جس دن اسلام آباد میں‘ ریڈ زون کی سکیورٹی فوج کے حوالے کی گئی‘میں نے اسی وقت کہہ دیا تھا کہ سیاسی حکومت نے ریاستی امور پر‘ مکمل کنٹرول کے معاملے میں‘ اپنی عدم صلاحیت کا اعتراف کرتے ہوئے فوج کواپنی مدد کے لئے بلا لیا ہے۔ ابھی تک سیاستدان آپس میں لڑ رہے تھے۔ یہ ان کی نااہلی تھی کہ وہ ایک چھوٹے سے معاملے پر‘ باہمی تصادم میں مصروف رہے اور کئی ہفتے گزرجانے کے بعد بھی ‘وہ کوئی سمجھوتہ کرنے میں بری طرح سے ناکام رہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے ان کی شکایتوں اور رویوں میں شدت آتی گئی اور اسلام آباد کے ریڈ زون میں دونوں‘ اپنی اپنی صف بندی کر کے خونریزی کی حدود کے قریب آ گئے۔ ضد پر اڑی ہوئی وفاقی حکومت کسی بھی وقت حالات خراب کر سکتی تھی‘ جو جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل سکتی تھی۔ دونوں فریقو ں کے حامی اپنی اپنی منطق کو درست سمجھتے ہوئے‘ ایک انچ پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھے۔ معمولی سا واقعہ کسی بھی لمحے ‘ فسادات کی آگ بھڑکا سکتا تھا۔ ہمارے ملک میں جتنی باہمی رنجشیں اور تلخیاں پیدا ہو چکی ہیں‘ ان میں کسی بھی وقت‘ کہیں بھی چلنے والی پہلی گولی‘ اپنے اپنے حریف کی گھات میں بیٹھے ہوئے مغلوب الغضب لوگوں کو خونریزی کی طرف دھکیل سکتی تھی۔ فرقے‘ فرقوں کے خلاف بھرے بیٹھے ہیں۔ غریب‘ امیروں کے خلاف پیچ و تاب کھا رہے ہیں۔ عام آدمی‘ سرکاری محکموں کے بے رحمانہ سلوک سے مشتعل بیٹھے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا امن‘ ایک پل کی پلک پر ٹکا ہوا ہے۔ مژگاں کی ایک ذرا سی جنبش ہمارے امن کو تہہ و بالا کر سکتی ہے۔
انتخابات میں دھاندلی کے معاملے سے‘ عوام کا کوئی واسطہ نہیں۔ یہ مراعات یافتہ طبقوں کا جھگڑا ہے‘ جس میں اقتدار کے امیدوار‘ اپنے اپنے حصے کی تقسیم میں ناانصافی کی شکایت کرتے ہوئے‘ دست و گریباں ہو رہے تھے۔ اقتدار کے ایوانوں کے پرانے باسی اکٹھے ہو کر‘ نئے آنے والوں کو جگہ دینے سے انکاری تھے۔ وہی ریل کے ڈبے جیسی صورتحال‘ جو میں اکثر بیان کرتا رہتا ہوں۔ پاکستان میں تو ریلوے نامی چیز‘ اب ردی کا مال ہے‘ لیکن جب یہ ذریعہ سفر ایک ادارے کی حیثیت رکھتا تھا‘ تو سفر کرنے والے عموماً اسی کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ سب سے زیادہ رش تھرڈ اور سیکنڈ کلاس کے ڈبوں میں ہوتا۔ ٹرین جیسے ہی پہلے سٹیشن سے آگے نکلتی‘ اس میں رش ہونے لگتا۔ ایک مقام پر آ کرڈبے کھچاکھچ بھرے ہوتے۔ نئے مسافروں کو سوار ہونے میں مشکل پیش آتی۔ جیسے ہی گاڑی سٹیشن پر رکتی‘ نئے مسافر یلغار کرتے اور پہلے سے دروازے پر کھڑے مسافر‘ نئے آنے والوں کی مزاحمت کرنے لگتے اور زور زور سے بتاتے کہ اندر جگہ نہیں ہے۔ کوئی مضبوط اور تنومند مسافر‘ مزاحمتوں کا مقابلہ کرتا زبردستی ڈبے کے اندر گھس جاتا‘ تو اندرموجود مسافر‘ مجبوراً اسے قبول کر لیتے۔ اگلے سٹیشن پر وہ بھی پرانے مسافروں کے ساتھ مل کر ‘ نئے مسافروں کا راستہ روکنے کھڑا ہو جاتا۔ ہمارے ہاں زندگی کے ہر شعبے میں‘ اسی طرح کی صورتحال ہے۔ جہاں پر کوئی آرام‘ سہولت یا مراعات حاصل ہیں‘ وہاں جتنے لوگ پہلے قبضے کر کے بیٹھ گئے ہیں‘ وہ ایک دوسرے سے مل کر‘ نئے آنے والوں کی مزاحمت کرتے ہیں۔ ہمارے ایوان اقتدار میں بھی گنے چنے لوگوں کا دیرینہ قبضہ چلا آ رہا ہے۔ اسمبلیوں کے جو ممبر ریٹائر ہوتے ہیں‘ ان کی جگہ اولادیں آ جاتی ہیں۔ کبھی کبھی کوئی نیاامیدوار ‘ ان میں شامل ہونے کے لئے دھکے دے کر اندر گھس آتا ہے‘ تو تھوڑی ہی دیر میں وہ ان کا ساتھی بن کرنئے آنے والوں کے راستے روکنے لگتا ہے۔ پاکستانی سیاست پر بھی پرانے پاپیوں کا قبضہ ہے۔ تبدیلیاں جیسی بھی آئیں‘ برسراقتدار گروہ ایک ہی رہتا ہے۔ فوجی حکمران آئے تو وہ انہی پرانے پاپیوں کو اپنے ساتھ ملاتا ہے اور ڈنڈے کے زور پر اپنے کچھ لوگوں کو پرانے پاپیوں کے اندر بھیج دیتا ہے‘ جو ان کے ساتھی بنتے ہی‘ نئے آنے والوں کے راستے کی دیوار بن جاتے ہیں۔ ہماری تاریخ میں صرف ایک بار ایسا ہوا تھا کہ نئے لوگ کافی تعداد میں اسمبلیوں کے اندر گھس آئے۔ جن میں سے کچھ کو تو پرانے پاپیوں نے اپنے گروپ سے دور رکھا۔ مختار رانا‘ حامدیٰسین‘افضل احسن اور اسی طرح کے دوسرے متوسط اور غریب طبقوں کے لوگوں کو باہر دھکیل پھینکا اور پرانے پاپی نیا گٹھ جوڑ کر کے اقتدار کے مزے اڑانے لگے۔دوسرا واقعہ اس مرتبہ ہوا۔عمران خان 18سال دشت سیاست کی خاک چھاننے کے بعد‘ ایک نئی ٹیم تیار کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ انتخابات کے عین قریب آ کر‘ جب پرانے پاپیوں نے اس کی مقبولیت دیکھی‘ تو جمپ لگا کرتحریک انصاف میں آ اترے۔ لیکن اکثریت نئے کھلاڑیوں کی ہے۔ خود عمران خان بھی سیاست میں نئے کھلاڑی کا درجہ ہی رکھتے ہیں۔ وہ بہت کچھ تبدیل کرنے کے خواہش مند ہیں اور ان کے ساتھی بھی انہی کی طرح پرجوش ہیں۔ خیبرپختونخوا میں تو عمران نے پرانے پاپیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنا لی اور انہیں مشورے دیئے جا رہے ہیں کہ وہ وہاں کی حکومت میں آ کر اقتدار کے طور طریقے سیکھ لیں۔ اس کے بعد وفاقی بزنس میں آ جانا۔ مگر عمران فوری تبدیلیوں پر بضد ہیں۔ پرانے پاپیوں کو اپنے مفادات خطرے میں نظر آئے‘ تو سارے یکجا ہو کر عمران کی مزاحمت کرنے لگے۔ ان کو ڈر ہے کہ اگر یہ جوش و جذبے سے بھرا ہواپاگل سیاستدان‘ ہمارے اندر آ گھسا‘ تو اپنے ساتھ اناڑیوں کا جم غفیر بھی لے آئے گا اور جن تبدیلیوں کے نعرے لگا رہا ہے اگر وہ سچ مچ آنے لگیں‘ تو ہمارا کیا بنے گا؟ وہی ڈبے کے پرانے مسافروں والی بات۔ حکمرانوں نے فوراً ہی اپنی باہمی کشمکش اور جھگڑوں کو پس پشت ڈال کر‘ عمران کے خلاف متحدہ محاذ بنا لیا۔ اسے وہ پارلیمنٹ اور جمہوریت کے بچائو کی جدوجہد کہتے ہیں۔ عمران نے سارے انتخابی نتائج کو غلط قرار دیتے ہوئے ‘ ازسرنو انتخابات کا وعدہ بھی کر رکھا ہے۔پرانے پاپیوں میں سے کوئی بھی مزید چار سال کا موج میلہ اور عیش و عشرت قربان کرنے کو تیار نہیں۔ جو آپس میں حریف اور دشمن تھے‘ اپنے چار سال بچانے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ مل گئے ہیں۔ان میں آپس کی لڑائی ہو‘ تو منتخب صدر کو سڑکوں پر گھسیٹنے اور اس کا پیٹ چیرنے کی باتیں بھی کر لیتے ہیں اور اسے برا نہیں سمجھتے۔ جبکہ عمران کسی کو عوامی زبان میں پکار لے‘ تو اس کے خلاف قراردادیں منظور کرنے لگتے ہیں۔ جہاں تک ڈاکٹر طاہرالقادری کا تعلق ہے‘ پرانے پاپیوں کے پاس انہیں گھیرنے کے بے شمار طریقے ہیں۔ اسی لئے انہیں ڈاکٹر قادری سے کوئی خوف نہیں۔ خوف صرف عمران خان سے ہے۔ عمران خان سے بچنے کے لئے یہ وہ ساری باتیں مان گئے ہیں‘ جو عمران کا دبائو آنے سے پہلے نہیں مانتے تھے۔ سرکشی پر تلے ہوئے جنونی عوام کے خوف سے‘ انہوں نے فوج کی مدد بھی مانگ لی۔ اب انہیں سمجھ آئے گی کہ یہ کیا کر بیٹھے ہیں۔ ان میں ذرا بھی سمجھ بوجھ ہوتی‘ تو یہ 4نشستوں پر ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ مان کے‘ عمران کواپنی کلب میں شامل کر سکتے تھے۔اقتدار کی کلب میں آ کر عمران بھی انہی جیسا ہو جاتا اوردوبارہ نوازشریف اور عمران‘ جم خانہ کلب میں اکٹھے کرکٹ سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے۔مگر خان کسی کی مانے تو! مجھے تو بتایا گیا ہے کہ عمران خان کو خفیہ طور سے اچھی اچھی پوزیشنیں دینے کی پیش کشیں بھی کی گئی ہیں‘ لیکن ابھی تک اس کے منہ میں پانی نہیں آیا۔ عمران نے شہرت‘ دولت‘ عزت‘ سب کچھ دیکھ رکھا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ اقتدار بھی اسی قسم کی چیز ہو گی۔ اس کے پرانے دوست چوہدری نثار علی خان نے عمران سے بارہا کہا کہ وہ ایک بار اقتدار کا مزہ چکھ کر دیکھے‘ پھر اسے پتہ چلے گا کہ یہ کیا چیز ہے؟ لیکن چوہدری صاحب کا اکھڑ دوست ‘ان سے پوچھتا کہ بتائو تو سہی کہ وہ مزہ کیا ہے؟ چوہدری صاحب کیا بتاتے؟ جس چیز کا نام لیتے‘ عمران نے پہلے ہی سے اس کا مزہ چکھا ہوتا۔ عمران خان کو کون سمجھائے کہ اقتدار میں کیا مزہ ہوتا ہے؟ اس کا ذائقہ صرف اقتدار میں آکر ہی معلوم ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ شخص اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہو کر بھی اصل مزے سے دور ہے۔ وہ ہر پڑھے لکھے اور مخلص آدمی کو شریک اقتدارکرنے پر بضد ہے۔ اسی بات سے پرانے پاپیوں کو چڑ ہے کہ یہ ہمارے دسترخوان پر ہزاروں عام لوگوں کو لا بٹھائے گا اور ہم بدمزہ ہوں گے۔یہ لوگ عمران خان کو غلط سمجھ رہے ہیں۔ ایک بار اسے کلب کا ممبر بنا کر دیکھیں۔ عمران انہیں حکمران طبقوں کی وہ مینرازم سکھائے گا‘ جو انہوں نے صرف فلموں میں دیکھی ہوگی۔پرانے پاپیوں نے عمران خان کو خوامخوا دھرنوں کی طرف دھکیل دیا۔ اب وہ رات گئے چھپ چھپ کر سونے کی جگہ ڈھونڈتا ہے۔