تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     22-08-2014

ڈرامہ اور ٹریجک ہیرو

شہر اقتدار میں جاری دھرنوں اور لانگ مارچ پر مشتمل میلو ڈرامہ (Melo drama) ایک نئے موڑ میں داخل ہو چکا ہے۔ یہ کالم تو ظاہر ہے گزشتہ رات دیکھی گئی ایپی سوڈ (قسط) کے مطابق لکھا جا رہا ہے۔ کل تک ایک نئی قسط سامنے آ چکی ہوگی۔ڈرامے کا کلائمکس اس وقت ہوا جب انقلاب مارچ اور آزادی مارچ کے ہزاروں احتجاجیوں نے اسلام آباد کے ریڈ زون کی جانب چلنا شروع کیا۔سب کے چہروں پر ایک ہی سوال تھا کہ اب کیا ہوگا؟ کیسے ہزاروں لوگ‘ تین تہوں کے حفاظتی حصار کو توڑ کر پارلیمنٹ ہائوس تک جائیں گے۔ عمران خان اور طاہرالقادری دونوں نے اپنی جذباتی تقریروں کے ساتھ اپنے اپنے ورکروں کو ریڈ زون کی طرف مارچ کرنے کا حکم دیا۔شکر ہے کوئی بڑا سانحہ نہیں ہوا۔ اس وقت تک دونوں اطراف سے اپنے اپنے مطالبات حکومت کو پیش کیے جا چکے ہیں۔امید ہے کہ مذاکرات کا عمل جاری رہے گا،اور یہ ڈرامہ ایک اطمینان بخش اختتام کو پہنچے گا۔ جیسا کہ آئی ایس پی آر کے ایک اعلامیے میں کہا گیا کہ۔ معاملے کو مذاکرات کے ذریعے جلد حل کریں۔ حکومت کو تنبیہ کی گئی کہ آپ کے پاس "Unlimited time" نہیں ہے۔ جیسا کہ حکومت نے اپنے رویے سے یہ ثابت کیا تھا کہ اسے کسی بھی مسئلے کو حل کر نے کی قطعاً کوئی جلدی نہیں ہوتی۔ تاوقتیکہ پانی سر سے گزر جائے۔ جیسے 
سسپنس سے بھرپور ڈراموں میں‘ اچانک سے کوئی کریکٹر آ کر کہانی کو بدل دیتا ہے۔ اسی طرح فوج نے بھی آ کر اپنا رول ادا کیا۔ اب جبکہ یہ میلو ڈرامہ اپنے اختتام کی طرف تیزی سے گامزن ہے تو سامعین یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ فریقین اور حکومت کے درمیان ہونے والے مذاکرات سے جو کچھ بھی حاصل ہوگا اس سے عوام کو کیا ملے گا؟ 
فرض کریں وزیراعظم بھی مستعفی ہو جاتے ہیں (اگرچہ ایسا نہیں ہونے والا) پھر مڈٹرم انتخابات ہوتے ہیں تو عوام کو کیا ملے گا۔ کیا سستی روٹی‘ خالص دوائیں‘ بہتر سرکاری ہسپتال‘ اچھی اور مفت تعلیم‘ غریب کو عزت؟ کیا تھانے کچہریوں کا کلچر غریب دوست ہو جائے گا؟ انتخابی اصلاحات ہوں گی تو کیا سو فیصد انتخابات شفاف ہوں گے؟ الیکشن کمیشن مستعفی ہو جائے گا تو کیا بجلی کے بل کم آئیں گے۔ لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی؟ ٹھیک ہے‘ نظام کو شفاف کرنے کا عمل ضرور شروع ہوگا۔ مگر راتوں رات کوئی ایسی تبدیلی نہیں آئے گی جس سے اس ملک کا غریب بھی سکھ کا سانس لے سکے۔ ہاں سیاسی اشرافیہ اس ڈرامے سے بہت کچھ پائے گی کیونکہ ان کا اس سارے کھیل میں کچھ خاص نہیں بگڑا۔ اگست کے حبس زدہ موسم میں عوام نے تو دھرنے دیئے ،سڑکوں پر سوئے مگر رہنمائوں کے لیے آرام دہ کنٹینر‘ بنی گالہ کا محل‘ فائیو سٹار ہوٹل اور پارلیمنٹ لاجز کے پُرسکون کمرے موجود تھے۔ 
لانگ مارچ اور دھرنوں کا یہ ڈرامہ جہاں بہت سے سوال جنم دے رہا ہے وہیں بہت ساری حقیقتیں بھی سامنے آئیں ہیں۔ کچھ چیزیں بہت مایوس کن ہیں۔ جن میں سرفہرست عمران خان کی لیڈر شپ کوالٹیز ہیں۔ دو پارٹی سسٹم میں عمران خان ایک نئی امید کی صورت ابھرے تھے۔ ان میں نوجوانوں کو تحریک دینے کی صلاحیت موجود ہیں۔ بلاشبہ وہ بہادر سیاستدان کے طور پر بھی اپنا امیج بنا رہے تھے مگر کئی دنوں پر مشتمل دھرنے میں ان کی بے ہنگم سی جذباتی تقریروں‘ تدبر سے عاری فیصلوں اور اپنی باتوں میں 
موجود تضاد نے بطور قومی رہنما ان کی شخصیت کو شدید زک پہنچائی ہے۔ ان کی تقریروں کو سُن کر سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ کس ذہنی کیفیت میں ہیں۔ کیا ان کے مقابل کوئی دشمن فورس ہے جسے وہ ہر قیمت پر تہہ و بالا کر دینا چاہتے ہیں۔ ایک طرف وہ جمہوریت پسندی کے دعوے کر رہے ہیں تو دوسری طرف ہجوم کے اندر جنون‘ غصہ‘ وحشت اور ہیجان برپا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے۔ کئی بار اپنی تقریر میں وزیراعظم نوازشریف کے لیے نازیبا الفاظ استعمال کیے۔ تہذیب سے عاری گفتگو کی۔ ہجوم کے جذبات بھڑکانے کے لیے کہا کہ اگر فلاں الٹی میٹم تک وزیراعظم نے استعفیٰ نہ دیا تو پھر میرے ورکرز میرے قابو میں نہیں رہیں گے۔ کوئی پوچھے کہ اگر آپ کے ورکرز بھی آپ کے قابو میں نہیں ہیں تو آپ کس چیز کے لیڈر ہیں۔ رہنما کا کام عوام کی رہنمائی کرنا اور اسے ویژن دینا ہے جبکہ عمران خان بار بار بپھرے ہوئے ہجوم سے رہنمائی لیتے ہوئے دکھائی دیئے۔ ''تم سب بتائو... کیا ہم ریڈ زون میں داخل ہوں؟‘‘ ایک موقع پر کہا کہ ''میں اپنی زندگی کی سب سے اہم تقریر کرنے جا رہا ہوں... سنو... غور سے سنو‘‘۔ 
اور پھر حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک کی تجویز دے کر خود ہی کلائمکس کو اینٹی کلائمکس میں بدل دیا۔ اس تجویز کو خود ان کی پارٹی کے اہم رہنمائوں نے مسترد کردیا۔ 
عمران خان نے اپنے غیر لچکدار رویے اور انتہا پسند سوچ سے تحریک انصاف کے مقدمے کو مضبوط کرنے کی بجائے کمزور کیا۔ کل تک لوگ انہیں ایک بہادر رہنما سمجھتے تھے مگر اب ان کا امیج ایسے اینگری ینگ مین کا ہے‘ جس میں غصہ بھرا ہے‘ جس کا رویہ سوکھی ٹہنی کی طرح غیر لچکدار ہے۔ کوئی دن ہوتے ہیں دھرنے کا ڈرامہ ختم ہو جائے گا۔ مجھے خدشہ ہے کہ عمران خان ایک نارمل سیاسی سیٹ اپ میں خود کو ان فٹ محسوس کریں گے کیونکہ احتجاج‘ احتجاج اور احتجاج... ان کی شخصیت کا حصہ بن چکا ہے۔ عمران خان نظام میں ہر طرح کی بہتری لانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں تو مکالمے کا دروازہ کھلا رکھیں۔ پاکستانیوں کو ایک تیسری سیاسی قوت کی علامت کے طور پر ان سے بہت امیدیں وابستہ ہیں۔ انصاف کے حصول کے لیے لڑتے رہیں مگر اپنے رویے میں لچک بھی پیدا کریں۔ ایسا نہ ہو کہ ہر قیمت پر جیت کا متمنی کپتان‘ کل کو شیکسپیئرین ڈراموں کے ٹریجک ہیرو کی طرح اپنی ہی ذات کی کوتاہی اور Flaw کے بوجھ سے شکست خوردہ نظر آئے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved