاسی معاملات میں تو بات چیت اور کچھ لو یا دو سے مسئلہ حل ہوجاتا ہے لیکن مذہبی معاملات میں شدت پسندی اور عصبیت خونریزی کی طرف لے جاتی ہے۔
اس وقت جبکہ ملک انتہا ئی نازک صورت ِ حال کا سامنا کررہا ہے، ہماری نجات اسی میں ہے کہ ہم سیاسی مکالمے، جمہوریت اورآئین کو مضبوط کریں۔اس کے لیے تمام سیاسی قوتوں کو آن بورڈ لیا جائے تاکہ کچھ تصفیہ ہوسکے۔ طاقت کا استعمال کسی طور سود مند نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس میں عوام کے لیے سیکھنے کا سبق یہ ہے کہ وہ جذبات کو عقل پر غالب نہ آنے دیں۔ سیاست جوش کا نہیں، ہوش کا معاملہ ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی مذہبی رہنما کا آلہ ِکار بننے سے بچیں جو اُنہیں تشدد کا ایندھن بنا کر اپنے لیے سیاسی مفاد حاصل کرنا چاہتا ہو۔