تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     23-08-2014

سردار کولمبس سنگھ کھنگورا

21اگست کی شام کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں پاکستانی اوربھارتی باشندوں نے پاکستان کے معروف دانشور حسن نثار اور مجھ ناچیز کے اعزاز میں ایک شام کا اہتمام کررکھا تھا۔تقریب کا اہتمام کوزہ ڈاٹ کام کے روح و رواں برہان خان نے کیاتھا جبکہ تقریب کے میزبان لاہور سے ٹورنٹو میں سکونت اختیار کرنے والے صحافی بدر منیر چوہدری تھے۔تقریب میں جو مضمون پڑھا گیا‘ وہ آپ کی بھی نذر ہے۔ 
کینیڈا کے ساحل پر پہنچنے والا پہلا بیڑہ ''کاما گھاٹا مارو‘‘ تھا جس میں سوار 376مسافروں میں 340 سکھ، 24 مسلمان اور 12 ہندو تھے۔ 1914ء میں آنے والے اس بحری بیڑے کو اس وقت کی سرکا ر نے لنگر انداز نہیں ہونے دیاتھا۔متحدہ پنجاب سے کینیڈا پہنچنے والے پاندھیوں کو جب واپس جانا پڑا تھا تو ان میں زیادہ تر لوگ مر گئے تھے۔لگ بھگ ایک صدی بعد کینیڈین سرکار نے اس زیادتی پر معافی مانگ لی ہے ۔یہ کام موجودہ کینیڈین وزیر اعظم سٹیون ہارپر نے کیا‘ جسے سراہاگیاہے۔ پنجابیوں کے لئے کینیڈا خصوصاً وین کوئر اور ٹورنٹو سکھ بھائیوں نے دریافت کئے تھے‘ جس طرح امریکہ کولمبس نے دریافت کیا تھا۔ مجھے پورا یقین ہے کہ کینیڈا دریافت کرنے کا سہرا یاپگ کسی سکھ سردار کے سر ہوگی اور اس کانام '' سردار کولمبس سنگھ کھنگورا‘‘ ہوگا ۔ کھنگورا سکھوں کی ذات ہے۔ اگر کھنگورا اچھا نہ لگے تو آپ اپنے اس مہربان کانام سردار کولمبس سنگھ پرمار یا پھر سردار کولمبس سنگھ کڑونواں بھی تجویز کرسکتے ہیں۔
'' کلچر ‘‘ ایک وسیع موضوع ہے۔ اتنا وسیع کہ آپ کو شاید یہ سن کر حیرت ہو کہ کلچر کی کوئی سنگل لائن ڈیفی نیشن نہیں ہے ۔فلسفیوں، ادیبوں ،ماہر عمرانیات اور دانشوروں نے کلچر کی جو بھی تعریف بیان کی‘ اس کی حیثیت کو تسلیم کیا جاتا ہے ۔دنیا کے بیشتر معاشروں میں کلچر کا تعلق دھرتی اور جغرافیہ سے ہے لیکن ہمارا معاملہ ان سے مختلف ہے۔ مذہبی اورروحانی طور پر بطور مسلمان ہمارا رخ قبلہ کی طرف ہے جبکہ علاقائی طور پر ہمارارشتہ قدیم انسانی تہذیب موہنجوداڑو سے جڑاہواہے۔ دنیا کا اصول ہے کہ طاقتور کلچر کمزور کلچر پر مسلط ہو جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کمزور قوموں کا اپنا کوئی کلچر ہوتا ہی نہیں۔ بر صغیر میں گورا کلچر آنے سے پہلے تمام تہذیبیں اس خطے کے کلچر میں ضم ہوئی تھیں ۔ اس کی وجہ انگریزوں کا وہ طاقتور کلچر تھا جس نے مقامی کلچر کو اپنے رنگ میں رنگ لیا۔ مارکس نے کہاتھاکہ Ruling culture is culture of ruling class۔ حکمران ثقافت وہی ہوتی ہے جو حکمرانوں کی ثقافت ہوتی ہے۔ محکوم قوموں کا کوئی کلچر نہیں ہوتا۔ کنزیومرز گڈز (اشیائے ضرورت ) نے بھی دنیا کا رنگ ڈھنگ تبدیل کردیا ہے۔ سائنسی ایجادات نے دنیا کا نقشہ ہی بدل دیاہے۔
'' کلچر ‘‘ یعنی ثقافت اس فطرتی عمل کا نام ہے جو ماضی ، حال اورمستقبل کے تسلسل سے جڑا ہوا ہے ۔اس کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ بنی نوع انسان کی۔ ہمارے اس خطے‘ جسے ماضی میں ہندوستان کہا جاتا تھا‘ پر محمد بن قاسم کے حملے کے بعد غریب اور پسے ہوئے طبقے نے اسلام قبول کیا تو کلچر میں اتنا فرق پڑا کہ ہولی اور دیوالی کے ساتھ عیدوں کا اور اُپواس اور بھرت کے ساتھ روزوںکا اضافہ ہو گیا ۔چونکہ ہندو اکثریت میں تھے، اس لئے رسم و رواج آج بھی ملتے جلتے ہیں ۔
ہندوستان میں مختلف تہذیبوں کے تسلط کے نتیجے میں ایک کلچرل فیوژن ہوتا رہا۔ تہذیبوں کے براہِ راست حملوںکا سلسلہ بند ہوجانے کے بعد بھی یہ کلچرل فیوژن اسی طرح چلتا رہا اور یہاں کے مقامی باشندوں نے بھی بہت سے تجربات کئے ۔ پاکستان بننے کے بعد جو پہلا کلچر ایجا ہوا‘ اسے آج بھی ہر کوئی ''شب خون کلچر ‘‘ کے نام سے یاد کرتا ہے۔ اس کلچر کو ڈکٹیٹروں نے اپنے اپنے انداز میں پیش کیا اور ان سب کی ایک انفرادی پہچان ہے ۔ہمارے سیاستدانوںکی کیلکولیشن کے مطابق اس سلسلے کے آخری کاری گر جنرل پرویزمشرف ہیں؛ تاہم اس کی صداقت کی اطلاعات ابھی پنجاب اور پاکستان کے دیگر صوبوں سے نہیں موصول ہوئیں۔ پشاور یعنی صوبہ خیبر پختونخوا عید کی طرح آج کل ''شب خون ‘‘ کی اطلاع دینے میں بھی جلدی کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں جمہوری کلچر تو فروغ نہیں پا سکا‘ البتہ مڈ ٹرم الیکشن کا کلچر کھڑکی توڑ جارہاہے۔محترمہ شہید کا پہلا دور ِحکومت‘ اس کے بعد میاں نواز شریف صاحب کا پہلا دورِ حکومت پھر محترمہ شہید کا دوسرا دورِ حکومت تینوں مڈٹرم الیکشن کا شکار ہوئے ۔یہ وہ دور تھا جب بر صغیر میں ری مکس کلچر کے بانی ''بالی ساگو ‘‘ ایک فوبیا کی شکل اختیار کر چکے تھے ۔بلیک اینڈ وائٹ زمانے کے مشہور گانوں کے ری مکس دھڑا دھڑ مارکیٹ میں آرہے تھے ۔پرانے گیتوں کی اس نئی شکل نے میوزک لوورز کو دیکھتے ہی دیکھتے اپنے سحر میں جکڑ لیا ۔چونکہ ری مکس کا زمانہ تھا لہٰذا ''شب خون کلچر ‘‘ کا ری مکس نمبر ریلیز ہوا اور جمہوری کلچر کی سی ڈی میں سکریچ پڑ گئے ۔حیرت انگیز طور پر یہ دور قومی ثقافت کا کلائمیکس ثابت ہوا ۔برسوں سے متنازعہ پتنگ بازی لیگل قرار پائی اور بسنت کلچر پروان چڑھا ۔گویّوں کو بیوروکریسی کی تقریبات سے فرصت نہ تھی۔ گویا یہ دور ''کلاسیکل آمریت‘‘ کا دور ٹھہرا۔ وہ رقاصائیں جن کا ٹیلنٹ پرائیویٹ پارٹیز تک محدودتھا‘ انہوں نے سٹیج ڈانس کلچر کا آغاز کر کے اعضاء کی وہ شاعری کی کہ امام دین 
گجراتی کی بھی روح کانپ اٹھی ہوگی۔ چھوٹے شہروں کے تھیٹرز پر وہ افسانے بنے کہ ممکن ہے منٹو کی روح آج تک انصاف کی طلبگار ہو۔ ہم اکیسویں صدی‘ جسے تہذیبوں کے تصادم کی صدی کہا گیا‘ میں داخل ہوئے تو ہمارے ملک میں ثقافتی تصادم شروع ہو گیا۔ صدی کے آغاز میں ہی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام سے ملک میں وار کلچر کی بنیاد رکھی گئی جس کے نتیجے میں دہشت گردی کلچر کا آغاز ہوا ۔چونکہ اس جنگ میں پاکستان ایک اہم اتحادی تھا‘ اس لئے بہت سی شرائط کا پابند تھا ۔ملکی حدود کے اندر چھپے دہشت گردوں کو مٹانے کے لئے ڈرون اٹیک کلچر شروع کیا گیا‘ جس کے ردِ عمل کے طور پرخود کش حملہ کلچر اور بم دھماکہ کلچر سامنے آیا ۔یہ کلچر ساٹھ ہزار کے قریب زندگیاں نگل چکا ہے ۔ آٹھ سالہ روشن خیال آمرانہ دور کے بعد جمہوریت کی بحالی کے لئے این آر او کلچر کے ذریعے سیاست دانوں کی ملک میں واپسی شروع ہوئی۔ الیکشن کلچر کے تحت ملک میں جمہوری حکومت قائم ہوئی‘ جس نے آئینی مدت پوری کرنے کے کلچر کی بنیاد رکھی۔ اس جمہوری حکومت کو بحرانوں نے 1947ء کی یاد دلا دی ۔توانائی بحران ،اقتصادی بحران، عدلیہ کا بحران، سیاسی بحران اور اعتماد کے بحران سمیت کئی بحران ورثے میں ملے یعنی بحران بھی ایک کلچر بن کر ابھرا ۔ کرپشن کلچر تو جیسے سٹیرائیڈز کھاکر راتوں رات جوان ہوگیا۔ پانچ سال میں بڑے بڑے بھیانک کرپشن سکینڈل سامنے آئے جن میں سے کسی کا کچھ نہیں بنا ۔بجلی نے تبرک کی شکل اختیار کی تو قومی ثقافتی خزانے میں لوڈشیڈنگ کلچر کا اضافہ ہوا۔ (جاری ہے) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved