ملک بھر کے اخبارات اور ٹیلیویژن چینلز پر گزشتہ دو تین ماہ سے ' قائد اعظم سولر پارک‘‘ کے نام سے مرکزی اور پنجاب حکومت کی جانب سے دکھائے جانے والے اشتہارات میںقوم کو خوشخبریاںدیتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ اس سے ملک کو درکار بجلی کی پیداوار میں 900 میگا واٹ کا اضافہ ہو جائے گا۔ ملک کی بہتری کیلئے کیے جانے والے کسی بھی کام اور منصوبے کی کامیابی کیلئے ہر پاکستانی کو دعا کرنی چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ پوچھنے کی اگر کوئی جسارت کر بیٹھے تو برا نہ منایئے گا کہ۔۔۔ جناب والا آپ سو لر پارک سے بجلی کی پیداوار میں اضافے کی بات تو کر رہے ہیں لیکن یہ بھی تو قوم جاننا پسند کرے گی کہ قائد اعظم کے نام سے قائم کیے جانے والے اس سولر پارک کے پیداواری عمل سے حاصل ہونے والی بجلی اور منظور کیے جانے والے نرخوں سے اس غریب قوم کا کیا حشر ہو گا؟۔مرکز اور پنجاب کی جڑواں اور بھائی چارے کی حکومت قوم کو خوش خبریاں سناتے اور دکھاتے ہوئے ساتھ یہ بھی تو بتائے کہ دنیا کا مہنگا ترین یہ سودا کیوں اور کس کے کہنے پر کیا گیا؟۔ ذرا سوچئے کہ اگر آپ کو تمام پٹرول پمپوں سے109 روپے فی لیٹر پٹرول ہر وقت وافر مقدار میں مل رہا ہو تو کیا آپ کسی ایک ایسے پٹرول پمپ سے پٹرول لینا پسند کریں گے جو200 روپے فی لیٹر بیچ رہا ہو؟۔اگر اس ملک اور اس کی پہلے سے ہی پسی ہوئی ظلم اور زیادتیوں سے ادھ موئی قوم پر یہ ظلم ضروری تھا توپھر اس کیلئے بانی پاکستان قائد اعظم کا نام کیوں استعمال کیا گیا؟ ۔ جہاں آپ نے پہلے ہی سے بے تحاشہ عمارتوں اور منصوبوں کے نام اپنے نا موں پر رکھ لیے ہیں وہاں اس سولر پارک کا نام بھی اپنے ہی نام پر رکھ لیتے تو کیا حرج تھا ؟
اگر آپ میں سے کسی ایک کو یہ معلوم ہو جائے کہ حکومت پاکستان کا غیر ملکی کمپنی سے کیا جانے والا یہ معاہدہ اس قدر مہنگا کیوں ہے؟ لوگ یہ جاننے کے بعد یقینااس بات پر سوچنے میں مجبور ہو جائیں گے کہ ان پر ایسا ظلم و ستم کب تک ہوتا رہے گا؟۔۔۔۔۔ ہمارے ملک میں فرنس آئل سے بجلی پیدا کرنے والے جو پاور پلانٹس اس وقت کام کر رہے ہیں ان سب کا ٹیرف 16 سینٹ فی کلو واٹ مقرر ہے اور قائد اعظم سولر پارک کے نام سے منظور کئے جانے والے ٹیرف کا نرخ ان کے مقابلے میں22 سینٹ فی کلو واٹ منظور کیا گیا ہے۔قوم کے ساتھ یہ ظلم جو چند ماہ بعد بجلی کے بلوں میں ایک بار پھر بے تحاشہ اضافے کی صورت میں سامنے آنے والا ہے کس کو نوازنے کیلئے کیا گیا ہے؟ سیا ستدانوں کی بات چھوڑ دیں اس ملک کی وہ بیوروکریسی جو اس معاہدے کو تیار کرنے میں مصروف رہی ہے اسے ماں جیسے وطن پاکستان اور اس کے اندر رہنے والے80 فیصد سے زائد مجبور اور بے بس عوام کے خلاف کیا جانے والا معاہدہ کرتے وقت یہ خیال کیوں نہیں آیا؟۔ کیا قائداعظم کے نام سے قائم کیے جانے والے اس بم نما معاہدے کو پاکستان کے غریب عوام پر پھینکتے ہوئے ایک لمحے کیلئے بھی ان کا ہاتھ نہیں کانپا؟ کیا ایک لمحے کیلئے بھی کسی ایک نے بھی یہ
سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ اسی طرز کے اور اسی طاقت کے سولر پارکس کا بھارت اور بنگلہ دیش نے جب ایک غیر ملکی کمپنی سے معاہدہ کیا تو اس ملک کی حکومت اور اس بیوروکریسی نے اس کا ٹیرف 10 سینٹ سے بھی کم رکھا؟ اور آپ نے بائیس سینٹ رکھ دیا۔ دنیا بھر میں سولر پارک بنانے والے لوگ حیرانی سے ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ'' کیا پاکستان کی حکومت اور اس میں بیٹھے ہوئے اعلیٰ سرکاری افسران اور خزانے کے وزیر سمیت کسی نے بھی نہ سوچا کہ دوسرے تمام ایشیا ئی ممالک کے مقابلے میں قرضوں میں گردن تک ڈوبے ہوئے پاکستان نے بجلی پیدا کرنے کا اس قدر مہنگا ترین یہ ٹیرف کیوں منظور کیا؟۔کیا ان میں سے کسی کو بھی ایک لمحے کیلئے یہ خیال نہیں آیا کہ دنیا بھر میں لوگ سوال اٹھائیں گے کہ بھارت اور بنگلہ دیش میںدس سینٹ فی کلو واٹ اور اس کے مقابلے میں پاکستان میں اس کے دو گنا سے بھی زیا دہ 22 سینٹ فی کلو واٹ ٹیرف کیوں؟۔۔۔۔۔
جب یہ معاہدہ ہونے جا رہا تھا تو اس وقت پاکستان میں ورلڈ بینک کے کنٹری ہیڈ ''Rachid '' نے پاکستان کی ایک اہم ترین شخصیت سے ملاقات کرتے ہوئے انہیں بتا دیا کہ اس قدر مہنگے ٹیرف کیلئے ہماری مدد کی توقع مت رکھیے گا۔جب سولر پارک کے ٹیرف کا یہ معاہدہ ہونے جا رہا تھا تو کیا کسی نے یہ پوچھنے کی زحمت گوارا کی کہ چین کےGol mud، بھارت کے ولسپنسولر انرجی پروجیکٹ، فرانس کے Toul Rosseresسولر پروجیکٹ، یوکرین کےperona سولر پارک اور نیوزی لینڈ،آسٹریلیا، برازیل، چلی، ڈنمارک، فن لینڈ، بلغاریہ، ایری زونا اور کیلیفورنیا میں سولر پارک سے حاصل کی جانے والی بجلی کا فی کلو واٹ کیا نرخ ہے؟۔
ایک طرف عوام پر اگلے ماہ بجلی بم گرانے کا یہ بھاری ٹیرف اور اوپر سے دنیا بھر سے ایک بار پھر نئے قرضوں کی بھر مار کی جا رہی ہے۔ گزشتہ ماہ مسلم لیگ نواز کی موجو دہ حکومت نے اس ملک پر پہلے سے واجب الادا قرضوں کے علا وہ اب52 بلین ڈالر مزید قرضہ اس قوم کی گردن پر سوار کرنے کے معاہدوں کی تیاریاں شروع کر دی ہیں اور ان میں کچھ حصہ وصول بھی ہو چکا ہے ۔یہ تو وہ قرضے ہیں جو قرض دینے والے بین الاقوامی اداروں، جن میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک شامل ہیں،سے لیا جا رہا ہے اور پاکستانی بینکوں سے جو ہوش ربا قرضہ بھاری سود پر حاصل کیا گیا ہے اسے بتاتے ہوئے سٹیٹ بینک کے نئے گورنر رک جاتے ہیں لیکن گورنر سٹیٹ بینک صاحب آپ کے چھپانے کاکوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ تمام بینکوں نے ملک کی بدلتی ہوئی سیا سی صورت حال کو دیکھتے ہوئے اپنے اپنے کھاتوں میں اس کا با قاعدہ اندراج کرا دیا ہے۔
اس قسم کے جان لیوا معاہدے کرنے والوں میں سے کسی ایک نے بھی آج تک یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ ایسے معاہدوں سے پہلے سے ہی کچلی مسلی ہوئی یہ قوم بھاری بلوں سے اور بھی بد تر ہو جائے گی جب یہی بجلی کمرشل نرخوں پر پیداواری یونٹوں کو مہیا کی جائے گی تو اس سے مہنگائی کا پہلے سے ہی اچھلتا ہوا طوفان کس قدر قیامت ڈھانے لگے گا۔ زرعی اجناس کے بھائو اس قدر بڑھ جائیں گے کہ لوگ چاول، آٹا، گھی اور گھر کا باورچی خانہ چلانے کیلئے ان بنیا دی ضروریات کیلئے مرنے مارنے پر مجبور ہو جائیں گے؟ یاد رکھئے گا پھر عام آدمی کو جمہوریت، پارلیمان، آئین یا انتخابات سے کوئی دلچسپی نہیں رہے گی۔۔۔۔جس کا بچہ اس کے سامنے بھوک سے مر رہا ہو، اس وقت وہ کچھ بھی نہیں دیکھتا...!!