کچھ بھی ہو جائے ، آخرکار بات چیت ہی ہوگی ۔ معقولیت کے سوا تمام راستے بند ہیں اور آخری تجزیے میں انشاء اللہ یہ ملک کی خوش بختی ثابت ہوگی...پرانی سیاست گری خوار ہے !
کچھ دن اور ہنگامہ برپا رہے گا۔ سمجھوتے کے سوا مگر چارہ کیا ہے ؟ جہاں تک فوج کا تعلق ہے ، حکومت کی مدد کرنے سے اس نے انکار کر دیا ہے ۔ ان اپوزیشن پارٹیوں کی بھی ، جو وزیراعظم کی برطرفی کے درپے ہیں ۔ معاہدے کے خطوط انہیں خود ہی طے کرنا ہوں گے اور یہ سہل نہیں ۔ اس لیے کہ سب کے سب اپنے اعلانات اور حامیوں کے قیدی ہیں ۔ وہ دیواریں جو اپنے گرد اٹھائی جائیں ، آسانی سے گرائی نہیں جا سکتیں ۔ سبھی کو پیچھے ہٹنا پڑے گا اور یہ ایک مشکل مرحلہ ہے:
تو نے بھی دیواریں کھینچیں
میں نے بھی دیواریں کھینچیں
دیواروں میں قید ہوئے ہیں
اب یہ دونوں سوچ رہے ہیں
دونوں کس کے صید ہوئے ہیں
اسلام آباد کے آئی جی آفتاب چیمہ کا انتخاب وزیراعظم نے خود کیا تھا لیکن اب انہیں برطرف کرنا پڑا۔ مظاہرین پر یلغار سے انہوں نے انکار کر دیا۔ یہی کچھ لاہور میں ہوا تھا۔ وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف اور آئی جی مشتاق سکھیرا کے درمیان تلخ کلامی ہوئی ۔ مجبوریوں کی بات دوسری ہے ، جن سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی اعصاب اور خطرات انگیز کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ، وگرنہ سکھیرا ہمیشہ سے ایک ضابطہ پسند آدمی ہیں ۔ بدعنوان وہ ہرگز نہیں ۔ پھر بلوچستان میں قیام نے ان کے اندازِ فکر کو متاثر کیا ہے ، جہاں فیصلے وزیرِ اعلیٰ ، آئی جی ایف سی ، کور کمانڈر اور چیف سیکرٹری میں مشاورت کے ساتھ ہوتے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ جنگ زدہ صوبے میں اغوا برائے تاوان پر قابو پالیا گیا۔ کوئٹہ شہر میں دو ماہ قبل آدھی چیک پوسٹیں ہٹا دی گئیں ۔
سکھیرا لاہور پہنچے تو سر منڈاتے ہی اولے پڑے۔ ابھی انہوں نے چارج بھی سنبھالا نہ تھا کہ ماڈل ٹائون میں 14لاشیں گرا دی گئیں ۔ پولیس کی گولیوں کا ہدف بننے والے علّامہ طاہر القادری کے 71فدائین کو ہسپتال پہنچانا پڑا۔ یہ وزیرِ قانون رانا ثناء اللہ اور ڈاکٹر توقیر کا کیا دھرا تھا۔ سرکاری نظام کی بجائے شہباز شریف ''اپنے‘‘ آدمیوں پہ انحصار کے عادی ہیں ۔
حادثے کے فوراً بعد وزیراعظم نے اپنے بھائی کو اسلام آباد طلب کیا ۔ اس قدر سختی سے جواب طلبی ہوئی کہ پھوٹ پھوٹ کر وہ روپڑے۔ راوی کے مطابق میاں شہباز شریف سے انہوں نے کہا کہ رحیم یار خاں تک جا پہنچنے میں تو کوئی تامل آپ کو نہیں ہوتا مگر اس روز ماڈل ٹائون کیوں نہ تشریف لے گئے ؟
باور کیا جاتاہے کہ جنرل راحیل شریف سے ملاقات کے بعد صوبائی اور مرکزی حکومتوں نے لاہور کا محاصرہ ختم کیا۔ بات اتنی سی نہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ پولیس افسروں نے اپنی حدود طے کر لی تھیں ۔ ان سے آگے بڑھنے پر آمادہ وہ نہیں تھے ۔ سانحۂ ماڈل ٹائون کا نزلہ پولیس کے جوانوں اور افسروں پر گرا اور اس پر ان کی قیادت دل شکستہ تھی ۔ ماتحت اگر حوصلہ ہار بیٹھیں تو قیادت اپنا فرض کیونکر نبھا سکتی ہے؟ مشتاق سکھیرا کے طرزِ عمل کو آفتاب چیمہ نے ایک مثال سمجھا اور اس کی پیروی کا فیصلہ کیا۔ سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ معاشرہ بہت کچھ بدل چکا۔ فوجی قیادت کے تیور اب مختلف ہیں ۔ عسکری قیادت ہرگز اس بات کے حق میں نہیں کہ وزیراعظم کو دریا برد کر دیا جائے ۔وہ چاہتی یہ ہے کہ سبھی لوگ اپنی اپنی حدود میں بروئے کار آئیں ۔ اقتدار ہتھیانے کے لیے وہ اپوزیشن کی مدد ہرگز نہ کرے گی ۔ بہت سی وجوہات ہیں اور ان میں سے ہر ایک اہمیت کی حامل ہے ۔ الیکشن میں کتنی ہی خرابی کیوں نہ ہوئی ہو ، عالمی صورتِ حال منتخب حکومت کو رخصت کرنے کے لیے سازگار نہیں ۔ ثانیاً ایسے میں ایک نئی مستحکم مقتدرہ کا قیام اور بھی مشکل ہو جائے گا۔ 2007ء سے جاری بحران میں عسکری قیادت نے بہت کچھ سیکھا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف اور چودھری نثار علی خان کی خواہش کے باوجود ، جو وزیراعظم کے ایما پر تھی ، جی ایچ کیو نے عمران خان اور طاہر القادری پر دبائو ڈالنے سے انکار کر دیا ۔ یہ بھی انہیں بتا دیا گیاہے کہ مارشل لا نافذ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ۔ صاف صاف الفاظ میں کہہ دیا گیا کہ بحران سیاستدانوں کا پیدا کردہ ہے اور انہی کو حل کرنا ہوگا۔ مبصرین کا اندازہ البتہ یہ ہے کہ سیاسی قوتیں اگر کسی نتیجے پر پہنچ جائیں تو فوج کو عمل درآمد کی ضمانت دینے میں تامّل نہ ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بات چیت کرانے کے لیے کسی وقت انہیں گرمجوشی دکھانی پڑے۔
اس وقت ، جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں ، عمران خاں نے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے ۔ ایک ایک افسر کا نام لے کر انہوں نے اسے برا بھلا کہا اور جتلایا کہ اپنے مطالبات سے وہ پیچھے نہ ہٹیں گے ۔ حکومت کی پوزیشن بھی یہی ہے ۔ اگر وہ سانحۂ ماڈل ٹائون پر ایف آئی آر کا اندراج قبول کرتی ہے تو اس کامطلب یہ ہوگاکہ وزیراعظم اور وزیرِ اعلیٰ سمیت کئی درجن سرکاری شخصیا ت کو ضمانت قبل از گرفتاری کراناہوگی۔ سرکار اس قدر کمزور ہو جائے گی کہ معمول کا کاروبار جاری رکھنا بھی مشکل ہو گا۔ عمران خان کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں اگر وہ تسلیم کرتی ہے کہ بڑے پیمانے کی دھاندلی ثابت ہو نے پر از سرِ نو الیکشن ہوں گے تو بھی نتیجہ یہی ہوگا۔ کم از کم ضمانتیں حاصل کیے بغیر عمران خان اور طاہر القادری دارالحکومت کو خیر باد نہیں کہہ سکتے... سب کے سب اپنا بویا کاٹ رہے ہیں ۔
جیسا کہ اندیشہ ہے ، پولیس اگر مظاہرین پر ٹوٹ پڑی‘ ا گر عمران خان اور علّامہ طاہر القادری کو گرفتار کر لیا گیا تو پیچیدگی اور تلخی بڑھے گی۔ ممکن ہے، اس قدر کہ ہنگامے دوسرے شہروں تک پھیل جائیں۔ میرا خیال ہے کہ ایسی شدید حماقت کا ارتکاب ہرگز نہ ہوگا۔ طاقت کے بل پر مظاہرین کو شہر سے نکال دینے اور لیڈروں کو نظر بند کرنے سے حکومت کے نقطۂ نظر سے وقتی طور پر مسئلہ شاید ختم ہو جائے۔ اس کے حامیوں کی جذباتی تسکین بھی ہوگی ۔دوسری طرف مگر یہ ہوگا کہ اپنے کارکنوں کے درمیان عمران خان کی اخلاقی پوزیشن بہتر ہو جائے گی ، جن کی ایک بڑی تعداد ناخوش ہے ۔
گذشتہ چند ہفتوں کے و اقعات نے ثابت کیا کہ پرانی سیاست اب چل نہیں سکتی ۔ طاقت کے استعمال سے وقتی فوائد سمیٹے جا سکتے ہیں مگر مستقل بالاتری ہرگز نہیں ۔ ضربِ عضب شروع ہونے کے بعد علّامہ طاہر القادری نے اپنی تحریک موخر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔بہاولپور کا جلسۂ عام عمران خاں نے ملتوی کر دیا تھا ، جس میں انہیں لانگ مارچ کا اعلان کرنا تھا۔ شریف حکومت نے صورتِ حال سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ فرمایااور پنجاب پولیس کو منہاج القرآن سیکرٹریٹ پہ چڑھا دیا گیا۔ پھر واقعات کے اس سلسلے کا آغاز ہوا، جس میں اب حکومت اور مظاہرین، دونوں شرمندہ اور ششدر کھڑے ہیں۔ حکومت ہی نہیں ، اپوزیشن کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ دبائو اور دھونس سے نہیں ، آج کے پاکستان میں صرف شائستہ سیاست کے بل پر ہی مقاصد کا حصول ممکن ہے ۔ سول سوسائٹی ، فعال طبقات اور میڈیا ہی نہیں ، عسکری قیادت کی ہمدردیاں بھی اسی کے ساتھ ہوں گی، جس کے ہاتھ میں استدلال کا پرچم ہو گا۔ وگرنہ خرابی ، وگرنہ رسوائی۔
کچھ بھی ہو جائے ، آخرکار بات چیت ہی ہوگی ۔ معقولیت کے سوا تمام راستے بند ہیں اور آخری تجزیے میں انشاء اللہ یہ ملک کی خوش بختی ثابت ہوگی... پرانی سیاست گری خوار ہے!