تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     23-08-2014

الوداع‘ ہاشم خان

وہ سو سال سے زیادہ عمر پاکر ارورہ کولو ریڈو میں انتقال کر گئے۔ ہاشم خان سکواش کی دنیا کے شہنشاہ تھے۔ انہوں نے کلب کے اس کھیل کو طبقاتی اور نسلی رکاوٹیں توڑ کر عوامی سطح پر پہنچا دیا تھا۔وہ نوایکلی پشاور کے ایک غریب گھر میں‘ جس کے بیشتر مرد انگریز حاکموں کو سکواش کھلاتے اور گورے کھلاڑیوں کے گیند اٹھاتے تھے‘ پیدا ہوئے۔ وہ امریکہ اور باقی دنیا میں کئی سکواش کلینک چلاتے تھے ۔آج یہ تربیت گاہیں لاکھوں کھلاڑی پیدا کرتی ہیں جو میدان میں اتر کر کروڑں تماشا ئیوں میں تفریح اور مقابلے کی روح اجاگر کرتے ہیں۔ 
سکواش ایک مستطیل عمارت کی چار دیواری میں کھیلا جاتا ہے اور ٹینس سے‘ جو کھلے میدان میں ہوتی ہے‘ قدرے مختلف ہے۔ دونوں کھیل ریکٹ سے کھیلے جاتے ہیں مگر سکواش کا ریکٹ ‘ٹینس کے گول ریکٹ سے پتلا‘ چھوٹا اور بیضوی ہوتا ہے۔ سکواش کے میچ‘ جو مردوں اور عورتوں کے لئے الگ الگ اور مخلوط بھی ہوتے ہیں اور نو عمر کھلاڑیوں میں بھی یکساں مقبول ہیں‘ رفتار‘ طاقت‘ پُھرتی‘ بُردباری اور حساب کتاب کا بھرپور امتزاج پیش کرتے ہیں ۔ برطانوی ہند میں انگریز حاکموں نے اس کھیل کو فروغ دیا‘ جو اُن کے کلبوں میں کھیلا جاتا تھا ۔آج شہر شہر ایسے کلب قائم ہیں ۔یہ کلب ''بال بوائے‘‘ اور دوسرا عملہ ملازم رکھتے ہیں‘ جو کلب کو چلتا رکھتا ہے ۔ہاشم خان نے بطور بال بوائے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور ان کلبوں کی سرپرست اشرافیہ کو حیرت زدہ کر دیا ۔
ہاشم خان نے نو آبادیاتی دور میں یہ کھیل ننگے پاؤں سیکھا تھا‘ جب نوزائیدہ بچے کی تاریخ پیدائش درج کرنے کا رواج نہ تھا۔ قیام پاکستان کے بعد وہ 1950ء کے عشرے میں سات بار عالمی چیمپئن بنے ۔پہلی بار پاک فضائیہ نے انہیں لندن بھیجا تھا‘ جہاں انہوں نے برٹش اوپن میں کامیابی حاصل کی اور پہلی بار کورٹ میں سنیکر پہنے۔ اس عمر میں‘ جب بیشتر سکواش پلیئر ریٹائر ہو جاتے ہیں‘ ہاشم خان نے دنیا کے نمبر ایک کھلاڑی محمود الکریم مصری کو 9-0‘ 9-0‘ 9-5 سے شکست دی۔ پھر ایک خاندان کی آبیاری کی جس کے مرد اس کھیل کی دنیا پر ایک عرصے تک چھائے رہے ۔ان کے پسماندگان میں سات بیٹے‘ پانچ بیٹیاں‘ ایک بھائی اعظم اور چالیس سے زیادہ پوتے پوتیاں شامل ہیں‘ جو سب امریکی شہری ہیں ۔ ان کے دوسرے رشتے دار روشن خان اور بھتیجے محب اللہ خان بھی سکواش کے غیر معمولی کھلاڑی رہے ہیں۔ ہاشم خان کی 65سالہ رفیقہ حیات مہریا بیگم نے 2007ء میں وفات پائی ۔ دو بیٹیاں اور ایک بیٹا بچپن میں اللہ کو پیارے ہوئے ۔ایک اور بیٹی کا انتقال سات سال پہلے ہوا۔پاکستان‘ بالخصوص خیبر پختونخوا میں انہیں ایک لوک ہیرو کا درجہ حاصل ہے ۔ ان کے ایک صاحبزادے محمد خان کہتے ہیں کہ سٹار کی وفات ' دل کی حرکت بند ہونے سے ہوئی ۔
خان خاندان نے مجموعی طور پر برٹش اوپن کے بیس سے زیادہ ٹائٹل جیتے‘ جو اس کھیل کا سب سے بڑا مقابلہ سمجھا جاتا ہے۔ ہاشم خان نے کئی یو ایس اوپن بھی جیتے۔ وہ 1960ء کے عشرے میں امریکی شہری بنے اور ڈیٹرائٹ (مشی گن) میں آباد ہوئے‘ جہاں وہ اپٹاؤن ایتھلیٹک کلب میں سکواش کے استاد (کوچ) تھے ۔د س سال بعد وہ ڈینور (کولوریڈو) کے ایتھلیٹک کلب میں پیشہ ور (پرو) ہوئے ۔اس وقت ملک کے مشرقی ساحل پر آئووی لیگ سکواش سرکٹ کی حکومت تھی۔ ہاشم خان نے لیگ کے باہر دونوں مرکزوں کو شہرت حاصل کرنے میں مدد دی ۔ان کے بیٹے شریف نے بھی شمالی امریکہ میں سکواش کے درجن بھر ٹائٹل جیتے ۔
ہاشم خان کے والد‘ برٹش آفیسرز کلب پشاور کے چیف سٹیورڈ تھے ۔وہ آٹھ سالہ ہاشم خان کو کام پر ساتھ لے جاتے تھے۔ جب انگریز افسر دوپہر کی گرمی میں سستانے لگتے تھے تو ہاشم خان بلا پکڑ کر گراؤنڈ میں چلے جاتے اور حاکموں کے کھیل کی نقل کرنے لگتے۔ یوں انہوں نے سکواش سیکھی ۔جب وہ گیارہ سال کے تھے‘ ان کے والد ٹریفک کے ایک حادثے میں جاں بحق ہو گئے۔ ہاشم خان نے سکول ادھورا چھوڑا اور کلب میں کل وقتی ملازم ہو گئے ۔ انہوں نے ایک بار اخبار نیویارک ٹائمز کو بتایا: ''جگہ کی صفائی کے لئے وہ مجھے چار آنے روزانہ دیتے تھے ۔ایک آنہ روپے کا سولہواں حصہ ہوتا ہے۔ پانچ روپے ایک امریکی ڈالر کے برابر ہیں‘‘ (آج کل ڈالر تقریباً سو روپے کاہے جب کہ سکواش کے علاوہ ہاکی اور کرکٹ جیسے قومی کھیل‘ روبہ زوال ہیں) 
ہاشم خان کی سوانح عمری Squash Racquets: The Khan Game کھلاڑیوں میں بڑی مقبول ہے۔ اس میں وہ بٹوارے سے پہلے اپنے مقابلوں کا ذکر کرتے ہیں۔1943ء میں ایک شخص کلب میں آیا اورکہنے لگا کہ میں ایک پیشہ ور کے ساتھ کھیلنا چاہتا ہوں ۔ہاشم خان نے اپنے آپ کو پیش کیا تو وہ آدمی ہنسنے لگا۔ہاشم خان نے اسے پچاس پوائنٹ کا ہینڈی کیپ پیش کیا جس کا مطلب تھا کہ وہ شخص نو پوائنٹ بنائے گا جب کہ ہاشم خان کو 59پوائنٹ بنانا ہوں گے۔ ہاشم خان نے نو وارد کو ہرا دیا ۔وہ بمبئی کا بنکار اور شہر کا دوسرے نمبر کا ایمے چیور کھلاڑی تھا۔ اگلے سال ہاشم نے آل انڈیا سکواش چیمپئن شپ میں کئی فتوحات حاصل کیں ۔
دنیا میں ہاشم خان سکواش کے اباجان سمجھے جاتے تھے۔ انہوں نے گزشتہ عشرے میں کھیل چھوڑا اور ٹھنڈی ریاست میں ریٹائر ہوئے ۔پاکستان میں سکواش کی جو بنیاد ہاشم نے رکھی تھی لشٹم پشٹم آج بھی چل رہی ہے ۔گزشتہ دنوں نمیبیا میں پاکستان اور مصر کے سرکردہ (Top Seed) کھلاڑیوں کا ٹاکرا ہوا ۔ پاکستان کے نمائندوں کی حیثیت سے دنیا قمرزمان‘ جہانگیر خان‘ جان شیر خان اور ناصر اقبال کے نام بھی عزت سے لیتی ہے۔ چونکہ سکواش ریکٹس ایک indoorگیم ہے اور اس پر موسم کی خرابیوں کا اثر نہیں ہوتا‘ اس لئے امریکہ اور برطانیہ میں اس کی مقبولیت دوچند ہے۔ لوگوں نے ورزش کے بارے میں ڈاکٹروں کی بار بار کی تلقین کو پلے باندھ لیا ہے اور ہر گلی کوچے میں جم کے علاوہ کم سے کم ایک سکواش کورٹ بنایا گیا ہے ۔پھر اس کھیل میں روپے پیسے کی بھی ریل پیل ہے ۔ سکواش مصنوعات اربوں ڈالر کی تجارت بن چکی ہیں ۔دولت مشترکہ کی سکواش فیڈ ریشن کے صدر پرنس عمران تنکو اسے عالمی مقابلوں میں شامل کرانے کی کوشش کریں گے‘ اسی طرح جیسے کرکٹ کو اولمپک مقابلہ بنانے کی بین الاقوامی کوشش جاری ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved