تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     24-08-2014

ثقلین بخاری کی پارلیمنٹ آن ٹرائل…!

امریکہ میں ماہرِ امراض ڈاکٹر احتشام قریشی کی مہربانی سے بالٹی مور میں پرانی کتابوں کی دکان سے خریدی گئی ایک کتاب 'امریکہ ان ٹرائل‘ آج کل بہت کام آرہی ہے ۔ امریکہ سے واپسی پر جہاز میں پڑھتا رہا اور حیران ہوتا رہا کہ کیسے کیسے مقدمات پچھلے تین سو برسوں میں امریکی عدالتوں میںپیش ہوئے‘ ان پر کیا کیا فیصلے کیے گئے اور ان کے نتائج کیا نکلے ۔ کبھی وقت ملا تو چند مقدمات کی تفصیلات آپ کی خدمت میں پیش کروں گا ۔ باقی چھوڑیں نیویارک جیسے شہر میں بھی دو سو برس پہلے تک عدالتیں مجرموں کو آگ میں جلانے جیسے فیصلے کرتی تھیں۔ ریاست کا گورنر چلاّتا رہا‘ ویسے پھانسی دے دو مگر کوئی نہ مانا۔ پورا شہر کھڑا ہوگیا کہ عدالت نے کہا ہے کہ دو سیاہ فام مجرموں کو جلا کر مارنا ہے تو پھر جلا یا ہی جائے گا ۔ دو کالوں کو باندھ کر تیل چھڑک کر جلا دیا گیا اور ان کے ارد گرد کھڑے انسان اپنے جیسے انسانوںکے جلتے ہوئے جسموں کی بو سے لطف اندوز ہوتے رہے ۔ گورنر دیکھتا رہ گیا۔
حیرانی ہوتی ہے کہ ا نسانی تاریخ کیسے بدل گئی ہے ۔ انسانی ذہنوں نے کیسے قلابازی کھائی کہ آج امریکہ کی کئی ریاستوں میں سزائے موت کا قانون ہی موجود نہیںہے ۔تو کیا ہمیںبھی امریکیوں کی طرح ایک طویل انتظار کرنا چاہیے کہ وقت بدلے گا اور انسان اپنی حیوانی جبلت پر قابو پانا سیکھے گا؟ وحشی پن کو راتوں رات کم نہیں کیاجاسکتا ‘ اس کے لیے صدیوں کا سفر درکار ہے ۔ بقول سرائیکی کے بڑے شاعر رفعت عباس کے ، سات دریا اور سات جنگل عبور کرنے پڑتے ہیں‘ پھر جا کر کہیں عشق کی منزل ملتی ہے اور اس سب بڑھ کر ان جنگلوں اور دریائوںکے طویل سفر کے کٹھن راستوں کو یاد بھی رکھنا پڑتا ہے کہ کیا خبر پھر کبھی ان راستوں پر دوبارہ سفر کرنا پڑے ۔ 
میںبھی کچھ عرصے تک یہی سمجھتا تھا کہ جمہوریت اور تبدیلی کے لیے صدیاں درکار ہیں۔ سب قومیں اس عمل سے گزری ہیں‘ تب جا کر کچھ جمہوری ادارے اور سوچ پیدا ہوئی ہے ۔ اب وقت بدل گیا ہے۔جو ترقی پچھلے بیس برسوں میں ہوئی ہے وہ انسانی تاریخ کے پچھلے ہزار برس میں نہیں ہوئی۔ اب قوموںکے پاس وقت نہیں رہا کہ وہ سیکھتے ہی رہیں۔ تھری جی اور فور جی، وائی فائی، واٹس ایپس، فیس بک، ٹوئیٹر اور سب سے بڑھ کر ورچویل رئیلٹی کے دور میں چیزیں تیزی سے بدل رہی ہیں۔ چند برس قبل جس کے گھر میں رنگین ٹی وی اوروی سی آر ہوتا تھا‘ اسے بڑا امیر سمجھا جاتا تھا۔ آج کے بچوں سے پوچھ لیں کہ وی سی آر کیا ہوتا ہے تو وہ منہ تکنے لگیں گے‘ جبکہ بیس برس قبل ان کا باپ پولیس چھاپوں سے خوفزدہ ہو کر وی سی آر نامی چیز پر فلمیں دیکھا کرتا تھا اور ڈرتا بھی تھا کہ کہیں اماں کو پتہ نہ چل جائے ۔ 
کیا پاکستان افورڈ کر سکتا ہے کہ ہم اس ملک میں تبدیلی کے لیے ایک سو برس انتظار کریں‘ کیونکہ دنیا نے ایسے ہی ترقی کی ہے ؟ ہم یہ کیوں نہیںکرتے کہ شارٹ کٹ کے ذریعے دوسرے ملکوں کی اچھی باتیں اپنا لیں جو انہوںنے صدیوں کے سفر کے بعد سیکھی ہیں۔ کیا ضروری ہے کہ ہم خود ہی ہر تجربہ کریں؟ کیا کبھی اس ملک میںکوئی ایسا کمشن یا کمیٹی بنی جو اس بات پر ریسرچ کرتی کہ امریکہ، یورپ یا دوسرے ممالک کیسے ترقی یافتہ ممالک بنے؟ مگرپاکستانی سیاستدانوں نے تو قسم کھا رکھی ہے کہ اپنے گھر اور برادری سے باہر نکل کر کوئی کام نہیں کریں گے۔ کیا وزیراعظم نواز شریف کو یہ سمجھنے کے لیے وقت چاہیے کہ اب بادشاہوں کا دور گزر چکا؟ جب ان کے سر کے اشارے سے سب کام ہوتے تھے ۔ نئی نسل بہت تیز ہوگئی ہے‘ اتنی تیز کہ انہیںپاکستانی میڈیا بھی پس ماندہ لگتا ہے ۔ انہیں لگتا ہے کہ سب سٹیٹس کو بچانا چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہر وہ صحافی جو اس نظام کو چلنے دینے کی بات کرتا ہے‘ وہ بک چکا ہے یا لفافہ صحافی ہے ۔
یہ طے ہے کہ پاکستان سیاستدان اپنے انداز بدلنے کو تیار نہیں۔ ان میں اس ملک کو چلانے اور آگے لے جانے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ یہ ہمارے جیسے عام انسان ہیں اور ان کے اندر بھی وہی لالچ، خودغرضی، بے حسی، حرص موجود ہیں جو آپ کے اور ہم میں ہیں۔ یہ بھی ہماری اور آپ کی طرح صرف اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے سوچتے اور کام کرتے ہیں۔ جتنی کرپشن کر سکتے ہیں‘ کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کو تحفظ دیتے ہیں۔ کوئی مشکل میں پھنس جائے تو سب مل کر اسے بچاتے ہیں۔ سیاستدان سیاست کے نام پر مال کماتے ہیں۔ اگر شک ہے تو پنجاب کے سابق وزیرقانون رانا ثناء اللہ کا حالیہ بیان پڑھ لیں کہ ہر ایم این اے ، ایم پی اے اور وزیر ہر ترقیاتی سکیم میں سولہ فیصد کمیشن کھاتا ہے اور اپنے حصے کی رقم ایڈوانس لیتا ہے۔ اسی لیے یہ لوگ بلدیاتی حکومتوں کے خلاف ہیں اور رہیں گے۔ دوسری طرف میڈیا کو دیکھیں تو جن لوگوں کو جیلوںمیںہونا چاہیے تھا‘ وہ چینلز پر بیٹھے ہمیںسیاست اور گڈگورننس کا سبق دے رہے ہیں۔ ایک طویل فہرست ہے ان کی‘ اور جرائم ایسے ہیںکہ ٹرائل ہوتا تو بیس برس سے کم سزائیں نہ ملتیں۔ 
کسی کو یاد رہ گیا ہے کہ کبھی سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس میں کن کن جرنیلوں کے خلاف جی ایچ کیو کو ان کا کورٹ مارشل کرنے کا حکم دیا تھا؟ ایف آئی اے کا کمشن ابھی تک نواز شریف کا بیان تک لینے کی جرأت نہیں کر سکا جن پر الزام تھا کہ انہوں نے آئی ایس آئی سے لاکھوں روپے لیے تھے ۔ کسی کو یاد ہے کہ پورے اسلام آباد کو لوٹنے والے نواز لیگ کے ایم این اے انجم عقیل خان کے خلاف دیے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کیا ہوا تھا؟ چوہدری نثار علی خان نے کیسے انجم عقیل خان کو خاموشی سے ایف آئی اے سے بچا لیا تھا۔ کسی کو یاد ہے کہ این آئی 
سی ایل سکینڈل کیس میںسپریم کورٹ نے مونس الٰہی کے بارے میںکیا حکم دے رکھا ہے کہ پاکستان سے لُوٹے گئے چالیس کروڑ روپے جو لندن کے بنک میںپڑے تھے‘ انہیں واپس لایا جائے؟ کسی کو یاد ہے کہ ان تین ریٹائرڈ جرنیلوںکا کیا بنا جو این ایل سی سکینڈل میں چار ارب روپے کی خوردبرد کے ذمہ دار تھے؟ ہم سب بھول گئے کہ ڈاکٹر عاصم حسین نے کتنی دولت اکٹھی کی اور جاتے جاتے اپنی حکومت کے آخری دن بھی ستر سی این جی کے سٹیشنوں کی منظوری بھی وزیراعظم راجہ سے لے لی۔ کسی کو پتہ نہیںکہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ نے‘ حکومت کے آخری دنوںمیں جو ایک اور ایل این جی سکینڈل میں ہونے والی بے ضابطگیوں پر ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف انکوائری کا حکم دیا تھا‘ اس کا کیا بنا۔ یا پھر حفیظ شیخ نے اپنے جس دوست کو اربوں روپے کا ٹریکر کنٹریکٹ لے کر دیا تھا‘ اس کا کیا ہوا؟ یہ وہ مک مکا ہے جو اس ملک کی جڑیں کھوکھلی کر رہا ہے اور یہ ملک ڈوب رہا ہے ۔ 
جب ہمی نے فیصلہ کر لیا ہے کہ سیاستدان اپنی اپنی کرپشن کرتے رہیں‘ ریٹائرڈ جنرل مال کماتے رہیں‘ بیوروکریٹس خاموشی سے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرتے رہیں تو اس ملک میںتبدیلی کیسے آ سکتی ہے؟ عدالتوںنے بھی کبھی مڑ کر نہیںپوچھا کہ جناب جن سکینڈلز پر انہوںنے فیصلے دیے تھے‘ ان کا کیا بنا؟ کیا توہینِ عدالت کا قانون صرف یوسف رضا گیلانی کے لیے ہی بنایا گیا تھا اور انہیں برطرف کرنے کے بعد یہ قانون خود بخود ختم ہوگیا تھا؟ سیاستدان تو عدالت سے بھی سیانے نکلے کہ انہوںنے توہینِ عدالت کے قانون میںہی تبدیلی کر دی تھی کہ وزیراعظم اور ان کے وزراء کو عدالت طلب ہی نہیںکر سکتی۔ یہ ہے وہ پارلیمنٹ جہاں آج کل جمہوریت کے حق میں اندھا دھند تقریریں کی جارہی ہیں ۔ کیا کسی ایک باضمیر ایم این اے یا سینیٹر نے ہائوس 
میں کھڑے ہو کر پوچھا کہ ٓاخر لوگ ان سے بیزار کیوں ہوگئے ہیں؟ کیا وجہ ہے سیاستدان کا نام آتے ہی کرپشن ذہن میں آتی ہے؟ کیا کسی نے اپنا احتساب کرنے کی کوشش کی ہے یا پھر وہی بات کہ سارا قصور عمران خان کا ہے؟ ان سب کا کوئی قصور نہیں۔ کیا انہوں نے کبھی ان سیاستدانوں کا احتساب کرنے کی کوشش کی جو ان کے لیے بدنامی کا سبب بن رہے تھے؟ پبلک اکائونٹس کمیٹی نے کبھی اپنے جیسے وزیر کو بلایا؟ آڈیٹر جنرل اختر بلند رانا نے آئی پی پیز کو ادا کیے گئے پانچ سو ارب روپے کا آڈٹ شروع کیا تو خورشید شاہ نے کمیٹی بنا دی کہ پتہ چلائیںکہ ٓاڈیٹر جنرل کی تنخواہ میں تیس ہزار روپے اضافہ کیسے ہوا؟ حرص اور لالچ کی یہ حالت ہے پارلیمنٹ کا ایک اجلاس اس لیے جمعہ کو ختم کرنے کی بجائے سوموار تک لے گئے کہ تین دنوں کا سیشن الائونس ملے گا۔یہ ہے ہمارے باضمیر سیاستدانوںکا حال! 
ماڈل ٹائون میں چودہ بے گناہ قتل کر دیے گئے اور کوئی ایف آئی آر تک نہیں۔ 
یہ بھی سن لیں۔ میرے گائوںکے بی اے پاس کمہار، قصائی اور نائی لڑکوں کو دو سو روزانہ پر سوئی گیس میں کام ملا ہوا تھا ۔ نواز لیگ کے لیہ سے پیر گھرانے کے چشم و چراغ ایم این اے ثقلین بخاری‘ جن کی ڈگری بھی مشکوک ہے اور وہ بھی پینتیس پنکچرز کی فہرست میں آتے ہیں، نے سوئی گیس کے افسران کو نہ صرف جا کر گالیاں دیں بلکہ ان بچوں کو بھی اس لیے برطرف کرایا کہ ان سے پوچھے بغیر انہیںدوسو روپے روزانہ پر کیسے رکھ لیا گیا تھا ۔ تسلی نہ ہوئی تو سوئی گیس کے ان افسران کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک استحقاق تک پیش کر دی کہ نائی، قصائی اور کمہار لڑکوں کو ان کی اجازت کے بغیر کیسے ڈیلی ویجز پر رکھا گیا ۔ 
یہ ہے ثقلین بخاری جیسوں کی پارلیمنٹ جس کو بچانے کے لیے ہم سب گلے پھاڑ رہے ہیں اور میں بھی ان میں شامل ہوں جو اس کرپٹ جمہوریت اور نااہل سیاستدانوں کو بچانا چاہتے ہیں۔ پتہ نہیںکیوں ہمیں اپنے قاتلوں سے پیار ہے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved