تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     23-08-2014

احتجاج اور ریاست

معاملہ یہاں تک آن پہنچا کہ احتجاج کرنے والے ایک پُرجوش رہنما اور ایک شعلہ بیان عالم دین چند ہزار کارکنوں اور پیروکاروں کے ساتھ لاتعداد افراد کی زندگیوں کو پریشان اور دارالحکومت کو مفلوج کرتے ہوئے نہایت ''کامیابی‘‘ سے نظام کو تباہی کے دہانے پر پہنچا چکے ہیں۔ وہ یہ سب کچھ اپنی نرگسی انا کی تسکین اور اپنے ''ماورائے انتخابات‘‘ عزائم کی تکمیل کے لیے کر رہے ہیں۔ اس دوران سارا ملک ایک طرح سے ان کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے۔ 
عمران خان نے اپنے حامیوں کو سول نافرمانی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے ٹیکسز ادا نہ کریں۔ خاں صاحب دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ ہوئے تو وہ مرتے دم تک دھرنا جاری رکھیں گے۔ جہاں تک قادری صاحب کا تعلق ہے تو وہ انقلاب لانے کے لیے وزیر اعظم کو جیل میں ڈالنے کے درپے ہیں۔ اگرچہ دونوں انقلابی رہنما اپنے ہزاروں کارکنوں اور حامیوں کو جھلسا دینے والی دھوپ اور برستی بارش میں ملک کے طول و عرض سے لائے لیکن وہ خود اپنی آرام دہ ایئر کنڈیشنڈ گاڑیوں سے باہر نہ آئے۔ انقلابیوں کو یقینا قدرے سخت جان ہونا پڑتا ہے۔ اس دوران خیبر پختونخوا سے پی ٹی آئی کے ایک وزیر نے اعلان کیا کہ ان کا صوبہ وفاق کو محصولات ادا نہیں کرے گا اور اگر اس کے بدلے وفاقی حکومت نے ان کی بجلی کاٹی تو وہ خیبر پختونخوا سے گزرنے والی بجلی کی سپلائی منقطع کر دیں گے۔ 
اس دھمکی اور اس طرح کی کئی دوسری دھمکیوں کے ساتھ خطرات اور ان احتجاج کرنے والوں کی تنہائی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ان کی بڑھکوں، دھمکیوں اور ماورائے آئین مطالبات 
کی وجہ سے انہیں کوئی بھی سنجیدگی سے نہیں لے رہا۔ اس وقت پارلیمنٹ کے سامنے بیٹھنے والے چند ہزار افراد کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں۔ تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب تک ٹرپل ون بریگیڈ کے جوان، جو اس وقت دارالحکومت کے ریڈ زون میں واقع اہم عمارتوں کی حفاظت کر رہے ہیں، وزیر اعظم کی طرف اپنی بندوقوں کا رخ نہ کریں، وہ کہیں نہیں جا رہے۔ درحقیقت چند ہزار افراد کے احتجاجی مظاہرے کے نتیجے میں حکومت کا خاتمہ انتہا درجے کی نااہلی ہو گی۔ اس وقت مسئلہ نواز شریف کا نہیں بلکہ اس جمہوری نظام کا ہے جسے قائم کرنے اور قائم رکھنے کے لیے ہم کئی عشروں سے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اگر ناراض سیاست دانوں کی شہ پر چند ہزار افراد ہنگامہ مچا کر ایک منتخب حکومت کا خاتمہ کر دیتے ہیں تو پھر ہم ایک بنانا رپبلک کے سوا اور کیا ہیں؟
پی ایم ایل (این) کے ایک وزیر کے مطابق اس لانگ مارچ اور دھرنے کے نتیجے میں ملکی معیشت کو پانچ سو بلین روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس میں قدرے مبالغہ آرائی ہو لیکن اس حقیقت سے انکار ناممکن ہے کہ پہلے لاہور کے زیادہ تر علاقے کئی دنوں تک رکھے گئے اور اب اسلام آباد مفلوج ہو چکا ہے۔ احتجاجی مظاہرین کو روکنے کے لیے سینکڑوں کنٹینرز کو بے منقصد پکڑ کر راستے بند کرنے کی کوشش دیکھنے میں آئی۔ اس دوران لاکھوں دیہاڑی دار مزدور روزی کمانے سے محروم رہے۔ اب ہو سکتا ہے کہ علامہ قادری اور عمران خان لوگوں کی عقیدت کے بل بوتے پر حکومت کو ناکوں چنے چبوانے کی کوشش میں ہوں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انقلاب کے ان نام نہاد دعوے داروںکی وجہ سے عام آدمی کی زندگی اجیرن بن چکی ہے۔ علامہ طاہرالقادری نے اعلان کیا ہے کہ ان کا منصوبہ ملکی پیداوار سے ایک ٹریلین روپے حاصل کرکے اس ملک کو ایک فلاحی ریاست بنا سکتا ہے۔ مولانا بہت اچھا منصوبہ ہے! آپ اسے عوام کے سامنے رکھیں اور 2018ء کا الیکشن سویپ کر لیں کیونکہ کسی اور جماعت کے پاس اتنا انقلابی معاشی منصوبہ نہیں ہے۔ آپ اس قوم کے نجات دہندہ بن جائیں گے۔ عمران خان کا اصرار ہے کہ سابق انتخابات ان سے دھاندلی کے ذریعے چرا لیے گئے تھے جبکہ کئی ایک ملکی اور غیرملکی غیر جانبدار اور اچھی ساکھ رکھنے والی تنظیموں کو 2013ء کے انتخابات میں وسیع پیمانے پر کی جانے دھاندلی کے آثار دکھائی نہیں دیے تھے۔ یہ بھی درست ہے کہ انتخابی عمل میں شکایات سامنے آئی تھیں اور الیکشن کمیشن ان کی سماعت نہایت سست طریقے سے کر رہا ہے، لیکن ایسا ہونا پاکستان میں کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ ہماری عدلیہ اور سرکاری محکموں کی وجہ شہرت ان کی روایتی سست روی ہی ہے۔ الیکشن کمیشن زیادہ تر ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل ہے اس لیے وہ تیزی سے کام نہیں کر سکتے۔ 
اس وقت جبکہ اسلام آباد کے میدانوں (معاف کیجیے سڑکوں) پر حصول اقتدار کا کھیل کھیلا جا رہا ہے، ہمارے فوجی بہت دلیری سے دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے وطن پر اپنی جانیں نچھاور کر رہے ہیں۔ پاک بھارت تعلقات ایک مرتبہ پھر بھارت کی سرد مہر ی کا شکار ہو گئے ہیں۔ افغانستان سے نیٹو فوجی دستے روانہ ہونے والے ہیں۔ ہماری سٹاک مارکیٹ گر چکی ہے اور ڈالر کے مقابلے میں ہمارا روپیہ سر کے بل آ رہا ہے۔ اس سیاسی ہنگامے کی وجہ سے سری لنکا کے صدر نے پاکستان کا دورہ منسوخ کر دیا۔ ایسا لگتا ہے کہ عمران خان اور علامہ طاہرالقادری کو ان معاملات کی مطلق خبر نہیں۔ ان کے نزدیک سب سے ہم بات نواز شریف کی رخصتی ہے۔ میں خود بھی موجودہ وزیر اعظم کا مداح نہیں لیکن میں جمہوری نظام کی حمایت کرتا ہوں۔ جمہوریت کی روح و رواں یہ ہے کہ ہارنے والے اگلے انتخابات تک اپنی باری کا انتظار کریں۔ اس ہیجان خیز اور خطرناک سیاسی سرگرمی کے ذریعے ایک طرف ملک کا نقصان ہوا تو دوسری طرف اچھی بات یہ ہوئی کہ عمران خان اور ڈاکٹر قادری کا اصل چہرہ لوگوں کے سامنے آ گیا۔ وہ ایسے سیاسی رہنمائوں کے طور پر سامنے آئے ہیں‘ جو اپنے مفاد کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ساکھ کو اس حد تک مجروح کر لیا ہے کہ اب ملک کا باشعور طبقہ اُنہیں ایسے طالع آزما سیاست دانوں کے طور پر دیکھ رہا ہے جنہیں انتخابی عمل سے اقتدار نہ ملے کو تو ایسے حالات پیدا کرنے سے نہیں چوکتے جو فوجی مداخلت کو دعوت دے کر جمہوریت کا بوریا بستر ہی گول کر دیں۔ 
پھیلائی گئی تمام تر شورش کے باوجود عمران خان اور علامہ طاہرالقادری اپنے مقاصد میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ اس لانگ مارچ اور دھرنے نے عوام کو شعور بھی عطا کر دیا ہے اور وہ آئندہ انتخابات میں ایسے لوگوں کو ان کی اوقات یاد دلا دیں گے۔ دوسری طرف اس دھرنے نے ریاست کی کمزوری کو بھی آشکار کیا ہے۔ اس میںکوئی شک نہیں کہ عمران خان اور علامہ طاہرالقادری نے مل کر بھاری مینڈیٹ رکھنے والے نواز شریف کو کمزور کر دیا ہے۔ کئی ہفتوں سے ان کی حکومت کوئی مناسب جواب نہیں دے پائی۔ اس نے ہر مرحلے پر پسپائی اختیار کرنے کی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ اس سے ریاست کی بے توقیری ہوئی اور ریاستی اداروں کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچی۔ 
اس دھرنے کا جو بھی انجام ہو، مجھے یقین ہے کہ عمران خان اور قادری صاحب نواز شریف کی جان نہیں چھوڑیں گے۔ وہ ان کو قبل از وقت گرانے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ اگر پی ایم ایل (این) احتیاط کے جامے سے باہر نہ آ سکی تو اس کے حریف اس کا سانس لینا بھی دوبھر کر دیں گے ۔ ان کی ابتلا صرف اس دھرنے کے ختم ہونے سے ہی تمام نہیں ہو گی بلکہ آنے والے دنوں میں مختلف میدانوں میں ان کی پنجہ آزمائی جاری رہے گی۔ اس دوران حکومت کے کمزور ہونے کا سب سے بڑا فائدہ دوسرے اداروں کو پہنچے گا کیونکہ حکومت ان کی حمایت کی محتاج رہے گی۔ تنگ آ کر ہو سکتا ہے کہ حکومت خود ہی قبل از وقت انتخابات کرا دے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved