رائٹرز کی ایک کہانی برق رفتاری سے پھیل گئی۔اس کے مطابق شہنشاہ زار کے مزاج جیسا وزیر ِ اعظم ایک ڈپٹی کمشنر جیسا سرکاری افسر دکھائی دینے لگا۔اس کہانی کو بہت زیادہ پڑھا گیا۔ درحقیقت آج کل کے ماحول میں اس آرٹیکل کو نہ پڑھناممکن بھی نہ تھا کیونکہ یہ مستقبل میں پیش آنے والے کچھ واقعات کے بارے میں بھی پیش گوئی کرتا ہے۔فی الحال پاکستانی میڈیا میں یہ بات نہیں ہورہی لیکن غیر ملکی میڈیا نے پاکستانی وزیر ِ اعظم کے گھٹتے ہوئے عہدے کی جھلک دیکھ لی ہے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ یہ کہانی رائٹر، جو کہ ایک غیر ملکی خبررساں ادارہ ہے، کی طرف سے پیش کی گئی ہے‘ اس لیے پاکستانی اسے شک کی نظر سے دیکھیں گے حالانکہ 'رائٹر‘ بہت اچھی ساکھ رکھتا ہے۔ اس مضمون میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں وزیر ِ اعظم کے قریبی افراد کی رائے پیش کی گئی ہے۔ ان افراد کی طرف سے ہی کہا گیا ہے کہ موجودہ پاکستانی وزیر ِ اعظم ایک ڈی سی کے عہدے کے افسردکھائی دینے لگے ہیں۔ یہ کوئی معمولی نقصان نہیںہے کیونکہ اس منصب پر موجود رہنما نے بھارت اور افغانستان کے علاوہ دیگر عالمی برادری سے معاملات طے کرنے ہیں۔ وہ ایک ایسے ملک کا رہنما ہے جس کے ایک طرف بھارت ہے تو دوسری طرف چین۔۔۔ آبادی کے لحاظ سے عقربی ممالک۔ اس میں اعتماد کا فقدان ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
پاکستانیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہوشیار اور باخبر رہیں اور دیکھیں کہ ان کے گردو پیش میں کیا حالات وواقعات رونما ہو رہے ہیں۔ عملی صحافت کا تیس سالہ تجربہ رکھتے ہوئے میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ ہمارے ہاں ملکی صحافیوں کی بجائے غیر ملکی رپورٹرز کو حساس قسم کے معاملات سے آگاہی دینے میں کوئی قباحت نہیں سمجھی جاتی۔ وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں تاکہ یہ خبر ملک میں زیادہ تیزی سے پھیلے۔ اگر مقامی رپورٹر وہ کہانی سامنے لائے تو اس کے دیگر حریف اس کو دبائیںگے لیکن اگر یہ کہانی غیر ملکی میڈیا سے آئے تو سب اس کا حوالہ دیں گے۔ اس لیے اگر میڈیا کے ذریعے ملک میں کسی بات کی تشہیر کرنی ہوتو غیرملکی میڈیا ہی سود مند ثابت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ کہانی غیر ملکی طاقتوں کی نظر میں بھی آجاتی ہے۔ پلیز یہ نہ کہیے گا۔۔۔ اپنا اپنا، غیر غیر۔ یہ محاورہ صحافت اور سیاست کی دنیا میں ممنوع ہے۔ یہ بات میں پہلے بھی ایک مرتبہ عرض کرچکی ہوں کہ پاکستان میڈیا میں بریکنگ نیوز ، نہ کہ تحقیقاتی رپورٹس، کا رجحان پایا جاتا ہے اور ایسی ہنگامہ خیز خبروں کو ہی قابل ِ اعتماد سمجھا جاتا ہے۔ یہ اوربات ہے کہ اگلے دن وہ سنسنی خیز خبر اخبار کے اندر کے صفحے میں بھی موجود نہیںہوتی۔
رائٹر کی مذکورہ کہانی ایک نوجوان پاکستانی صحافی مہرین زہرہ ملک نے لکھی ہے۔ انہوں نے کچھ اہم باتیں معلوم کی ہیں۔ وہ اپنے آرٹیکل کا آغاز ان الفاظ سے کرتی ہیں۔۔۔ ''پاکستان کے محصورشدہ وزیراعظم کو متعلقہ حلقوںنے یقین دلایا ہے کہ شب خون نہیں مارا جائے گا ، لیکن اس 'حمایت‘ کے عوض اُنہیں کچھ اداروں کے لیے سپیس پیدا کرنی ہوگی‘‘۔ مضمون نگار کے مطابق یہ بات ایک اہم حکومتی رکن نے بتائی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مہرین نے یہ بات کس حکومتی رکن سے پوچھی ہوگی ؟ مضمون نگار کے مطابق وزیر ِ اعظم نے اہم حکومتی شخصیات کو گزشتہ بدھ کوآرمی چیف جنرل راحیل شریف کے پاس بھیجاتھا۔ اس لیے گمان ہے کہ جس گمنام شخصیت کا ذکرمہرین زہرہ نے کیا ہے وہ ان دونوں میںسے ایک ہے۔ یہ بات اکثر لوگوںکے علم میں ہے کہ جنرل صاحب سے گزشتہ بدھ کن دو افراد نے ملاقات کی تھی۔ ان دونوں افراد کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ تاثر تقویت پاتا ہے کہ وزیر ِ اعظم کی منشا کے بغیر وہ ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کو یہ بات نہیں بتاسکتے تھے۔ کیا اس کا مقصد یہ نہیں تھا کہ یورپی یونین، امریکہ اوردیگر ممالک تک یہ بات پہنچائی جائے؟قیاس اغلب ہے کہ ہو سکتا ہے یہ اندھیرے میں چلایا گیا ایک تیر ہو جس کے ذریعے موجودہ سیاسی بحران کے موقع پر دفاعی اداروںکی طرف سے کسی بھی مداخلت کا راستہ روکنے کی ایک ترکیب لڑائی گئی ہو۔ پاکستانی وزیر ِ اعظم کا خیال ہوگا کہ غیر ملکی طاقتوںکو اس صورت ِ حال کی آگاہی دینے سے شاید مداخلت، جس کا خطرہ محسوس کیاجارہا تھا، ٹل جائے۔یہ خبر دینے والے ''ذرائع‘‘ نے مہرین زہرہ کو بتایا کہ اس تمام صورت ِحال کا مقصد نواز شریف کے پرکاٹنا ہے تاکہ اُنہیں ان کی ''جائز‘‘ حد سے باہر نکلنے نہ دیا جائے۔
اگر موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو دکھائی دیتا ہے کہ یہ کاوش کامیابی سے ہمکنار ہورہی ہے ۔ ہر گزرنے والے لمحے کے ساتھ نواز شریف کی اتھارٹی تحلیل ہورہی ہے۔ سیاست میں مشاورت کا دروازہ کھلا رہتا ہے لیکن جس طرح وہ گھیرے میں آنے کے بعد اپنے سیاسی حریفوںسے بچائو کے لیے مشورے کررہے ہیں، اس کی ہماری سیاست میں نظیر نہیں ملتی۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ آئی ایس پی آرنے بھی فی الحال رائٹر کی اس کہانی پر ردِ عمل کا اظہار نہیںکیا ہے۔ مہرین زہرہ کا اصرار ہے کہ یہ کہانی حقائق پر مبنی ہے۔ نواز شریف کے ایک قریبی ساتھی کا بیان بھی شامل ہے۔
مہرین زہرہ کے مضمون کے مطابق وزیر ِ اعظم، جو اپنی کابینہ سے بھی مشاورت کرنے کے قائل نہ تھے، اس وقت ایک ڈی سی کے عہدے کے افسر دکھائی دیتے ہیں۔مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ نامور کالم نگار اردشیر کائوس جی مرحوم نے لکھا تھا کہ آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت روزانہ کی بنیاد پر نواز شریف حکومت کی بدعنوانی کی رپورٹس کاجائزہ لیا کرتے تھے۔ وہ نواز شریف کا دوسرا دور ِحکومت تھا اور بدعنوانی پورے جوبن پر تھی۔ مسٹر شریف اپنی طاقت کے زعم میں نہ صرف عدلیہ بلکہ فوج کے ساتھ بھی پنجہ آزمائی میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ انہوں نے جنرل جہانگیر کرامت کو گھر بھیج کر پرویز مشرف کو آرمی چیف بنا دیا۔۔۔ باقی تاریخ ہے۔
موجودہ صورت ِحال میں صرف وزیر ِ اعظم کے عہدے کا نہیں بلکہ پورے جمہوری نظام کی بقا کا سوال ہے۔اس وقت فوج براہ ِ راست مداخلت کرنے کے موڈ میں نہیں بلکہ دو سیاسی قوتوںنے اسلام آباد پر چڑھائی کی ہے۔ کیا یہ کسی کی شہ پر کیا گیا؟ یہ بات شاید ہمیں آنے والے دنوں میں معلو م ہوجائے لیکن فی الحال، اگر مداخلت نہیں ہوتی تو دھرنے اوراحتجاج کے نتیجے میں جمہوری عمل شفافیت کی طرف رواں ہے اور تقویت پارہا ہے۔ یہ ایک مثبت مداخلت ہے۔ اس کے لیے قوم کو عمران خان اور ڈاکٹر قادری کا مشکور ہونا چاہیے۔ تاہم اگر یہ نظام پٹری سے اتر گیا تو پھر اُنہیں ولن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ انتہائی رویوں سے گریز کیا جائے۔ اگر اُنہیں کسی طرح شہ دلاکر میدان میں اتارا گیا تھا تو بھی اُنہیں سوچنا چاہیے کہ وہ اپنے ہزاروں کارکنوںکے ساتھ میدان میں موجود ہیں اور تاریخ ان کے بارے میں فیصلہ کرنے والی ہے۔۔۔ نظام کی تباہی کے ذمہ دار یا نظام کو مضبوط کرنے والے ہیرو!