تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     22-08-2014

ٹیکس کا نظام اور انقلاب

عمران خان نے سول نافرمانی کی بات کی۔ اس کا مطلب عوام کواشتعال دلانا ہے کہ وہ حکومت کو ٹیکس ادا نہ کریں۔ ان کی سول نافرمانی کی یہ کال نہ صرف ناقابلِ عمل تھی بلکہ اسے زیادہ تر عوامی اور کاروباری حلقوں نے مسترد بھی کردیا۔ اس سے یہ بات ظاہرہوتی ہے کہ بامعانی دلائل اور حقیقت پسندانہ پالیسیاں سامنے لانے کی بجائے ہمارے رہنما وقتی جذباتیت اور ہیجان خیزی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ خاں صاحب نے سب سے پہلے حکومت کی آئینی اور قانونی حیثیت اور انتخابی عمل کی ساکھ پر سوال اٹھایا۔ آخر میں اُنھوںنے ریاست کو نقصان پہنچانے کے لیے سول نافرمانی کی کال دے دی۔ بطور ایک قومی رہنما، اُنہیں امیروں پر ٹیکس لگانے اور غریب افراد کو سہولیات فراہم کرنے کی بات کرنی چاہیے تھی تاکہ معاشرے میں معاشی ہمواری آسکے۔ 
تحریک ِ انصاف نے دبے ہوئے مظلوم طبقے کوتحریک نہیں دی اور نہ ہی یہ انہیں آئینی طریقے سے اقتدار میںشامل کرنے اور آئین کے آرٹیکل 3 کے تحت غربت اور استحصال کے خاتمے کا وعدہ کرتی ہے۔ خیبر پختونخوا میں تحریک ِ انصاف کے ایک سالہ دورِ حکومت میں اس بات کی کوئی شہادت نہیں ملتی کہ اس پارٹی کے پاس ویلفیئر ریاست قائم کرنے کاکوئی منصوبہ موجود ہے۔ نہ ہی اس نے دعووں کے باوجود مقامی حکومتوں کے ذریعے عوام تک اقتدار منتقل کرنے کی طرف کوئی پیش رفت کی ہے۔ 
اس میں کوئی شک نہیںکہ ٹیکس کا موجودہ نظام دولت مند افراد کا تحفظ کرتے ہوئے غریب اور درمیانی آمدنی والے افراد پر بوجھ ڈالتا ہے۔ عوام کو تیار شدہ اشیائے ضروریات پر جو سترہ فیصد سیلز ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے، وہ درحقیقت تمام ٹیکسز کو ملا کر تیس سے 
پینتالیس فیصد بن جاتا ہے۔ یہ سخت ٹیکس کم آمدنی والے افراد کی آمدنی کاایک بڑا حصہ لے جاتے ہیں جبکہ دولت مند افراد، جن کی تعداد کم ہے، کے لیے یہ ٹیکس کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ اس کے علاوہ، امیر اور طاقتور افراد کو ''ایس آر او‘‘ (Statutory Regulatory Orders)کے ذریعے ٹیکسوں اور ڈیوٹی میں چھوٹ بھی مل جاتی ہے۔ یہ افراد غیر قانونی طریقے سے بہت سی دولت حاصل کرتے ہیں۔ ان افراد پر ٹیکس عائد کرنا پاکستان میں کسی بھی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ ایف بی آر کی ٹیکس ڈائریکٹری کے مطابق صرف آٹھ لاکھ چالیس ہزار ریٹرن فائلز جمع کرائی گئیں اور صرف 13,200 افراد نے ایک ملین سے زائد ٹیکس ادا کیا۔ یہ بات حیران کن نہیں کہ فنانس منسٹری ایف بی آر سے کیوں نہیں کہتی کہ جن دولت مند افراد نے فائل جمع نہیں کرائی ان کے نام شائع کیے جائیں اور ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ 
حیرت کی بات یہ ہے کہ عمران خان حکومت پرٹیکس نادہندگان کے نام شائع کرنے اور اُنہیں سزا دینے کے لیے دبائو ڈالنے کی بجائے عوام سے کہہ رہے ہیں کہ وہ بھی اپنے واجبات ادا نہ کریں۔ اُنہیں بطور اپوزیشن رہنما اسمبلی میں یا عوام کے سامنے سوال اٹھانا چاہیے تھا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے ایسی حکومت کو اربوں ڈالر قرضہ کیوں دے دیا جو دولت مند افراد کو ٹیکس اور دیگر واجبات میں چھوٹ دینے کی پالیسی پر کاربند ہے۔ 
درحقیقت عوام کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان میں ٹیکس کا نظام غیر منصفانہ اور جابرانہ ہونے کے ساتھ ساتھ معاشی ناہموار ی کا سبب بھی ہے کیونکہ اس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔ ملک میں ٹیکس نہ دینے کا رواج ہے ، تاہم زیادہ تر لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ حکومت مختلف طریقوں سے ان سے ٹیکس وصول کررہی ہے۔۔۔ موبائل فون کے پری پیڈ صارفین چودہ فیصد انکم ٹیکس ادا کررہے ہیں۔ بہت سے دولت مند افراد ٹیکس ادا کرنے کی بجائے خیراتی کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔ وہ ٹیکس ادا نہ کرنے کا جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ بدعنوان حکمران ٹیکس وصول کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ اس طرح ان کے پاس بھی ٹیکس ادا ئیگی سے بغاوت کرنے کاجواز موجود ہے۔
پاکستان تحریک ِ انصاف کو لاکھوں افراد کی ترجمانی کرتے ہوئے ٹیکس نظام میں اصلاح کے لیے آواز بلند کرنا چاہیے تھی لیکن اُنھوں نے ٹیکس ادا نہ کرنے کی کال دے دی۔ خیبر پختونخوا سمیت تمام صوبائی حکومتیں زرعی ٹیکس نہ لگا کر دولت مند جاگیرداروں کے مفاد کا تحفظ کر رہی ہیں۔ پاکستان کے وڈیرے، چاہے ان کا تعلق ملک کے کسی حصے سے ہو، ٹیکس فائل جمع نہیں کراتے۔ چونکہ یہ لوگ اپنی بھاری بھرکم آمدنی پر براہ ِ راست ٹیکس ادا نہیں کرتے اس لیے عوام کی اکثریت یہ استدلال پیش کرتی ہے کہ وہ بالواسطہ ٹیکس یا انکم ٹیکس کیوں ادا کریں؟ حقیقت یہ ہے کہ بالواسطہ ٹیکسوں کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی اجیرن بن چکی ہے۔ ان کے ذریعے سے ریاست کے اخراجات کا تمام بوجھ ان کے ناتواں کندھوںپر لاد دیا گیا ہے جبکہ طاقتور طبقے ٹیکس ادا کرنے سے انکاری ہیں۔ اس جمود کو توڑنا ہی اصل انقلاب ہے ۔۔۔۔ اگر یہ کبھی پاکستان میں آیا۔ 
بظاہر پاکستان کے تمام رہنما آئین اور قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کے تسلسل کی بات کرتے ہیں لیکن اُنھوںنے کبھی بھی ٹیکس کے موجودہ نظام میں اصلاح کا ایجنڈ ا پیش نہیںکیا۔ اس وقت قوم احمقانہ معاشی پالیسیوں اور طاقتور افراد سے ٹیکس وصول نہ کرنے کی سیاسی سرپرستی کی وجہ سے اذیت کاشکار ہے۔ اس کے باوجود یہ سیاست دان خود کو عوام کے خیر خواہ کہتے ہیں۔ ٹیکس کے موجودہ استحصالی نظام کی وجہ سے خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بالواسطہ طور پر جو بھی محصولات اکٹھے کیے جاتے ہیں، وہ اس پاک سرزمین کے حکمرانوں کی عیاشی اور سیر وتفریح پر خرچ ہو جاتے ہیں۔ حکومت میں آتے ہی ہر جماعت ملکی خزانے کو بے دردی سے لوٹتی ہے اور قومی وسائل ذاتی اثاثے سمجھے جاتے ہیں۔ عوام کی صحت اور تعلیم پر خرچ کرنے کی بجائے قومی خزانے سے سرکاری افسروں اور عوامی نمائندوں کو سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ 
جمہوریت کے استحکام اور معاشی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ دولت مندافراد پر ٹیکس لگایا جائے۔ سرکاری اور فوجی افسران کو وہی سہولیات حاصل ہوں جو اس ملک کے عام شہری کی قسمت میں ہیں۔جب تک قانون کی بالادستی نہیںہوگی، گڈ گورننس ایک خواب ہی رہے گی۔ تاہم دھرنوں اور احتجاجی سیاست کی موجودہ لہر میں ان معروضات کا فقدان ہے۔ ایک نئے اور مساوات پر مبنی پاکستان کی تعمیر صرف کسی شخص، چاہے وہ کتنا ہی فرشتہ صفت کیوں نہ ہو، کے اقتدار میں آنے سے خود بخود ممکن نہیںہوجائے گی۔ تاریخ ایسی مثالوںسے بھری پڑی ہے کہ نام نہاد انقلابیوں اور تبدیلی کے دعوے د اروں کی طرف سے اقتدار پر قبضے کرنے کے بعد ریاستیں بدنظمی، خونریزی اور انتشار کا شکار ہوکر ختم ہوگئیں۔ ضروری ہے کہ اس وقت ہم ''تبدیلی ‘‘ اور ''انتشار‘‘میں تمیز کریں۔ اگر کسی انقلاب کے نتیجے میں معاشرے میں انتشار، توڑ پھوڑ، خونریزی، انارکی، جرائم اور بدنظمی پھیلے تو اسے ''فساد فی الارض‘‘ قرار دیا گیا ہے اور فساد پھیلانے والے مفسدین ہیں۔ 
اس وقت حکمرانوں اور ان کے سیاسی حریفوں کا دعویٰ ہے کہ وہ تبدیلی اور اصلاح لانا چاہتے ہیں۔ ان دونوں کو احساس ہونا چاہیے کہ ان کے افعال اور اقوال میں تضاد عوام میں بے چینی پیدا کرنے کا موجب بن رہا ہے۔ اس ریاست کی مقتدر قوتوں کو چاہیے کہ وہ حکمرانوں اور ان کے حریفوں پر دبائو ڈالیں کہ وہ مل بیٹھ کر کوئی تصفیہ کریں اور موجودہ سیاسی جمود کا کوئی حل نکالیں۔ دراصل پاکستان میں جمہوری عمل کی پختگی ہی انقلاب اور تبدیلی ہے کیونکہ پاکستان مصر یا شام نہیں ہے۔ ہمارے آئین کے آرٹیکلز 3 اور140-A فلاحی ریاست کو یقینی بناتے ہوئے عوامی حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔ چنانچہ ہمیں انتشار اور ماردھاڑ نہیں بلکہ آئین کی پاسداری درکار ہے۔یہی سب سے بڑا انقلاب اور آزادی مارچ ہوگا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved