تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     20-08-2014

کتبے

گوپی چند نارنگ 
حضرات حیدر قریشی اور عمران شاہد بھنڈر کی طرف سے مغربی مصنفین کی تحریروں سے سرقے کے جھوٹے سچے تابڑ توڑ الزامات کے بعد ایسے دل گرفتہ ہوئے کہ تارک الدنیا ہو گئے۔ یار لوگوں نے ڈھونڈ تو نکالا اور دوبارہ دنیاداری کی طرف مائل کرنے کی کوشش بھی کی لیکن جو روگ دل کو لگا بیٹھے تھے آخر جان لیوا ثابت ہوا۔ آخری رسوم میں شمولیت کے لیے پاکستان سے ڈاکٹر ناصر عباس نیر سیدھے شمشان گھاٹ پہنچے اور ارتھی کے سرہانے کھڑے ہو کر حاضرین کے سامنے اپنا معرکتہ الآراء مضمون ''مابعد جدیدیت‘‘ پڑھا جو سؤرگباشی کے علاوہ کسی کی سمجھ میں نہ آیا۔ ''خبرنامۂ شب خون‘‘ کی طرف سے بھجوائے گئے پیغام تعزیت میں کہا گیا کہ ایسی ہستیاں روز روز پیدا نہیں ہوتیں کیونکہ ایک آدمی کے لیے روز روز پیدا ہونا کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ حکومت کی طرف سے ساہتیہ اکیڈمی کا نام تبدیل کر کے نارنگ ساہتیہ اکیڈمی رکھ دیا گیا۔ 
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا 
اُڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا 
ساقی فاروقی 
اچھے بھلے تھے اور ایک دن اپنی ''آپ بیتی پاپ بیتی‘‘ پڑھ رہے تھے کہ ایک دم احساس ہوا کہ وہ کیا کیا لکھ گئے ہیں؛ چنانچہ پشیمانی اور ندامت کا زبردست دورہ پڑا اور اسی عالم میں روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ پہلی وصیت تو یہ تھی کہ مجھے ن م راشد کی طرح نذر آتش 
کردیا جائے لیکن شاید پھر سوچا کہ آگ تو آگے بھی کافی منتظر ہوگی۔ دوسری وصیت کے مطابق گھر کے صحن میں واقع ان کے محبوب ڈوگی کی قبر کے پہلو میں دفن کردیا گیا جبکہ درمیان میں ایک کھڑکی بھی کھلی رکھی گئی تاکہ دونوں ایک دوسرے کی صحبت سے فیضیاب ہوتے رہیں۔ نمازِ جنازہ افتخار عارف نے پڑھائی اور مرحوم کی مایۂ ناز مکتوب نگاری پر بھرپور لیکچر دیا جس پر کافی لوگ جنازگاہ سے اُٹھ کر چلے گئے۔ اپنا نوحہ زندگی میں ہی لکھ گئے تھے جو باقی ماندہ حاضرین کو پڑھ کر سنایا گیا ۔ طبی رپورٹ میں موت کو حسن اتفاق قرار دیا گیا۔ 
کمر باندھے ہوئے چلنے کو یاں سب یار بیٹھے ہیں 
بہت آگے گئے‘ باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں 
محمد سلیم الرحمن 
ریاض احمد چودھری نے نیا جوتا خریدا تو اس کا ترجمہ کرنے بیٹھ گئے۔ جوتا چونکہ چین سے درآمد شدہ تھا‘ اس لیے زبان کا مسئلہ پیدا ہو گیا جس کا حل یہ نکالا گیا کہ ایک چنگ چی میں بیٹھ کر یہ معرکہ سر کیا گیا اور اسی سرشاری میں جان جاں آفریں کے سپرد کردی۔ نمازِ جنازہ پروفیسر غلام حسین ساجد نے پڑھائی اور مرحوم پر لکھی ہوئی اپنی ساری کتاب پڑھ کر سنائی۔ دھان پان اتنے تھے کہ تدفین کے لیے تلاشِ بسیار کے بعد کفن کی ایک شکن سے دستیاب ہوئے۔ نوحہ ذوالفقار احمد تابش نے پڑھا جبکہ ڈاکٹر خورشید رضوی نے اپنی مشہور ردیف ''اسے کھا گئے‘‘ میں مرثیہ پیش کیا۔ سوگ میں داروغہ والا کی دکانیں ایک گھنٹہ کے لیے بند کردی گئیں جبکہ ''ریڈنگز‘‘ میں حاضرین کو کافی کا ایک ایک کپ مفت پیش کیا گیا۔ مسعود اشعر اپنا تعزیتی پیغام بعد میں جاری کریں گے۔
انتہائے لاغری سے جب نظر آیا نہ میں 
ہنس کے وہ کہنے لگے بستر کو جھاڑا چاہیے 
ڈاکٹر تحسین فراقی 
موسم سرما کی ایک شام کو ایک قبرستان میں سے گزر رہے تھے کہ پائوں جو رپٹا تو ایک بیٹھی ہوئی قبر کے گڑھے میں جا گرے۔ ضعفِ پیری کی وجہ سے ہزار کوشش کے باوجود باہر نہ نکل سکے۔ شام گہری ہونے پر دانت بجنے لگے تھے کہ باہر سے کسی کے گزرنے کی آواز آئی تو بولے کوئی مجھے باہر نکالے‘ سردی سے میرا برا حال ہو رہا ہے‘ جس پر راہگیر نے جاتے ہوئے جواب دیا کہ سردی سے تمہارا برا حال تو ہونا ہی تھا‘ تم پر کسی نے مٹی جو نہیں ڈالی۔ نمازِ جنازہ رفیقِ دیرینہ ڈاکٹر فخر الحق نوری نے پڑھائی اور ڈبڈبائی آنکھوں سے حاضرین جنازہ سے اپیل کی کہ مرحوم کی خدمات کو کم از کم چھ ماہ تک ضرور یاد رکھا جائے۔ مجلسِ ترقیٔ ادب کا چپڑاسی یہ اندوہناک خبر سن کر بیہوش ہو گیا اور ابھی تک اسی حالت میں ہے۔ نوحہ ڈاکٹر ضیاالحسن نے پڑھا‘ یعنی جتنا یاد تھا‘ کیونکہ مسودہ گھر بھول آئے تھے! 
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہلِ وطن 
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ 
حسن نثار 
اپنے ٹی وی پروگرام کے آخر پر اپنا ایک شعر ضرور سناتے اور فیڈ بیک کے بھی طلبگار رہتے جس کا تسلی بخش جواب نہ ملنے پر اس قدر رنجیدہ خاطر ہوئے کہ اس دنیائے فانی سے عالم جاودانی کے سفر پر روانہ ہو گئے۔ نمازِ جنازہ وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے پڑھائی جس کے بعد مرحوم کی خدمات پر روشنی ڈال رہے تھے کہ بجلی چلی گئی‘ چنانچہ باقی رہ جانے والی خدمات پر ٹارچ سے روشنی ڈالی اور کہا کہ جس طرح اس ٹارچ نے اندھیرا دور کردیا ہے اسی طرح ہم بھی قوم اور ملک کے سارے اندھیرے دور کر کے انہیں اُجالوں سے دوچار کریں گے۔ بعد میں دعائے مغفرت کرانے لگے تو اہلِ خانہ نے اعتراض کیا کہ جا کر اپنی حکومت کے لیے دعا کریں جو اس قدر خطرات سے دوچار ہے۔ سوگ میں وزیراعلیٰ نے اپنی درجن بھر وزارتوں میں سے ایک چھوڑنے کا اعلان کیا۔ اس وقت تک اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جملہ حاضرین غائب ہو چکے تھے۔ 
خالد مسعود خان 
حکومت کے خلاف زوردار کالم لکھا لیکن ریلیف محسوس کرنے کی بجائے سخت مایوسی کی زد میں آ گئے اور آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہا کہ اے اللہ‘ ایسی زندگی سے تو موت بہتر ہے۔ یہ کہنا تھا کہ تھوڑی ہی دیر بعد ملک الموت سر پر آ کھڑا ہوا‘ جسے دیکھ کر کہا کہ میں نے تو مذاق کیا تھا‘ تم جانتے نہیں کہ میں ایک مزاحیہ شاعر بھی ہوں؟ فرشتے نے کہا کہ وہ آپ ہوں گے لیکن میں روزنامچے میں سب کچھ درج کر کے آیا ہوں۔ اگر خالی ہاتھ گیا تو اللہ میاں کو کیا جواب دوں گا؛ چنانچہ تکرار بڑھی اور دونوں گُتھم گُتھا ہو گئے۔ آخر منکر نکیر کی مدد حاصل کر کے موصوف پر قابو پایا گیا۔ نمازِ جنازہ ڈاکٹر انوار احمد نے پڑھائی۔ نوحہ اپنے مخصوص انداز میں انور مسعود نے پڑھا جسے سن کر حاضرین ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گئے بلکہ فرمائش کر کے ان کی نظم ''بنین‘‘ (بنیان) بھی سنی گئی۔ 
مارا زمانے نے اسد اللہ خاں تمہیں 
وہ ولولے کہاں‘ وہ جوانی کدھر گئی 
آج کا مطلع 
منزل الگ تراشی‘ رستہ الگ بنایا 
پھر‘ ڈوبنے کو ہم نے دریا الگ بنایا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved