تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     24-08-2014

مذاکرا ت کے بعد پھر مذاکرات

ٹی ایس ایلیٹ نے کہا تھا "Time the healer can also be, time the destroyer" وقت زخموں کو مندمل ہی نہیں کرتا، گاہے وہ تباہ کرڈالتا ہے ۔ سراج الحق نے ٹھیک کہا: مذاکرات کے بعد پھر مذاکرات، اس کے بعد پھر مذاکرات۔ 
کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا۔ آصف علی زرداری کے ساتھ نواز شریف کی ملاقات سے حاصل کیا ہوا؟ وہ کم از کم چیز‘ جس پر عمران خاں کسی قدر آمادہ ہو سکتے ہیں ، ایسی قابلِ اعتماد عدالتی تحقیقات ہیں، جن میں دھاندلی ثابت ہونے پر نئے الیکشن کا وعدہ کر لیا جائے ۔ علّامہ طاہر القادری اگر آمادہ ہو سکتے ہیں تو اس شرط پر کہ سانحۂ ماڈل ٹائون کے مقتولین کی ایف آئی آر ان کے پیش کردہ کوائف کے مطابق درج کی جائے ۔ 
حکمتِ عملی میں نواز شریف پے درپے غلطیوں کے مرتکب ہیں۔ امریکہ بہادر کی مستقل اور مسلسل حمایت سے انہیں کیا حاصل ہوا؟ مسئلہ مظاہرین ہیں اور واشنگٹن کی حمایت ان کے جوش وخروش میں اضافہ کرے گی، کمی نہیں ۔ جیسا کہ عرض کیا تھا، دھرنے اب دوسرے شہروں تک پھیلتے جا رہے ہیں ۔اسلام آباد میں مقیم عمران خان کے حامیوں نے احتجاج کو پکنک میں بدل دیا ہے ۔ صوبہ سرحد سے آنے والے کم وسیلہ مظاہرین میں سے بہت سوں نے دوست اور رشتہ دار ڈھونڈ نکالے ہیں ۔ دن بھر وہ ان کے ہاں سوئے رہتے ہیں ۔ شام ہوتی ہے توگانے بجانے اور تقاریر سننے کے لیے شاہراہِ دستور کے میدان میں جمع ہونے لگتے ہیں۔ وسطی پنجاب کے باوسیلہ من موجیوں نے بھی میزبان تلاش کر لیے ہیں۔ جو نہیں پا سکے ، چھوٹے بڑے ہوٹلوں میں جا براجے ہیں۔ بظاہر آئندہ کئی روز تک ان کی تب و تاب میں کمی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ ایک سبکدوش کور کمانڈر سے پوچھا کہ ایئرکنڈیشنڈ کمروں سے نکل کر پہاڑی علاقوں یا ریگستانوں میں جنگی مشقوں کا تجربہ کس طرح کامیاب رہتاہے ؟ ان کا جواب یہ تھا: پہلا دن بہت مشکل ہوتاہے ۔ دوسرا اس سے کم ، رفتہ رفتہ طبیعت ماحول سے ہم آہنگ ہونے لگتی ہے ۔نئے ماحول کے نئے چیلنج ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ نئی دلچسپیاں بھی ۔ 
ایک چال سپاہِ صحابہ کے ذریعے چلی گئی‘ جس نے اپنا نام اہلِ سنّت و الجماعت رکھ لیا ہے ۔ بتایا جاتاہے کہ یہ مولانا فضل الرحمن مدظلہ العالی اور رانا ثناء اللہ کی کوششوں کا ثمر ہے ۔ مولانا احمد لدھیانوی نے جو کچھ ارشاد فرمایا، اس کاخلاصہ یہ ہے کہ علّامہ طاہرالقادری ایرانی ایجنٹ ہیں ۔ وہ امام خمینی ایسا انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں ۔ کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگوا تیلی۔ 11 فروری 1979ء کو امام کا طیارہ تہران کے ہوائی اڈے پر اترا تو بیس لاکھ ایرانی سواگت کے لیے موجود تھے۔ علّامہ کے کوائف مشکوک ہیں اور معاشرے کے فعال طبقات انہیں گوارا نہیں کر سکے ۔ نون لیگ کے اخبار نویسوں نے اوّل یہ بتایا کہ وہ برطانوی دفترِ خارجہ کے کارندے ہیں ۔ پاکستان روانہ ہونے سے قبل کینیڈا میں انگریز سفارت کاروں سے انہوں نے ملاقاتیں کی تھیں ۔ پانچ برس ہوتے ہیں ،عمران خان سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیوس میں مدعو کیے گئے‘ دنیا بھر 
کے سرمایہ کار جہاں منتخب سیاستدانوں کے خیالات سننے کے لیے جمع ہوتے ہیں ۔وہاں علّامہ صاحب کو انہوں نے پہلے سے موجود پایا۔ واپسی پر موصوف کا ذکر وہ تاسف کے ساتھ کرتے پائے گئے ۔ یہ کہ ان کا طرزِ عمل ایک آزاد آدمی کے شایانِ شان نہ تھا۔ مغرب سے علّامہ کی نیاز مندی قابلِ فہم ہے ۔ 600صفحات پر مشتمل دہشت گردی کے خلاف ان کا فتویٰ بھی اسی کا شاخسانہ ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ایسے میں ایرانی کیوں ان پر اعتماد کریں گے ؟ یہ نکتہ اس لیے بھی آشکار ہے کہ برسوں سے جاری کوششوں کے باوجود ملک کی شیعہ برادری ان پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ؛اگرچہ نواز شریف کے باب میں وہ بہت بدگمان ہیں ۔ مجلس وحدت المسلمین کے لوگ علّامہ کے دھر نے میں شریک ہوئے اور نہ واضح اعلان کے باوجود ان کے کارکنوں نے دوسرے شہروں میں مظاہروں کا اہتمام کیا۔ 
سیاست میں چیزیں اتنی سادہ کبھی نہیں ہوتیں ۔ لیڈروں میں ایسے ہوتے ہیں ، جو غیر ملکیوں سے راہ و رسم رکھتے ہیں مگراپنی اساس سے انحراف کر کے خود کو وہ کبھی تباہ نہیں کرتے ۔ آخر مولانا فضل الرحمن بھی تو کبھی صدام حسین اور کرنل قذافی کے مدّاح تھے ۔ انہی سے نہیں ، ان کے نائبین سے بھی ملاقات کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیتے ۔ پھر ان کی عالمی ترجیحات میں کتنے مددگار وہ ثابت ہو سکے ؟ اب سعودیوں سے رسم و راہ انہوں نے بڑھائی ہے تو ریاض کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں کتنی اعانت وہ فرما سکتے ہیں ؟ 
میاں محمد نواز شریف کا مفاد اس میں ہے کہ مظاہرین کو ٹھنڈا کرنے کی وہ کوشش کریں ، حالات جن کے لیے سازگار ہیں ۔ اتنے سازگار کہ عمران خاں نے ارکانِ قومی اسمبلی کے استعفے سپیکر کو بھجوائے تو فوراً ہی آشکار ہو گیا کہ وہ انہیں قبول نہ کریں گے ۔ کھلے عام سراج الحق نے سپیکر کو مشورہ دیا کہ وہ اس لفافے کو کھولنے کی زحمت ہی نہ کریں ۔ جواب میں سپیکر نے اشارہ دیا کہ وہ فرمائش کی تعمیل کریں گے ۔ 
آصف علی زرداری کے ساتھ کل کی ملاقات سے پیپلز پارٹی کی پوزیشن کمزور ہوئی ہے ۔ پنجاب اور پختون خوا میں عوامی تائید سے وہ پہلے ہی محروم تھی ۔ اب اس میں مزید کمی آئے گی ۔نواز شریف کو اس ملاقات سے کچھ حاصل نہ ہوا۔ ثالث کا کردار ادا کرنے والی پارٹی کی صلاحیت زرداری صاحب نے کھو دی۔ سانحۂ ماڈل ٹائون کی ایف آئی آر درج کرنے کی اعلانیہ وہ تائید کر چکے اور اب اس سے مکر نہیں سکتے ۔ اسی طرح استعفے کے سوا عمران خان کے تقریباً سبھی مطالبات کی پیپلز پارٹی نے حمایت کی ہے ۔ خورشید شاہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ سپریم کورٹ کے مجوزہ عدالتی کمیشن کی تحقیقات سے نواز شریف کے استعفے کو منسلک کر دیاجائے ۔ ایف آئی آرسے متعلق یہی مشورہ سراج الحق نے ان وفاقی وزرا کو دیا ہے ، جو ان کے ساتھ رابطہ برقرار رکھتے ہیں ۔ 
ایس ایم ظفر نے بجا کہا کہ تحریکِ انصاف سے مذاکرات کرنے والی سرکاری ٹیم کمزور ہے ۔ شہباز شریف کو اس میں شامل ہونا چاہیے۔ بہتر ہوگا کہ یہ ٹیم مختصر ہو ۔ دویا زیادہ سے زیادہ تین افراد پر مشتمل ۔ تحریکِ انصاف سے کہا جائے کہ وہ بھی اپنے مذاکراتی وفد کو محدود رکھیں ۔ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ سراج الحق سمیت اپوزیشن کے دو ارکان کی شمولیت سے سہ رکنی جماعت تشکیل دیں ۔ بات چیت خاموشی سے کی جائے اور ٹی وی کیمروں کا سامنا کرنے سے گریز کیا جائے ۔ پارلیمانی جماعتوں اورپارلیمنٹ کی جس قدر تائید نواز شریف کو درکار تھی ،و ہ انہیں حاصل ہو چکی ۔ اس محاذ پر مزید کسی سرگرمی سے کچھ نہ ملے گا۔ گذشتہ چند ایّام میں محتاط لب و لہجہ انہوں نے اختیار کررکھا ہے ۔ ایک بار پھر کنٹینر لگا کر جڑواں شہروں کے راستے بند کرنے کا فیصلہ تباہ کن ثابت ہوا۔ اپنی صاحبزادی محترمہ مریم نواز کو انہیں بتانا چاہیے کہ ٹویٹر پر ان کے پیغامات جلتی پر تیل چھڑک رہے ہیں ۔ وقت ان کے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے ۔ امریکہ، فوجی حکام اور مذہبی فرقہ پرستوں کی تائید تلاش کرنے کی بجائے انہیں مظاہرین کو آمادہ کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ مشیر اگر ناقص نکلے تو وہ دوسروں سے مشورہ کیوں نہیں کرتے ، زیادہ فہیم لوگوں سے۔ ٹی ایس ایلیٹ نے کہا تھا "Time the healer can also be, time the destroyer" وقت زخموں کو مندمل ہی نہیں کرتا، گاہے وہ تباہ کرڈالتا ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved