دشمن کو کبھی کمزور نہ سمجھنا چاہیے۔ یہ نکتہ عمران خاں نے بھلا دیا اور یہ بھی کہ پوری طرح اپنا لشکر مرتب کیے بغیر جو سپہ سالار میدان میں اترتا ہے ، اس کی فتح بھی شکست میں بدل سکتی ہے ۔اس قوم پر افسوس ، ہر بار جو جذبات کے طوفان میں بہہ جاتی ہے ۔ ہر معرکہ آرائی کے بعد جس کے ہاتھ خالی ہوتے ہیں ۔ عقل و خرد کا متبادل کوئی نہیں اور اللہ کے قوانین کبھی نہیں بدلتے ۔
ایک لمحے کو اسلام آباد کے مناظر بھلا دیجیے ۔ خود سے سوال کیجیے کہ ملک کو درحقیقت کس چیز کی ضرورت ہے ؟ صاف ستھرے انتخابات ، ایک ایسی پولیس جو ظالم کی بجائے مظلوم کی مددگار ہو ۔ عدالت‘ جو انصاف عطا کر سکے ۔ ہسپتال ، جہاں مریض کو مسیحا میسر ہو ۔ تعلیمی ادارے ، جہاں وقت ضائع کرنے والے استاد اور شاگرد نہ پائے جاتے ہوں ۔ سیاسی استحکام اور امن وامان کہ معاشی نمو کے لیے زرخیز زمین کی مانند ہوتاہے... شریف حکومت پسپا ہو گئی ہے مگر اب بھی ان سب معاملات پر مذاکرات کے سوا پیش رفت کا کوئی طریق ممکن ہے ؟
تین امکانات ہیں ۔ اوّل یہ کہ میاں محمد نواز شریف خود ہی وسط مدّتی الیکشن پر آمادہ ہو جائیں ۔ ثانیاً یہ کہ بنیادی مطالبات پر ہنگامہ آرا جماعتوں اور حکومت میں بات چیت ہو اور انتخابات کچھ عرصے کے بعد ۔ خدانخواستہ اگر یہ بھی نہیں تو فوجی حکومت ۔ ان میں سے کون سی ترجیح سازگار ہے ؟
نواز شریف سے غیر معمولی جرأت اور پہل قدمی کی امید نہیں کی جا سکتی ۔ خاندان کے سوا بہت کم لوگوں پر وہ اعتماد کرتے ہیں ۔ ان کے مشیر ناقص ہیں ۔ اگر نہ ہوتے تو نوبت یہاں تک کیسے پہنچتی۔ فرض کیجیے‘ نئے الیکشن کا وہ اعلان کر دیتے ہیں ؟قابلِ اعتماد الیکشن کمیشن اور عبوری حکومت کی بحث کو کچھ دیر کے لیے اٹھا رکھیے۔ فرض کیجیے ، یہ معاملات خوش اسلوبی سے طے پا جائیں ؟
پنجاب میں پیپلز پارٹی کو نواز شریف مفاہمت کی پیشکش کریں گے ۔ اس کے لیے قبول کرنے کے سوا اورکیا چارہ ہوگا ؟ صوبہ سندھ میں اس کے عوض وہ چند نشستوں کا مطالبہ کرے گی اور اندازہ یہ ہے کہ مان لیا جائے گا۔ پختو ن خوا میں نون لیگ ، جمعیت علمائے اسلام ، اے این پی اور جمہوری وطن پارٹی کی تائید کے سا تھ میدان میں اترے گی۔ بلوچستان میں محمود خان اچکزئی اور ڈاکٹر عبد المالک کے ہمراہ ۔ مولانا فضل الرحمن کی جماعت اب اچھی حالت میں نہیں کہ مولانا محمد خان شیرانی اپنے لیڈر سے نالاں ہیں ۔ الگ سے الیکشن لڑیں یا نون لیگ کے ساتھ سمجھوتے کے تحت ، آخر کار وہ نواز شریف ہی کے ساتھ کھڑے ہوں گے ۔ عمران خان انہیں کیا دے سکتے ہیں ؟
وہ واحد جماعت جس کے ساتھ کپتان کا سمجھوتہ ممکن ہے ، جماعتِ اسلامی ہے ؛اگرچہ اس امکان کو مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ پنجاب ، کراچی اور پختون خوا میں تحریکِ انصاف سے زیادہ بہتر پیشکش کر کے نون لیگ اسے مشکل میں ڈال سکتی ہے ۔ عام طور پہ باور کیا جا تا ہے کہ جماعتِ اسلامی اور تحریکِ انصاف آسودہ حلیف ہیں ۔ یہ تاثر غلط ہے۔ جماعتِ اسلامی کی قیادت کے بہت کچھ
تحفظات ہیں ۔ ایک د انا لیڈر کی طرح سراج الحق طوفانی ایام میں اظہار سے گریز کرتے رہے ۔ اپنے حلیف کے وقار کا انہوں نے خیال رکھا۔ اس باب میں نپولین کا قول مگر حرفِ آخر ہے : سیاست میں حلیف ہوتے ہیں یا دشمن، دوست کوئی نہیں ۔
احتجاجی تحریک کے آخری مرحلے میں عمران خاں نے دوبڑی غلطیوں کا ارتکاب کیا۔ ایک تو پیہم وہ ایسی زبان استعمال کرتے رہے ، فعال اور سنجیدہ طبقات میں جسے بہت ہی ناپسند کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر یہ پوری طرح آشکار تھا۔ ثانیاً اپوزیشن پارٹیوں کے باب میں جو طرزِ عمل اور لب و لہجہ انہوں نے اختیار کیا، مستقبل میں ان کے لیے وہ مسائل پیدا کرے گا۔ شاید وہ عمران خان کی زندگی کا بدترین لمحہ تھا، جب شیخ رشید نامی شخص کوانہوں نے مشیر کے طور پر گوارا کرنے کا ارادہ کیا۔ شیخ صاحب ایک انفرادی زندگی گزارتے ہیں اور ان کی ترجیحات ہمیشہ سوفیصد ذاتی ہیں۔
سراج الحق کے فارمولے پر خان صاحب نے غور فرمانے کی زحمت گوارا نہ کی۔ کسی قدر وہ بہتر بنا لیا جائے تو وہ راہ متعین ہو سکتی ہے جس کے نتیجے میں ملک کی گاڑی پٹڑی پہ چڑھ جائے ۔ انتخابات میں دھاندلی کا خاتمہ ہو جائے، تقریباً مکمل طور پر ۔ ایسا الیکشن ، ملک کی سب سے بڑی ضرورت ہے ، جو استحکام پر منتج ہو اور معاشرہ برگ و بار لا سکے ۔ اس باب میں سب سے زیادہ ضرورت یہ ہے کہ مفاہمت کا ماحول پیدا کیا جائے ۔ حریف پر یلغار اپنی جگہ لیکن آخر کار بات ہی کرنا ہوتی ہے ۔ کھیل کے ضابطے ہی مرتب کرنا ہوتے ہیں ۔ عمران خان اتنی دور چلے گئے کہ قیمت چکائے بغیر اب واپسی ممکن نہ ہوگی ۔
بار بار گزارش کی کہ عمران خان کے مطالبات درست ہیں لیکن حکمتِ عملی ناقص۔ اب وہ کامیابی کی دہلیز پر کھڑے ہیں تو شش و پنج کا شکار ہیں کہ کریں کیا؟ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران جنرل حضرات بہت باریک بینی سے جائزہ لیتے رہے ۔ بہت سوچ سمجھ کر انہوں نے مداخلت کا فیصلہ کیا اور کشتی کو اب وہ منجدھار میں نہیں چھوڑیں گے ۔ اب یہ واضح ہے کہ اگر کوئی سمجھوتہ ہوا تو فوج کی ضمانت کے ساتھ ہوگا۔ عمران خان کیا مطالبہ لے کر جائیں گے؟ کیا کوئی بتا سکتاہے کہ شریف خاندان سے نجات کے سوا اپنی ظفر مندی کے اسباب کس طرح وہ مہیا فرمائیں گے ؟
اداروں نے ان کی مدد کی۔ فوج نے اپوزیشن کے خلاف استعمال ہونے سے انکار کر دیا۔ چیف جسٹس ناصر الملک عدل کے طے شدے رویے پر ڈٹے رہے ۔ تعجیل سے کام لے کر عدالتی کمیشن کی تشکیل سے انہوں نے گریز کیا۔ فوج اور عدلیہ کی غیرجانبداری کے طفیل ہی کامرانی کی وہ ساعت طلوع ہوئی ، جس پر فرطِ مسرت سے عمران خان بے حال ہیں ۔ سوال مگر یہ ہے کہ اب وہ کس طرح پیش قدمی کریں گے ؟
تحریکِ انصاف کے ایک ممتاز رہنما نے آج اس نیاز مند سے یہ کہا کہ وزیراعظم اب اپنی شرائط تسلیم کرانے کے قابل نہیں۔ میں نے ایک پیغام ان کی خدمت میں ارسال کیا ''فوراً ہی اگر الیکشن ہو جاتے ہیں تو آپ کیا کریں گے ؟ فوج ،کاروباری طبقات اور سیاسی پارٹیاں آپ کے بارے میں تحفظات رکھتی ہیں۔ نواز شریف کو حلیف مل جائیں گے، آپ کو نہیں‘‘۔ نئے الیکشن میں ، اگر وہ منعقد ہو سکیں تو کراچی اور پنجاب میں عمران خان کچھ زیادہ سیٹیں جیت سکتے ہیں ۔ مان لیا کہ سرحد حکومت بھی... کیا یہی ان کا ہدف تھا؟ عالمی طاقتوںکو انہوں نے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ چلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ خودداری بجا اور لائقِ تحسین مگر اللہ کے آخری رسولؐ کا فرمان یہ ہے: اپنے کاموں میں رازداری سے مدد لیا کرو۔ کیا سرکارؐ کا یہ فرمان ہماری موجودہ صورتِ حال پہ منطبق نہیں؟ اسد عمر سمیت جو بھی سننے پر آمادہ تھا، یہ نکتہ گوش گزار کیا تھا۔ توجہ دلانے کے سوا ایک عامی کیا کرتا؟ کپتان کی سب سے بڑی کمزوری ا س کی اپنی پارٹی ہے ، جسے منظم کرنے کے لیے کم از کم ایک سال درکار ہے۔ لاکھوں مخلص کارکن مگرجابجا ان کی گردنوں پر کوڑھی سوار ہیں ۔
دشمن کو کبھی کمزور نہ سمجھنا چاہیے۔ یہ نکتہ عمران خاں نے بھلا دیا اور یہ بھی کہ پوری طرح اپنا لشکر مرتب کیے بغیر جو سپہ سالار میدان میں اترتا ہے ، اس کی فتح بھی شکست میں بدل سکتی ہے۔