تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     22-08-2014

بہت دیر کی مہرباں آتے آتے

20، اگست کے اخبارات میں سعودی عرب کے مفتی ٔ اعظم شیخ عبدالعزیز آلِ شیخ کا فتویٰ رپورٹ ہواہے، جس کی رو سے انہوں نے تین تنظیموں کو دہشت گرد اور اسلام دشمن قرار دیاہے: اور وہ ہیں :(1)''داعش‘‘یہ مخفَّف ہے:''دولت اسلامیہ عراق وشام‘‘ کا، اسی کوعالمی پریس میں انگلش میں Islamic State of Iraq & Syria(ISIS)کہاجاتاہے۔ یہ دراصل خلافتِ اسلامیہ کااعلان ہے، جس کا خلیفہ '' ابوبکر البغدادی‘‘ کو مقرر کیا گیا ہے۔ اس تنظیم نے عراق کے بعض علاقوں پر کنٹرول بھی حاصل کرلیا ہے اور بعض مقامات پر امریکی تربیت یافتہ اور جدید اسلحہ سے مسلّح عراقی افواج کو پسپائی اختیار کرنی پڑ ی ہے اور کافی جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔ 
ہمارے ہاں''تنظیمِ اسلامی‘‘ بھی ''اِحیائِ خلافت‘‘ کی علمبردار ہے، لیکن وہ یہ کام پرامن طریقے اور دعوت وارشاد کے ذریعے کررہی ہے۔ برطانیہ میں تشکیل شدہ تنظیم ''حِزبُ التَّحریر‘‘ اور ''حِزبُ المہاجِرُون‘‘ بھی'' اِحیائے خلافت ‘‘کی دعویدار ہیں ۔ ان میں سے ''حزب المہاجرون‘‘ انتہا پسند اور شدت پسند ہے ۔ حزب التحریر پاکستان میں بھی مصروفِ عمل ہے۔ اس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اور جوان لوگ شامل ہیں۔ ان میں انجینئرز، ڈاکٹرز ، قانون اور دیگراعلیٰ پیشہ ورانہ شعبوں سے وابستہ تعلیم یافتہ لوگ شامل ہیں ۔ یہ لوگ لٹریچر کے ذریعے اپنے نظریات کا ابلاغ کرتے ہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو متاثر کرتے ہیں ۔ تاحال یہ پرامن طریقے سے اپنا کام کررہے ہیں ۔ ان تنظیموں کو قائم کرنے والے، فکری غِذا فراہم کرنے والے اور اپنے انداز کے علم الکلام کے مطابق مؤثّردلائل واستدلال سے آراستہ کرنے والے برطانیہ میں مصروفِ عمل عرب اسکالر ہیں ۔
لیکن چونکہ ''حزب التحریر‘‘ تاحال کسی شدت پسندی میں ملوث نہیں ہوئی، اس لئے اسے برطانیہ اور مغرب میں ناپسندیدہ سمجھے جانے کے باوجود تاحال دہشتگرد قرار نہیں دیا گیا۔ پاکستان میں بھی ان کی پکڑ دھکڑ ہوتی ہے، لیکن عدالتوں کے ذریعے چھوٹ جاتے ہیں ، کیونکہ یہ لٹریچر کے پھیلاؤ اور ذاتی روابط کے ذریعے کام کرتے ہیں ، ان کے نزدیک مروّجہ جمہوریت ایک کافرانہ ، مُلحدانہ اور سیکولرنظام ہے۔ پڑھے لکھے نوجوان جو پاکستان یا برطانیہ میں اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم پاچکے ہیں یا زیرِتعلیم ہیں ، ایسی تنظیموں کے افکار سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔ کیونکہ انٹر نیٹ ، فیس بک ، عالمی الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا کے ذریعے یہ دیکھتے ہیں کہ دنیا بھر میں جہاں پر آگ برسائی جارہی ہے، ظلم ہورہا ہے، لوگوں کو اپنے اپنے آبائی اَوطان سے محروم کرکے دربدر کیا جارہا ہے، وہ مسلمان ہی ہیں ، توجرم تو اسلام ہی قرار پایا، یہ سب دیکھ کر اُن کے اندر شدید ردِّ عمل پیدا ہوتاہے۔ 
اس کے ساتھ ساتھ وہ مسلم حکمرانوں کی مسلم اُمّہ کے مسائل سے بے حمیّتی، بے حسّی اور لاتعلقی کو دیکھتے ہیں ،جو اس حدتک ہے کہ یہ حکمران تو اپنا اقتدار بچانے کے لئے کفر کی ظالم قوتوں کے ظاہر وباہر یا درپردہ حامی ہیں ، تو ان کے وجود میں ایک اشتعال جنم لیتاہے اور انتقام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور انہی مشتعل جذبات کو ابھار کر ان تنظیموں کے داعی انہیں اپنی طرف مائل کرتے ہیں اور کیفیت پھر یوں ہوتی ہے کہ ؎
دیکھنا تقریر کی لذت ، کہ جو اس نے کہا 
میں نے یہ جانا، کہ گویایہ بھی میرے دل میں ہے
یہ نوجوان کبھی کبھی ہم جیسے لوگوں کے پاس بھی آتے ہیں اور اپنے پروگرام اور مشن کی دعوت دیتے ہیںاور حمایت کی اپیل کرتے ہیں ۔ مجھے ایک ذمہ دار شخص نے بتایا کہ کراچی کے ایک علاقے گلشن اقبال کی ایک مسجد میں جب امام جمعہ کے خطبے کے لئے بیٹھا ، تو چند نوجوان آئے، انہوں نے امام سے مائیک لیا اور اعلان کیا کہ اب ملّا عمر ہمارے امیرالمؤمنین نہیں رہے ، اب خلافتِ اسلامیہ قائم ہوچکی ہے اور ہمارے خلیفۂ وقت ''ابوبکر البغدادی‘‘ ہیں۔
حال ہی میں David D.kirkpatrickنے ایک تجزیاتی مقالہ لکھا ہے کہ حَمّاس اسرائیل سے زیادہ خطرناک اور بدتر تنظیم ہے اور اس میں اس نے لکھا ہے کہ مصر، متحدہ عرب امارات ، اردن ، کویت وغیرہ یہ سب حماس کو کچلنے کے مشن میں اسرائیل کے حامی ہیں ۔ کراچی کے ایک پندرہ روزہ مجلّہ ''معارف فیچر‘‘نے فلسطین اور غزہ کے مسئلے پر مغربی اور امریکی پریس سے متعلقہ مضامین کو اردو میں منتقل کرکے شائع کیا ہے اور یہ ایک اہم دستاویز ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ غزہ کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے ایک عرب ملک کی حمایت سے مصر نے جو تجاویز پیش کی ہیں ، وہ فلسطینیوں سے زیادہ اسرائیل اور نیتن یاہو کے مقاصد سے ہم آہنگ ہیں۔ 
دوسری تنظیم''القاعدہ‘‘ ہے، اسے تواب پوری دنیا جانتی ہے اور تیسر ی تنظیم ''النُّصرہ فرنٹ ‘‘ ہے۔ ایک مشکل یہ پیدا ہوگئی ہے کہ ایک عرب ملک شام میں برسرپیکار جن جہادی تنظیموں کو حربی اور مالی امداد فراہم کررہاتھا اور امریکہ سے مطالبہ کررہا تھا کہ فضائی حملوں کے ذریعے شام پر عشروں سے مسلّط حکمراں آمر طبقے کی حربی صلاحیت کو پاش پاش کردے تاکہ ان جہادی تنظیموں کو جلد غلبہ حاصل ہو، ایسا لگتا ہے کہ امریکا نے اس ملک کو اس کی یقین دہانی کرائی تھی اور اسی یقین دہانی کے عوض اس عرب ملک نے مصر میں ''الاخوان المسلمون‘‘ کی منتخب حکومت کو فوجی Coupکے ذریعے معزول کرانے اور اُن پر مظالم ڈھانے میں جنرل سیسی کی مالی اور سیاسی حمایت کی، کیونکہ یہ امریکہ کے ایجنڈے کا حصہ تھا اور اسی کے نتیجے میں ''عرب بہار‘‘ ایک انتہائی اَذِیّت ناک اور زہریلی ''بادسَموم‘‘ اور ''بادِصَرصَر‘‘ میں تبدیل ہوگئی اور ایک نہ ختم ہونے والی خِزاں ان پر مسلط کردی گئی ۔ 
کہنے کو تو بہت کچھ ہے، لیکن کالم کی تنگ دامانی کی وجہ سے یہ مختصر پسِ منظر میں نے پیش کیا ہے۔ القاعدہ اور یہ دہشت گرد تنظیمیں جب پاکستان میں ہمارے جسدِ ملّی کو پارہ پارہ کررہی تھیں اور بعض تخمینوں کے مطابق ہمارے پچاس ہزار سے زائد سویلین اور مسلّح افواج کے افراد شہید ہوئے اور روز پاکستان میں کہیں نہ کہیں بم بلاسٹ اور خود کش حملے ہورہے تھے۔ہماری دفاعی تنصیبات، نجی املاک اور مجموعی اقتصادی نقصان کا تو کوئی قطعی تخمینہ آج تک ریکارڈ پر نہیں آیا ۔ صرف اندازے ہیں کہ سوا ارب ڈالر کا نقصان اٹھا چکے ہیں۔ توکسی کی طرف سے اُن کے بارے میں ایسا کوئی واضح فتویٰ جاری نہیں ہوا ۔ کیا ہم اُمّتِ مسلمہ کے جسد ملّی کا لازمی حصہ نہیں ہیں ، کیا ہمارا درد اُمّت کا درد نہیں ہے، کیا ہمارا نقصان اسلام اور اُمّتِ مسلمہ کا نقصان نہیں ہے؟۔جب کہ اُمَّتِ مسلمہ کے حوالے سے ہم امیر مینائی کے اس شعر کی ہمیشہ مجسّم تصویر بنے رہتے ہیں کہ ؎
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
لیکن اب یہ تپِش کویت، اردن، متحدہ عرب امارات اور دیگر مسلم ریاستوں اور امارتوں تک پہنچ رہی ہے ۔اس لئے عالَمِ عرب کے تمام حکمران ، آمر ، اُمراء اور ملوک وسلاطین اب ان تنظیموںسے لرزاں ہیں۔ اور ان کے نزدیک ان مَمالک میں حکومت کے ہمنوا یا حکومتی نظام کا حصہ بننے والے علمائِ کرام بھی یکساں طور پر ان کے نظریۂ خلافتِ اسلامیہ کی راہ میں رکاوٹ ہیں اور وہ اُن سے بھی اتنی ہی نفرت کرتے ہیں ، جتنی وہاں کے حکمرانوں سے، اس لئے اب وہاں سے فتاویٰ صادر ہونے لگے ہیں اور اب یہ صادر ہوتے رہیں گے۔کاش یہ فتاویٰ اُس وقت بھی صادر ہوتے ، جب ہم آگ میں جل رہے تھے، ہمارے کوچہ وبازار، مساجد ومزارات ، سرکاری ودفاعی تنصیبات آئے دن کسی نہ کسی دہشت گردی کے ہولناک سانحے کا نشانہ بن رہی تھیں۔ علامہ اقبال نے سچ کہا تھا ؎
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
قرآن کی آیاتِ قصاص، احکامِ قتل اور احکامِ حِرابہ وفساد کا اطلاق تو یکساں ہوناچاہئے، لیکن ایسا ہوا نہیں ۔لیکن اب ہم اسے خوش آمدید کہتے ہیں ، فارسی میں کہتے ہیں :''دیر آید درست آید‘‘۔ اور انگریزی محاورے کا ترجمہ ہے:''بالکل کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا ہی بہتر ہے‘‘ ، خواہ دیر ہی سے سہی۔لہٰذا ہم مفتیِ اعظم شیخ عبدالعزیز آلِ شیخ کے فتوے کو خوش آمدید کہتے ہیں اور گزارش کرتے ہیں کہ اس طرح کے فتوے بروقت آنے چاہئیں تاکہ جب برائی زمین کی تہ سے سر اٹھا رہی ہو، تو اسی وقت اسے کچل دیا جائے، جب وہ برائی تناور درخت بن چکی ہو، تو اس کا قلع قمع دشوار ہوجاتاہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved