چند روز قبل دنیا بھر کے ٹیلیویژن چینلز پر زخموں سے چُور غزہ فلسطین کے دس سالہ بچے کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ ''اسرائیل کی بمباری سے لگنے والے زخموں سے مجھے درد تو بہت ہو رہا ہے لیکن میری یہ اذیت، میرے زخموں سے اٹھنے والی درد کی یہ ٹیسیں ایک لمحے میں ٹھیک ہو سکتی ہیں۔ میں ایک لمحے میں یہ اذیت اپنے اندر سمو سکتا ہوں اگر مجھے یقین ہو جائے کہ میں کسی آزاد وطن میں ہوں ،مجھے یقین ہو جائے کہ میرا فلسطین کل اسرائیل کی بر بریت سے محفوظ ہو جائے گا ،میں ایک ایسا قیدی ہوں جو نہ تو اپنی مرضی سے کہیں جا سکتا ہے اور نہ ہی اپنی مرضی سے یہاں رہ سکتا ہے‘‘ ۔غزہ فلسطین کے اس دس سالہ بچے کی زبان سے یہ الفاظ سننے والا اگر انسانیت سے ذرا سا بھی آشنا ہو گا توپوری طاقت سے چیخ اٹھا ہو گاکہ '' اپنا وطن کس قدر پیارا ہوتا ہے اپنے وطن کا دامن اس قدر وسیع ہوتا ہے کہ لاکھوں نہیں کروڑوں کو اپنے اندر سمو لیتا ہے ۔اپنا وطن آزادی دیتا ہے رہنے کی، چلنے پھرنے کی اور جہاں دل چاہے آنے جانے کی‘‘۔( پاکستان کی آج کی جمہوریت میں نہیں)۔ وطن سے کسی بھی انسان کی ایک شنا خت ہوتی ہے۔ آپ جہاں رہ رہے ہیں وہ جگہ کتنی ہی خوبصورت کیوں نہ ہو، آپ خود بھی بے شک دنیا کے سب سے خوبصورت انسان ہی کیوں نہ ہوں لیکن اگر آپ کی شنا خت نہیں ،آپ کی اپنی کوئی پہچان نہیں تو وہ خوبصورتی کسی کام کی نہیں ہوتی۔ ہسپتال میں زخموں سے چور غزہ فلسطین کے اس بچے کا انٹرویو سنتے ہوئے مجھے کوے کی کہانی یاد آگئی ۔ہو سکتا ہے کہ اسے پڑھتے ہوئے شاید ہمیں اپنے وطن کی عظمت اور قیمت کا کچھ اندازہ ہو جائے ،جسے ہم سب نظر انداز کیے جا رہے ہیں،جس ماں کی کوکھ سے ہم سب نے جنم لیا ہے،اسی کی عزت سے کھیل رہے ہیں۔
'' آبادیوں سے بہت دور کسی جنگل میں رہنے والا کوا ایک دن صبح صبح اپنے شوق میں بہت اونچا اڑتا، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائوں سے اٹکھیلیاں کرتا جا رہا تھا کہ یک لخت اسے آندھی نے آ لیا اور وہ تیز ہوا کے ساتھ اڑتا ہوا جنگل سے بہت دور کسی ندی کے قریب جا پہنچا ۔اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے ادھر ادھر اڑتے ہوئے ایک سفید رنگ کے پرندے کو دیکھا ،جو دیکھنے میں بہت ہی پیارااور خوبصورت لگ رہا تھا۔کوا کافی دیر حسرت سے اسے دیکھتا رہا۔ اس کی خوبصورتی اور دودھ جیسی سفید رنگت کو دیکھتے ہوئے وہ سوچنے لگا کہ میں اُس جنگل میں اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا تھا لیکن اس ندی کے کنارے پہنچنے اوراس پرندے کو دیکھنے کے بعد محسوس ہوا ہے کہ بلا شبہ اس کے مقابلے میں میری زندگی تو کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ بیٹھے بیٹھے پانی کے اندر چونچ ڈال کر اپنی خوراک نکال لاتا ہے اور جو کچھ یہ کھا رہا ہے، اس کا تو میں نے زندگی میںکبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔کوا اڑ کر سفید رنگ کے اس پرندے کے پاس پہنچا اور اس سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ''تم دنیا کے خوش قسمت ترین پرندے ہو اور دیکھنے میں کس قدر خوبصورت دکھائی دیتے ہو ‘‘۔بگلا کوے کے منہ سے اپنی تعریف سننے کے بعد بولا ''میںپانی میں جب بھی اپنا عکس دیکھتا تھا ، تمہاری طرح سوچتا تھا کہ میں کتنا خوبصورت ہوں لیکن ایک دن میں ندی کے بہائو کے ساتھ بہتے ہوئے بہت دورجا پہنچا۔ وہاں مجھے درختوں کے جھنڈ میں بیٹھا ہوا دو بہت ہی خوبصورت رنگوں والا ایک پرندہ نظر آیا ۔اسے دیکھ کر مجھے لگا کہ میں تو اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ کیا خوبصورت پرندہ تھا !اور اس کی آواز بھی میری آواز سے کہیں پیاری تھی ۔وہ درختوں سے پھل توڑ توڑ کر کھاتا اور پیاری پیاری باتیں کرتا ۔ اس کے ساتھ کچھ دیر رہنے اور باتیں کرنے کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ میری زندگی تو اس کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر تم نے سب سے خوبصورت اورخوش نصیب پرندے کو دیکھنا ہے تو اس ندی کے ساتھ ساتھ اڑتے جائو اور جہاں تمہیں پھلوں اور پھولوں سے لدے ہوئے درختوں کا جھنڈ نظر پڑے ،وہاں رک کر تم اس خوش نصیب اور خوبصورت پرندے کا نظارہ کر سکتے ہو‘‘۔
کوا ندی کے ساتھ ساتھ اس کے بتائے ہوئے رستے کی طرف رک رک کر پرواز کرتا ہوا اس جھنڈ کے قریب جا پہنچا جہاںدو مختلف خوبصورت رنگوں والا پرندہ چونچ سے پانی بھر بھر پیتا نظر آ گیا۔ چند لمحے تک تو وہ اس کی خوبصورتی میں کھو سا گیا ۔اسے یقین ہو گیا کہ بگلا سچ کہہ رہا تھا، اس سے زیا دہ خوبصورت ،خوش رنگ اور خوش قسمت دنیا میں اور کون ہو سکتا ہے ۔کوے نے جب طوطے کی خوش قسمتی اور خوبصورتی کی تعریف کرتے ہوئے اس سے اپنے دل کی یہ بات کہی تو طوطا کچھ دیر چپ رہنے کے بعد بولا ''ایسا نہیں ہے ۔بگلے کی طرح میں بھی اپنے آپ کو سب سے زیادہ خوبصورت سمجھا کرتا تھا لیکن ایک دن اڑتے اڑتے میں دور ایک شہر کی طرف چل پڑا تو وہاں ایک او۔ر پرندے کو دیکھا ۔تم تو میرے پروں کے صرف دو رنگ دیکھ رہے ہو ، اس کے تو کئی رنگ ہیں اور ہر رنگ ایک دوسرے سے اس قدر خوبصورت ہے کہ دیکھنے والا دیکھتا ہی رہ جاتا ہے اس لیے اگر تم نے دنیا کا سب سے خوبصورت اور خوش قسمت پرندہ دیکھنا ہے تو اس شہر کے باغ میں چلے جائو اور اپنی آنکھوں سے اس کی خوب صورتی کا نظارہ کرلو‘‘۔
کوا ایک طویل اڑان کے بعد اس شہر کے باغ میں پہنچ گیا، جہاں چھوٹے بڑے بہت سے پنجرے بنے ہوئے تھے ۔اس نے ایک پنجرے، جس کے ارد گرد بچوں اور بڑوں کا ایک ہجوم جمع تھا،اس پرندے کو دیکھا تو اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔اس قدر خوبصورت نظارہ اس نے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا ۔ وہ بھی لوگوں کے ہجوم کے ساتھ اس کے حسن اور خوبصورتی میں کھو گیا۔مور اپنے خوبصورت پروں کو پھیلائے جھومتے ہوئے ناچ رہا تھا ۔لوگ جوق در جوق اسے دیکھنے کے لیے کھنچے چلے آ رہے تھے ۔شام ہو نے پر جب مور اکیلا رہ گیا تو کوا س کے پاس پہنچا اورا سے کہنے لگا '' تم کتنے خوبصورت اور خوش قسمت ہو کہ ہزاروں لوگ دور دور سے روزانہ تمہیں دیکھنے کے لیے آتے ہیں اور تمہاری خوبصورتی میں کھو جاتے ہیں ،قسم قسم کی چیزیں تمہیں کھانے کو بھی دیتے ہیں۔ایک میں ہوں کہ کوئی توجہ ہی نہیں دیتا بلکہ مجھے دیکھتے ہی بھگا دیتے ہیں‘‘۔
مور نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کوے سے کہا'' بھائی میں بھی شروع میں خود کو دنیا کا سب سے خوبصورت اور خوش قسمت پرندہ سمجھتا تھا لیکن جلد ہی مجھے احساس ہو گیا کہ اپنی خوبصورتی کا غرور اور میرے پنجرے میں لوگوں کی طرف سے پھینکے جانے والے قسم قسم کے پھل اور مزیدار خوراکیں میری آزادی کی دشمن ہیں ۔میںتو کئی دنوں سے سوچ رہا ہوں کہ کاش میں کوا ہوتا اور اس پنجرے میں قید ہونے کی بجائے اپنی مرضی سے جہاں چاہتا، زندگی بسر کرتا ،لوگوں کے خیرات میں دیئے جانے والے بے تحاشا اور نت نئے کھانوں کی بجائے سادہ غذا پر گزارہ کرلیتا ،مانگا تانگا کھاکر اپنوں اور دنیا کو اپنی خوبصورتی دکھانے کی بجائے کاش ...میںآزاد ہوتا...!! ‘‘