تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     21-08-2014

فیصلے کی گھڑی

عمران خان کا پر ہنگام لانگ مارچ بالآخر ناکامی کے اُس آشوب میں ڈوب جائے گا جو ہمیشہ سے خود سر مہم جوئوں کا مقدر بنتا رہا۔ خیبر پختونخوا سمیت پنجاب کے عوام کی اکثریت نے خان صاحب کی شوریدہ سری سے گریزاں رہ کر قومی سیاست کی روایت بدل دی ہے۔ 14اگست کی شام ، لاہور کے زمان پارک سے بڑے دعوے کے ساتھ نکلنے والے عمران خان چھتیس گھنٹوں کی مسافت طے کرنے کے بعد 15 اگست کی رات جب بنی گالہ کی طرف پلٹ رہے تھے تو ان کی اٹھارہ سالہ سیاست کا سنگھاسن ڈوب چکا تھا، اب وہ طاہر القادری کی رفاقت میں ایک حقیر اقلیت کے ہمراہ اسلام آباد میں ایسی پیش قدمی کی طرف مائل ہیں جو حکومت کو طاقت کے استعمال پہ اکسا کے انسانی المیہ بپا کرسکتی ہے۔ چند ہزار کا یہ مجمع جس میں خواتین کے علاوہ شیر خوار بچے بھی شامل ہیں، ریاستی شکوہ کی علامت پارلیمنٹ کی طرف اس لیے بڑھا کہ سیاسی ناکامی کی خجالت کو کارکنوں کے خون کی سرخی میں چھپایا جا سکے، اگرچہ حکومت کو عملاً مظاہرین سے ایسا کوئی خطرہ نہیں کہ وہ حکومت کا تختہ الٹ سکیں گے،لیکن میڈیا کی بدولت ان کی محدود مساعی بڑے بحران کی مانند ابھر کر نفسیاتی تنائو کی صورت پیدا کر چکی ہے اور یہ حکمرانوں کے اخلاص اور بصیرت کا امتحان بن گئی ہے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ فیصلہ کی گھڑی آن پہنچی ہے۔ یہ کشمکش جمود پرور سوچوں اور آئینی بالادستی کے تصورکی حامل قوتوںکے درمیاں آخری معرکہ بن رہی ہے۔ پاکستانی عوام کی جمہوری آزادیوں اور آئینی حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری کا سارا بوجھ نواز شریف اور ان کے رفقا کے کندھوں پر ہے۔ اس مرحلے پر اگر انہوں نے قربانی دینے کا تہیہ کر لیا تو یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے طے ہو جائے گا، بصورت دیگر غیر جمہوری طاقتیں ایک بار پھر طویل عرصے کے لیے عنان حکومت سنبھال لیں گی۔ نواز شریف دو بار وزیراعلیٰ اور تین بار وزیر اعظم رہنے کے علاوہ زندگی کی ساٹھ سے زائد بہاریں دیکھ چکے ہیں،وہ مزید کتنا عرصہ جیتے رہیں گے؟ ذلت کی زندگی کے بجائے اگر وہ عظیم مقصد کے لیے عزت کی سیاسی موت کو ترجیح دے سکے تو نہ صرف جمہور غالب آئے گا بلکہ ملک بھی محفوظ و مامون رہے گا۔ لیکن بہر حال حکومت رہے نہ رہے، یہ سیاسی جنگ جسے عمران خان نے خود شروع کیا، ان کی سیاست کا واٹر لو ثابت ہوگی ۔ 14 اگست کی صبح تک عمران خان ایک قابل رشک سیاسی قوت کے حامل تھے، وہ حکومت سے معاہدہ کر کے نہ صرف کچھ مطالبات منوا کر ملکی سیاست میں ناقابل تسخیر سیاسی قوت بن کے ابھر سکتے تھے بلکہ دبائو میں آ کر عمران خان سے سمجھوتہ کرنے کے بعد حکومت کی ساکھ سکڑ جاتی، اگلے پانچ برسوں میں سیاسی و معاشی پالیسیوں کی تشکیل میں ان کی رائے کو وقعت ملتی اور ایک مستند سیاسی ہونے کے ناتے پاکستانی عوام کے علاوہ پوری مہذب دنیاان کی بات توجہ سے سنتی۔ ان کا یہی سیاسی ڈیٹرنٹ سیاسی نظام کی تشکیل نو میں موثر کردار بھی ادا کرتا۔ اے کاش وہ دیوار پہ لکھا پڑھ نہ سکے اور اپنی خواہشات کے خم و پیچ میں الجھ کے زندہ حقائق سے اغماض برت گئے۔ انہیں دیکھنا چاہیے تھا کہ قومی و علاقائی جماعتوں کے علاوہ مذہبی قوتیں، سول سوسائٹی، عدلیہ اور پوری پارلیمنٹ کسی بھی ماورائے آئین اقدام کی مزاحمت پہ یکسو ہو چکی تھی۔ ان حالات میں غیرآئینی طریقوں سے حکومت کا تختہ الٹنے کے امکانات کم سے کم ہوں گے۔ حالات کا ادراک کئے بغیر انہوں نے اپنی سیاسی قوت کو بے مقصد مہم جوئی میں جھونک کر خود کو بند گلی میں لا کھڑا کیا۔ وہ سیاسی لچک سے محروم ایسے رہنما ثابت ہوئے جو اپنی خواہشات سے اوپر اٹھ کے سوچنے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔ اب میڈیا کی ساحرانہ قوت سے استوار ہونے والی عمران کی سیاسی قوت کا بھرم کھل رہا ہے اور نواز شریف زیادہ طاقتور وزیراعظم کے طور پہ ابھرکے سامنے آنے والے ہیں۔ عمران خان سیاست کی روایات اور سیاسی قوت کو برتنے کے فن سے نا آشنا نکلے ، انہیں معلوم ہی نہیں کہ سیاسی طاقت دو دھاری تلوار کی مانند دونوں طرف کاٹتی ہے، اس تلوار کے وار سے اگر دشمن بچ جائے تو حملہ آور خود کٹ جاتا ہے۔ عمران خان کو مایوسی نے ریاست کے خلاف سول نافرمانی کی ایسی مہمل تحریک میں نجات ڈھونڈنے کی راہ دکھائی جو ان کے اعلان کے ساتھ ہی ہوا میں تحلیل ہو گئی۔اب وہ خیبر پختون خوا حکومت کے سوا قومی اور صوبائی اسمبلی سے مستعفی ہونے کے ذریعے اپنی بارگیننگ پوزیش بحال کر کے مذاکرات کی میز پر آنے کے لئے سرگرداں ہیں۔ آخری خطاب میں ان کے لہجے میں مایوسی کا کرب نمایاں تھا اورجوش خطابت میں وہ نواز شریف کو عدلیہ،انتظامیہ ،الیکشن کمیشن اور جرنیلوں تک کو خرید لینے کا ماہر بتا کے اور لاشعوری طور پر ناقابل شکست مان کر قومی اداروں کے تمام ذمہ داروں کو بکائو مال کہہ گئے۔ وہ صحیح راستے پر چلنے کے خبط میں بھٹک کے اس ذہنی کیفیت تک جا پہنچے کہ اپنے سوا سب کو کرپٹ اور بے وفا ثابت کرنے پہ اتر آئے۔ عمران خان کو پوری زندگی پذیرائی ملتی رہی، انہیں مزاحمت و ناکامی کا سامنا کبھی نہیں کرنا پڑا،اس لیے وہ تیزی سے پوزیشن بدل لیتے ہیں کیونکہ ان میں شکست کا صدمہ سہنے کی قوت اور استقامت کی کمی ہے۔ جب تک کوئی ادارہ ، فرد یا ماحول اس کی آرزوئوں سے ہم آہنگ رہے اسے معقول اور درست دکھائی دیتا ہے، جونہی حالات کی بوقلمونی کسی شخص کو عمران کی تمنائوں کے متخالف لے آئے ، وہ اسے غیر معتبر اور مجرم تصور کر لیتے ہیں۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری اس کی نمایاں مثال ہیں۔ جب تک ان کی مساعی عمران خان کی توقعات سے مطابقت رکھتی تھی جسٹس چوہدری ان کے ہیرو تھے، جونہی حالات نے انہیں مختلف کردار ادا کرنے پر مجبورکیا، عمران انہیں علانیہ دشمن کہنے لگے۔ لگتا ہے، عمران خود اپنی فہم و فراست کو معیار بنا کے دنیا کو پرکھنے کے خوگر ہیں، جنہیں ان کی افتاد طبع کی کسوٹی قبول نہیں کرتی اسے وہ شریف آدمی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ مزاج کی اسی الجھن کے باعث وہ لوزکینن کی طرح تیزی سے بدلنے والے سیاستدان بن کے اعتماد گنوا بیٹھے ہیں۔ انہیں توقع تھی کہ ان کی شورش آمیز جدوجہد کو حکومت کی ناقد سیاسی جماعتیں،عدلیہ اور سول سوسائٹی ازخود اپنا لے گی اور فوجی قیادت اسی کشمکش کو جواز بنا کے حکومت کو تحلیل کر کے اقتدار تک پہنچنے کے لیے ان کی راہ ہموار کرے گی لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ بعض اوقات تقدیر ظاہری طور پر غیر مربوط واقعات کی مدد سے کرداروں کو آگے بڑھا کے ان کی مرضی کے بغیر انہیں ان دیکھی تنہائی سے دوچار کر دیتی ہے۔ ان کے پوشیدہ مقاصد اور غیر آئینی مطالبات سے مملو مساعی جسے غیرمعمولی تشہیر دے کر لافانی صداقت باورکرانے کی کوشش میں عمران کو لایرجعون کے مقام تک پہنچا دیاگیا۔ خان صاحب کو معلوم نہیں تھا کہ سیاست کا جنون جہنم میں چہل قدمی کے شوق رکھنے والوں کے چہرے جھلسا دیتا ہے۔ اب وہ مایوس ہو چکے ہیں،اس لیے آخری اقدام پہ اتر آئے ہیں۔ وہ خود کو آزمائشوں میں ڈال کے اپنی سیاسی بصیرت اور حقیقی سیاسی قوت کا پردہ چاک کر کے ایک طرف مخالفین کے لیے تر نوالہ بنے تو دوسری طرف خود اپنا سیاسی ڈیٹرنٹ بھی کھو بیٹھے ہیں۔ اب وہ ہارے ہوئے لشکر کے سالار کی مانند حکومتی شرائط پر معاملات طے کرنے پر مجبور ہوں گے یاپھر مایوسی کے عالم میں حالات کی دہلیز پر سر پھوڑ کے مستقبل کے امکانات کو ہمیشہ کے لیے کھو کے اپنی سیاسی زندگی کا خاتمہ کر لیں گے۔ عمران خان حالات پر قدرت پانے کے جنون میں حد سے گزر گئے؛ حالانکہ ذرا سی انکساری اور تھوڑی سی دیانت انہیں ہر آشوب سے نکال سکتی تھی۔اب تو طاقتوروں کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ زندگی اور سیاست کا تنوع ہمارے محدود اذہان کے احاطہ سے باہر ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved